خصوصی افراد اور معذور معاشرہ


ہر خصوصی فرد جو پیدائشی یا حادثائی وجہ سے کسی ظاہری جسمانی عیب کا شکار ہو بھکاری نہیں ہوتا۔ اس کی عزت نفس کا، اس کی جسمانی کمی کی طرح خیال رکھنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں ان مخصوص افراد کے ساتھ خصوصی محبت کا برتاٶ اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھنا ان معاشروں کے تہذیب یافتہ ہونے کی نشانی اور ہر فرد کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان اوصاف سے عاری ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں ظالمانہ اور مجرمانہ حد تک بے حس ہے۔ اور یقینأ یہی وجہ ہے ہمارے معاشرے جیسے معاشروں میں عزت نفس کھونے والے خصوصی افراد بھکاری تو بن سکتے ہیں مگر اسٹیفن ہاکنگ نہیں بن سکتے کیونکہ ہمارا معاشرہ آخرت کی بھلائی کے لئے اسٹیفن ہاکنگ کے بجائے بھکاریوں کو زیادہ کار آمد سمجھتا ہے اور اسی لئے ہر معذور کی عزتٍ نفس کو مجروح کر کے بھکاریوں کی تعداد بڑھانے کو کارٍ خیر سمجھتا ہے۔

میں ایک ایسے ہی انسانیت کے لئے شرمناک واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں اور اب ضبط کے تمام بندھن توڑنا چاہتا ہوں کیونکہ مزید برداشت کی کوشش مجھے دیوانہ کر دے گی۔ اب خود کو اسلامی کہنے والے اس نام نہاد مسلمان معاشرے کو اس کا غلیظ چہرہ دکھائے بغیر مجھے چین نہیں آئے گا۔ یہ 2019 کا واقعہ ہے۔ مجھے قراقرم ٹرین میں حیدرآبادسے لاہور جانا تھا۔ کراچی سے چار بندے پہلے ہی بیٹھ کر آ رہے تھے۔ ان میں ایک بندہ پاؤں سے معذور تھا (بعد میں تعارف ہونے پر معلوم ہوا کہ ان کا نام نعیم ہے) ۔ وہ کراچی سے ملتان جا رہا تھا۔ وہ کراچی میں کسی فیکٹری میں کمپیوٹر آپریٹر تھا اب چھٹیاں منانے گھر جا رہا تھا۔ رات کے دو بجے تین پولیس والے آئے چیکنگ کرنے کے لیے۔ بندہ پوچھے اب یہ کون سا ٹائم ہوتا ہے چیکنگ کا؟ خیر میری نیچے والی برتھ سیٹ تھی مجھے بھی نیند سے اٹھایا اور چیکنگ کا کہا گیا۔ میری چیکنگ کے بعد اوپری برتھ پر سوئے نعیم جو معذور تھااس کی باری آئی۔ پولیس والے بہت توہین آمیز اور سخت لہجے میں بات کر رہے تھے۔ ہمارے سامان سمیت جیب اور پرس بھی چیک کیا گیا۔

پولیس والوں نے ہر کسی کے پرس سے سو دوسو روپے بھتہ کے طور پر زبردستی نکالے۔ پولیس والے نے نعیم کو بھی سختی سے کہا ”جلدی سے نیچے اترو، چیکنگ کراؤ اپنے سامان کی اور ٹکٹ بھی دکھاؤ!“ تو میرے ساتھ والے بندے نے پولیس والے کو کہا کہ” سر ان کو چھوڑ دیں یہ معذور بندہ ہے۔“ تو پولیس والے نے بجائے لحاظ کرنے کے الٹا سخت الفاظ میں نعیم کو کہا کہ ”اوئے لنگڑے جلدی اترو ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے۔ جب ٹھیک سے چلا نہیں جا رہا ہے تو گھر سے نکلتے کیوں ہو؟“ خیر نعیم سیٹ برتھ سے نیچے اترتے وقت پاؤں کا صحیح توازن نہیں رکھ سکا اور سیدھا نیچے پولیس کے قدموں میں جا گرا۔ دوسرے پولیس والے نے نرمی سے اٹھانے کی بجائے نعیم کی شرٹ کے کالر کو ہاتھ سے پکڑ کر سخت لہجے میں کہا ”اٹھو اور ٹکٹ دکھاؤ۔“ ساتھ بیٹھے لڑکے نے کہا کہ ”سر یہ معذور ہے آپ ان کے ساتھ کس طرح پیش آ رہے ہے جیسا کوئی اس نے بڑا جرم کیا ہو؟“ پولیس والے نے طیش میں آکر اس بندے کو دھمکی دے کر خاموش کرا دیا اور نعیم کو لنگڑا لفظ بار بار دہرا کر کھڑا ہونے کو کہا۔ پولیس والے نے نعیم کی ٹکٹ، سی این آئی سی دیکھی اور اس کی جیب سے پیسے نکال کر گننے لگا۔ سو روپے لے کر پولیس والے نے اپنی جیب میں رکھ کر نعیم کو پھر وہی لنگڑے والا لفظ کہا اور چلا گیا۔

میں نے نعیم کو دیکھا تو بہت خاموش تھا اور اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مجھے بہت افسوس ہوا میں نے نعیم کو کہا ”آپ اتنی خاموشی سے پولیس والوں کی بدتمیزی سنتے رہے اور کچھ بھی نہیں کہا۔“ نعیم کی آنکھوں میں بے تحاشا آنسو جاری تھے وہ کہنے لگا ”پولیس والا صحیح تو کہہ رہا تھا میں لنگڑا ہوں، تو لنگڑا ہی کہیں گا نا۔“

میں نے نعیم کوکہا ”آپ معذور نہیں ہیں، آپ بہت بڑے ہمت والے اور بہادر انسان ہیں معذور تو وہ پولیس والے تھے ان کا ذہن معذور ہے۔“ میرے ساتھ دوسرے دوستوں نے بھی نعیم کو ہمت دلائی لیکن نعیم کی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

کہتا رہا: ”جب کوئی بھی معذور کہتا ہے تو خود سے نفرت لگنے لگتی ہے۔ کتنا اچھا ہوتا مختلف جسمانی معذوری والے بندے کے لیے معذور لفظ کی جگہ کوئی اچھا سا لفظ ہوتا جس سے معذور افراد کا دل نہ ُدکھتا ہو اور ان کو اچھے لفظوں سے بلایا جاتا۔ معذور کتنا معیوب لفظ ہے، گھن آتی ہے اب مجھے اس لفظ سے اور اس بے حس معاشرے اور اُن پڑھ لوگوں کے رویوں سے جو معذور کا احترام نہیں کرتے کوئی مجھے ایسے ناگوار الفاظ سے بلاتا ہے تو حقیقت سامنے آجاتی ہے اور خود کو دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔ میرے زیادہ تر دوست احباب بہت اچھے ہیں، میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ مجھے کہتے ہیں ’آپ خود کو معذور نہ سمجھو‘ میرا جواب ان کو ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہو کہ میں واقعی معذورنہیں ہوں مگر معاشرتی رویوں کی وجہ سے میں معذور ہوں۔ کوئی بھی جسمانی عیب والابندہ بشر اپنے آپ کے لیے معذور جیسا الفاظ سننا پسند نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ سمجھے گا کہ مجھ میں یہ عیب ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والے لوگ انہیں اپنی باتوں کے نشتر سے یہ احساس دلاتے ہیں۔ ان کو بوجھ سمجھتے ہیں ان کو معذوری کے سبب دوسرے انسانوں سے کمتر سمجھتے ہیں۔“

جب کوئی معذور فرد ہمت کر کے نوکری کے لیے انٹرویو دینے باہر نکلتا ہے تو ان کو اس لیے نوکری نہیں دیتے کہ یہ معذور ہے کسی کام کا نہیں ہے۔ رحم اور ترس کی نظریں ایک خود دار معذورشخص کو اندر ہی اندر مار دیتی ہیں۔ آپ ترقی یافتہ ممالک چلے جائیں جہاں انسان تو کیا جانوروں کے بھی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے ان لوگوں اور معاشرے کا معذور افراد کے ساتھ مساوی بلکہ بہتر اور باعزت رویہ ہوتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کو دیکھ لیجیے وہ ایک ایسے ترقی یافتہ ملک سے تعلق رکھتا ہے جہاں معذور افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے وہاں کے معاشرے مختلف جسمانی معذور افراد کو بھی اپنی ہی طرح خدا کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اسٹیفن ہاکنگ ایک ایسے معاشرے میں رہتے تھے جہاں معذوری کو کسی گناہ کی سزا نہیں سمجھا جاتا، وہاں معذور افراد کو لاچار اور محتاج سمجھ کر گھروں میں قید نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی ثواب کمانے کی خاطر انہیں صرف زکوٰۃ اور صدقات کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔

اسٹیفن بہت خوش قسمت تھے کیوں کہ وہ ایک ترقی یافتہ ملک کا معزز معذور شہری ہے۔ اسٹیفین ہاکنگ کے الفاظ ترقی پذیر ممالک کے اُن معذور افراد پر صادق آتے ہیں جہاں انہیں اکیسویں صدی میں بھی صرف خدا ترسی اور ہمدردی کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔

لیکن پاکستان میں لوگوں کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ بیشتر معذور افراد انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں، انہیں اپنی زندگی کو برقرار رکھنے اور قابلِ قدر روزگار حاصل کرنے کے لیے بے شمار مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلام نے خصوصی افراد کی عزت و تکریم ان کا خیال اور اچھا سلوک کرنے کا خصوصی طور پر حکم دیا ہے کہ دوسرے افراد کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ دوسرے افراد پر انہیں ترجیح دی جائے۔ مسلمانوں کے لیے جو احکامات دیے گئے ہیں اُس کا عملی اظہار اہل مغرب کررہے ہیں۔

یورپ میں خصوصی افراد کے لیے مثالی سہولتیں اورعزت و احترام ہے۔ ممکن ہے کہ اسی وجہ سے رب کریم نے وہاں کے لوگوں پر بہت سی نوازشات کی ہیں۔ معذور افراد کی صلاحیتیں اور کام کرنے کا جذبہ نارمل انسانوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے خدارا ان پر ترس کھا کر نظر انداز مت کریں ان کو مایوس نہ کریں، نہ ہی ان کو ایسے الفاظ سے بلائیں جو انہیں احساس کمتری میں مبتلا کردیں۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک اورتعاون کیا جائے تو یہ عام لوگوں کی طرح مفید شہری بن کر اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).