قطر اور غریب مزدور


کسب حلال، عبادات کے بعد افضل ترین بیان ہوا ہے اور انسان مختلف طریقوں اور ذرائع سے رزق کماتا ہے۔ پرانے زمانے میں اس کے ذرائع کافی محدود تھے لیکن وقت کے ساتھ اس میں کافی وسعت پیدا ہوئی۔ اس کا سب سے کم درجے والا ذریعہ مزدوری ہے لیبر ورک۔ اپنے ملک کے اندر بھی انسان کو اس معاملے کافی مشکلات کا سامنا ہے اور اس میں حق تلفی کا رجحان بہت زیادہ ہے لیکن اگر انسان اپنے وطن سے دور ہو اور دھوکا دہی یا حق تلفی کا شکار ہو تو یہ ایک عذاب سے کم نہیں۔

مجھے قطر کی سڑکوں پر گھومتے پھرتے کچھ افسردہ اور مایوس چہرے نظر آئے۔ وہ لوگ شکل سے پردیسی لگ رہے تھے۔ ان کے چہروں پر انتہا درجے کی مایوسی تھی اور وہ حلیے سے کافی غریب دکھائی دے رہے تھے لگ رہا تھا بات کرنے پر رو پڑیں گے۔

ان میں بھارتی، نیپالی، بنگلہ دیشی، پاکستانی خاص طور پر پختون بندے زیادہ تعداد میں تھے۔

میں نے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں جو ایسے خالی خالی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں؟ تو مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مزدوری کے لئے آئے ہیں لیکن ان کے پاس کام نہیں ہے، اور بے روزگار ہیں۔ ان پڑھ یا واجبی سی تعلیم اور پردیس اور خالی جیب اور پچھے خاندان! انسان کے لیے اس سے زیادہ تکلیف کا مقام کیا ہوسکتا ہے۔

میرا دل ان کو دیکھ کر بہت دکھا۔ میں نے کہا کہ یہ لوگ واپس کیوں نہیں جاتے؟ تو بتایا گیا کہ بہت کم ہوتے ہیں جو چلے جاتے ہیں کیونکہ ایجنٹ مافیا ان سے تین سے پانچ لاکھ روپے لیبر اور ٹیکسی ویزا کی مد میں ہتھیا چکے ہوتے ہیں۔ پردیس آنے کے تیں ماہ بعد وہاں جو کمپنی ہوتی ہے وہ، مزید روپے کمانے کے چکر میں اور لوگوں کو ویزہ دے دیتے ہے اور ان کو کہنا شروع کرتے ہیں کہ ”کمپنی نقصان میں چل رہی ہے، حالات خراب ہیں“ اور ایک روز ان کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ نہ اِدھر کے رہ پاتے ہیں نہ اُدھر کے۔

قطراور متحدہ عرب امارات کے لئے لیبر ویزہ مفت ہے لیکن تعلیم کی کمی کی وجہ اور ایجنٹ مافیا کی بدولت یہ کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ قطر کی حکومت ایسے لوگوں کو مفت اپنے ملک بھجوانے میں مدد کرتی ہے بہت سے لوگ مجبوری کی وجہ سے واپس نہیں آتے کیونکہ تقریباً سب نے قرضہ لے کر ویزہ لیا ہوتا ہے۔

حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ ایجنٹ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ٹی وی اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے عوام میں اس معاملے میں شعور پیدا کیا جائے تا کہ لوگ دھوکہ باز ایجنٹ مافیا کے ہاتھوں لٹنے سے بچ جائیں اور پاکستان کا نام بھی خراب نہ ہو اور پردیس میں ایسے مایوس چہرے اور خالی آنکھیں دکھائی نہ دے جن کو دیکھ کر رونے کو دل چاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).