کشمیر پر مودی کا ہتھوڑا، ٹرمپ کی خاموشی اور ہماری پارلیمان


ہمیں گماں تھا کہ چونکہ امریکی صدر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہوگیا ہے اس لئے مودی کا بھارت جنوبی ایشیاء میں کشیدگی بڑھانے سے پہلے سوچابار سوچے گا۔ ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ پیر کے روز مودی سرکار نے انتہائی ڈھٹائی سے بھارتی آئین کی اس شق کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کی بدولت مقبوضہ کشمیر کو ابھی تک کم از کم دکھاوے کی حد تک ”خصوصی خودمختاری“ میسر تھی۔

ضرور پڑھیں : کشمیر پر مودی کا ہتھوڑا، ٹرمپ کی خاموشی اور ہماری پارلیمان

پیر کے روز دلی میں ہوئے اعلان کے چند گھنٹوں بعد امریکی وزارتِ خارجہ میں صحافیوں کے لئے روایتی بریفنگ ہوئی۔ اس کے دوران آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بارے میں بھی سوال اٹھا۔ ترجمان نے کمال سادگی سے جواب دیا کہ بھارت اس معاملے کو ا پنا ”اندرونی معاملہ“ سمجھتا ہے۔ امریکہ اسے بھارت کا ”اندرونی معاملہ“ سمجھتا ہے یا نہیں؟ اس پہلو کے بارے میں خاموشی روارکھی گئی۔ البتہ ان ”اطلاعات“ کے بارے میں سرسری ”تشویش“ کا اظہار ضرور ہوا جن کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ”چند افراد“ کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی بندش کے ذریعے لوگوں کے ”انفرادی حقوق“ متاثر ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ناک براہِ راست پکڑیں یا ہاتھ کو گردن کے پیچھے سے گھما کر۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے پیر کے روز ہوئے فیصلے کو بھارت کا ”اندرونی معاملہ“ قرار دے دیا ہے۔ اس کے باوجود ہم خود کو یاد دلاتے ہوئے تسلی دے سکتے ہیں کہ امریکی وزارتِ خارجہ کو 22 جولائی سے چند ہی روز قبل تک یہ علم ہی نہیں تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کی امریکی صدر سے اس دن ملاقات طے پاچکی ہے۔

امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو بھارت کا ”اندرونی معاملہ“ قرار دینے والے فقروں کی لہذا کوئی اہمیت نہیں۔ ثابت ہوچکا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اور امریکی صدر کے مابین معاملات Directہوچکے ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کو ان تعلقات کی گہرائی اور گرم جوشی کا علم نہیں۔ اس کے ترجمان اپنی لاعلمی کے اعتراف کرنے کے بجائے آئیں بائیں شائیں سے کام چلاتے ہیں۔ یہ کالم لکھنے تک مگر ہمارے ”یار“ ڈونلڈٹرمپ کا بھی بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔

مجھے گماں ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کے مشیر وائٹ ہاؤس سے رابطہ کرنا چاہ رہے ہوں گے۔ خدا کرے کہ یہ رابطہ ہوجائے اور اس کے نتیجے میں ٹرمپ یہ بیان دے ڈالے کہ مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا فیصلہ کرتے ہوئے پاک۔ بھارت کشیدگی کو بڑھادیا ہے۔ مودی اگر واقعی ٹرمپ کا دوست اور خیر خواہ ہے تو اسے یہ فیصلہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ مودی کو یہ بھی خبر ہونا چاہیے تھی کہ اس کا ”دوست۔ ٹرمپ“ افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کو بے چین ہے۔

زلمے خلیل زاد کے اس ضمن میں طالبان سے مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس نازک موقعہ پر پاکستان کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں تھی جس نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ پاکستان کا کردار فقط طالبان اور زلمے خلیل زاد کے مابین مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے تک ہی محدود نہیں ہے۔ زلمے خلیل زاد کے ساتھ طے ہوئے معاہدے پر عملدرآمد کے دوران بھی کئی نازک مراحل آئیں گے۔ پاکستان کی وہاں بھی ضرورت محسوس ہوگی۔

تمام معاملات بخیروخوبی طے ہوگئے تو امریکی افواج کو پاکستان کے زمینی اور فضائی راستوں ہی سے اپنے وطن واپس لوٹنا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر مامور زلمے خلیل زاد نے بھی پیر کی شام ایک ٹویٹ لکھا۔ اس کے ذریعے اس نے انکشاف کیا کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران اب تک ہوئی پیش قدمی کے بارے میں بھارتی قیادت کو اعتماد میں لینے کے لئے وہ ایک روز کے لئے دلی جارہا ہے۔ میرے دلِ خوش فہم کو امید بندھی کہ طالبان سے جاری مذاکرات کے درمیان زلمے خلیل زاد شاید مودی حکومت کو استاد دامن والا ”کی کری جاریاں“ والا پیغام دینے جارہا ہے۔

مذکورہ ٹویٹ ہی میں لیکن خلیل زاد نے تقریباً خطِ کشیدہ کے استعمال کے ذریعے یہ پیغام بھی دے دیا کہ اس کا یہ دورہ ”پہلے سے طے شدہ“ تھا۔ ”طے شدہ“ کا ذکر کرتے ہوئے اس نے درحقیقت یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اس کے بھارتی دارالحکومت جانے کا پیر کے روز آرٹیکل 370 کے ضمن میں لئے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔ دریں اثناء امریکی وزارتِ خارجہ کی ایلس ویلز کی قیادت میں ایک وفد پاکستان پہنچ چکا ہے۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں محترمہ ویلز اسلام آباد میں تعینات تھیں۔

ان دنوں ان سے چند ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ بہت محنتی اور ذہین سفارت کار ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے ایک ملاقات کے دوران مگر ان کے ساتھ پنجابی محاورے والا ”ہتھ“ ہوگیا تھا۔ اس کے تفصیلی ذکر کا فی الوقت موقعہ نہیں۔ فقط یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملاقات کے دوران گفتگو کو خفیہ طورپرریکارڈ کرنے کا معاملہ تھا۔ خفیہ ریکارڈنگ کا الزام مولانا پر لگایا گیا تھا۔ بہرحال پاکستان میں اپنے فرائض سرانجا م دینے کے بعد محترمہ ویلز بھارت میں بھی تعینات رہی ہیں۔

پاک۔ بھارت کشیدگی سے جڑے تمام معاملات سے بخوبی آشنا ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اسلام آباد میں قیام کے دوران وہ کسی مرحلے پر پاکستانی صحافیوں سے بھی بات چیت کرنا چاہیں گی۔ آج سے چند ہی ماہ قبل تک واشنگٹن سے آئے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد بھی اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے میں پاکستانی صحافیوں کو مدعو کرکے اپنے دورے کی بابت بریف کیا کرتے تھے۔ امریکی سفارت خانے کو شاید بتدریج ہم ”دوٹکے کے صحافیوں“ کی ”اوقات“ کا اندازہ ہوگیا۔

حالیہ دنوں میں جو دورے ہوتے ہیں ان کے اختتام پر بسا اوقات ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کام چلالیا جاتا ہے۔ سوال جواب کی نوبت نہیں آتی۔ عملی صحافت سے ریٹائر ہوا میں فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ اسلام آباد میں قیام کے دوران محترمہ ویلز چند صحافیوں کو امریکی سفارت خانے میں مدعو کریں اور بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بارے میں امریکی حکومت کی رائے سے آگاہ کریں۔ امریکی حکومت کی رائے کا طلب گارہوتے ہوئے مجھے انتہائی ندامت سے یہ اعتراف بھی کرنا ہے کہ پیر کی شام مجھے اس امر پر شدید دُکھ ہوا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس دو گھٹنے تاخیر کے باوجود شروع ہونے کے فوری بعد ختم کردیا گیا۔ بہانہ یہ تراشا گیا کہ چونکہ منگل کی صبح پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا اجلاس شروع ہوگا لہذا آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بارے میں تفصیلی بحث وہیں ہوں گی۔

پیر کی سہ پہر قومی اسمبلی کا اجلاس عین وقت پر شروع ہونا چاہیے تھا۔ اس کا آغاز ہوتے ہی ضروری تھا کہ ہمارے وزیر خارجہ پہلے سے تیار شدہ ایک بیان کے ذریعے پاکستانی حکومت کا آرٹیکل 370 کے خاتمے کے تناظر میں فوری ردعمل دُنیا کے سامنے رکھتے۔ اس کے بعد یہ کہتے ہوئے اجلاس کو مؤخر کیا جاسکتا تھا کہ مذکورہ معاملے پر تفصیلی بحث پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے دوران ہوگی۔ مان لیتے ہیں کہ ہماری پارلیمان میں ”چور اور لٹیرے“ بیٹھے ہوئے ہیں۔

بھارتی پارلیمان میں ایسے افراد کی تعداد یقین مانیے ہماری پارلیمان سے مگر کہیں زیادہ ہے۔ نریندر مودی نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان ”قوم سے خطاب“ کے ذریعے نہیں کیا۔ پیر کے روز کابینہ کی خصوصی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد بھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ ترنت بھارتی پارلیمان کے ایوانِ بالا میں پہنچا۔ وہاں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لئے ”آئینی ترمیم“ پیش کی۔ منگل کے روز اسے ووٹنگ کے ذریعے منظورکروانے کی تیاری ہے۔

مودی سرکار مذکورہ بالا کارروائی کے ذریعے دنیا کو یہ باور کروانا چاہ رہی ہے کہ آرٹیکل 370 کو فقط اس نے ختم نہیں کیا۔ یہ بھارت کی ”منتخب“ پارلیمان کا فیصلہ ہے۔ نریندرمودی کے پاس یہ اختیار ہی موجود نہیں کہ وہ پارلیمان کے ذریعے نافذ ہوئے فیصلے سے روگردانی کرسکے۔ ”پارلیمان میں ہوئے فیصلے“ کی اہمیت دُنیا کو سمجھانے میں آسانی ہوتی ہے۔ کاش ہماری حکومت نے بھی قومی اسمبلی کو پیر کی شام تھوڑی عزت دیتے ہوئے اس کے فلور کو 370 کے بارے میں فوری ردعمل دینے کے لئے استعمال کیا ہوتا۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).