مقبوضہ کشمیر کو گلگت بلتستان والی حیثیت کیوں دی گئی؟


بھارت نے بالآخر وہی کام کیا جس کے لئے کئی برسوں سے ان کے سیاسی رہنما کوشش کر رہے تھے۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی کیا جسے ختم کردیا گیا؟ ہم اس تحریر میں اس بنیادی سوال کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا موجب کون بنا؟

دنیا جانتی ہے کہ تنازعہ کشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے جنوبی ایشیا کا متنازعہ ترین مسئلہ ہے۔ بھارت اور پاکستان کئی جنگیں لڑ چکے لیکن مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں ہوسکا۔ کشمیر کا آدھے سے زیادہ حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے۔ جسے کئی حوالوں سے ایک خصوصی اور عبوری ریاست کی حیثیت حاصل تھی۔ دیگر صوبوں کی طرح کشمیری عوام کو بھارت کے آئین ساز اداروں میں نمائندگی حاصل ہے اور ان کی نمائندگی جاری رہے گی۔ دیگر ملکی امور میں بھی عام شہریوں کی طرح کشمیری عوام برابر کے حصہ دار تھے، ہیں اور رہیں گے۔ تو وہ کون سی خصوصی بات تھی جو اب نہیں رہی؟ دراصل جب برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم کا عمل شروع ہوا، تب جموں کشمیر اور اس کے زیر انتظام علاقوں پر اس وقت کے قابض انگریزوں کی کٹھ پتلی ڈوگروں کی حکومت قائم تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا، یوں موجودہ پاکستانی صوبے اور بنگلہ دیش پاکستان کے حصے میں آیا۔ کشمیر میں مسلمان عوام نے پاکستان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی مگر ڈوگرہ راجہ اس کے خلاف تھے۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق ڈوگرے اول تو اپنی راجگیری کو ایک تیسری ریاست کے طور پر قائم رکھنا چاہتے تھے مگر ایسا ممکن نہ ہوا۔ موجودہ آزاد کشمیر میں مسلمانوں نے ڈوگروں سے آزادی کا اعلان کیا، کئی علاقوں بشمول گلگت بلتستان میں ڈوگروں کے خلاف بغاوت اور جنگیں شروع ہوگئیں۔ یوں ڈوگرہ راجہ نے انڈیا سے مدد طلب کرتے ہوئے اپنی ریاست کا الحاق انڈیا کے ساتھ کردیا۔ اقوام متحدہ تک معاملہ پہنچا اور قرار پایا کہ اس مسئلے کا حل پورے کشمیر میں استصواب رائے کی بنیاد پر نکالا جائے گا۔ مگر تاحال بوجوہ استصواب رائے کی نوبت نہیں آئی۔

تنازعے کا شکار کشمیر ریاست تب سے اب تک دو ملکوں میں مگر تین مختلف حیثیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام علاقہ ایک صوبے کی شکل میں موجود ہے جسے دیگر انڈین صوبوں کی طرح تمام ملکی اداروں میں نمائندگی حاصل ہے، دوسری طرف پاکستان کے زیر انتظام علاقوں میں آزاد کشمیر ریاست کو معاملات میں اندرونی خودمختاری حاصل ہے جبکہ گلگت بلتستان تب سے اب تک نہ تین میں ہے اور نہ تیرہ میں۔ چونکہ گلگت بلتستان کی عوام نے بزور بازو اپنے علاقے کو ڈوگروں کی عملداری سے آزاد کرکے پاکستان کے حوالے کردیا۔ اور اس حوالے سے کوئی شرائط اور تحریری معاہدہ تک طے نہیں پایا، اس لیے پاکستانی حکمرانوں نے نہ ہی اس علاقے کو انڈین زیر انتظام کشمیر کی طرح آئینی اداروں میں نمائندگی دینا ضروری سمجھا اور نہ ہی آزاد کشمیر طرز پر اندرونی امور میں خودمختاری دی۔ کئی دہائیوں تک ایف سی آر کے کالے قوانین کے تحت چلانے کے بعد یہاں لوکل سیاسی سیٹ اپ بنا کر ”مقامی عوام کے لئے مکمل غیر جمہوری صدارتی حکم نامے“ کے پاپند کٹھ پتلی ادارے کے ذریعے عوام کو ایک چکر میں لگا دیا، جس کے گرد یہاں کے عوام اب بھی طواف کر رہے ہیں۔

اب بنیادی سوال کی طرف آتے ہیں وہ تھا بھارتی زیر انتظام کشمیر کے خصوصی حیثیت کا۔ دراصل جب ڈوگروں کی اس پورے علاقے پر راجگیری تھی، تب ریاستی قانون کے تحت اس کے مختلف علاقوں میں غیر ریاستی باشندوں کی آبادکاری پر پابندی عائد تھی۔ یعنی دوسرے علاقوں کے لوگ یہاں آکر زمین جائیداد نہیں خرید سکتے تھے نہ ہی غیر آباد زمینوں پر آکر بس سکتے تھے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ سردست ان کی تفصیل میں جانے کی حاجت نہیں۔ تقسیم ہند کے بعد جب کشمیر تنازعے کا سوال اقوام متحدہ میں اٹھا تو استصواب رائے کی بات آگئی۔ اور ظاہر ہے استصواب رائے تب کی یعنی 1947 کی کشمیر کی ڈیموگرافی کے تحت ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ ایک خطہ جب کسی اور ریاست کی عملداری میں آجائے تو ریاست وہاں کی آبادی بڑھانے یا ضرورت پڑنے پر گھٹانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ جموں کشمیر اور اس کے زیر انتظام رہنے والے علاقوں میں غیر مقامی آبادکاری سے روکنے کے لئے قوانین نافذ رہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقوں میں اس قانون کو ختم نہیں کیا، بلکہ نہ صرف ملکی آئین میں ایک شق 35۔ A کے تحت ڈوگرہ سلطنت کے اس اصول کو قائم رکھا گیا، بلکہ دفعہ 370 کے تحت ریاست کشمیر پر ہندوستانی آئین کے نفاذ سے بھی مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ جنہیں اب 72 سال بعد ان کے قانون ساز اداروں نے ختم کرنے کی سفارش کی اور گزشتہ دنوں اس سفارش کو باقاعدہ قانون کی شکل دے کر اس پر عملدرآمد کرنے کا اعلان بھی ہوچکا۔ یوں اب کشمیر کے ایک بڑے حصے میں غیر مقامی افراد کی آبادکاری پر لگی پابندی ختم ہوگئی، اور ریاست کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہونے کے ساتھ تمام انڈین قوانین کو لاگو کردیا گیا۔

جموں کشمیر کا اب ایک اکائی بھی نہیں رہی بلکہ علاقہ لداخ کو بغیر کسی مقامی اسمبلی کے وفاق کے انتظام قرار دیا گیا، جبکہ جموں کشمیر کی ایک مقامی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ اسی لئے جموں کشمیر کے مقامی سیاسی و سماجی حلقوں میں اس وقت افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ عوامی رد عمل کو روکنے کے لئے بھارتی حکومت نے سابق وزرائے اعلیٰ سمیت چیدہ چیدہ سیاسی رہنما گرفتار کرلئے ہیں اور خبروں کے مطابق وہاں سکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ سخت سکیورٹی بھی بڑھا دی ہے۔

یہاں تک بات تھی انڈیا کے زیر انتظام علاقہ کشمیر اور وہاں کے موجودہ حالات کی۔ اب آتے ہیں ایک اور سوال کی طرف۔ جہاں یہ سوال کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو واضح کرے گا وہاں اس بات کی بھی وضاحت ہوجائے گی کہ پاکستان اس وقت انڈیا کی حرکت پر کس حیثیت میں احتجاج کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت نے کیا ایسا کرکے کوئی انہونی کردی؟

تاریخ اور خطے کی صورتحال سے واقفیت رکھنے والوں کے لئے یہ کوئی انہونی بات ہرگز نہیں۔ بلکہ یوں کہے تو غلط نہیں ہوگا کہ بھارت نے وہی کام کیا جو پاکستان نے اسے سکھایا۔ وہ کیسے؟ جب قریب نو دہائی قبل غالبا سنہ 1927 میں مذکورہ ”قانون باشندہ“ لاگو ہوا تو اس کے بیس برس بعد سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے موقع پر کشمیر بھی عملاً بٹ گیا۔ مگر دو کی بجائے اس کے تین حصے ہوگئے اور بھارتی زیر انتظام علاقوں میں تب سے لے کر آج تک ”قانون باشندہ“ بھارتی آئین کے شق 35۔ A کی شکل میں نافذ رہا۔ دوسری جانب پاکستانی زیر انتظام علاقوں میں سے آزاد کشمیر کو چونکہ ریاستی خودمختاری حاصل ہے اس لیے وہاں مقامی آئین ساز اداروں کو اس معاملے میں قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ رقبے میں آزاد کشمیر سے دوگنا بڑا علاقہ گلگت بلتستان، جس کی بڑی طویل سرحد چائنہ کے ساتھ ملتی ہے، اور تین بلند ترین پہاڑی سلسلوں سمیت دریاوں جھیلوں اور ندی نالوں پر مشتمل علاقہ ہے، یہاں سے اس قانون کو عملاً ختم کردیا گیا۔ یہاں ”قانون باشندہ“ کو نافذ رکھ کر علاقے پر غیر مقامی افراد کی آبادکاری سے روکنے کو ضروری سمجھا گیا اور نہ ہی اس خطے کو ملکی آئینی، قانونی و مالی ادارہ جات میں نمائندگی دینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔

یوں بھارت نے جو اقدام 72 سال بعد اب اٹھائے، وہ مملکت پاکستان کے عاقبت نا اندیش حکمران اول دن اٹھا چکے۔ اب انڈین مقبوضہ علاقوں میں غیر مقامی افراد کی آبادکاری سے وہاں کی ڈیموگرافی یقیناً بدل جائے گی۔ اس بات پر پاکستان حکمران عالمی اداروں سمیت دوست ملکوں تک سے روابط کر رہے ہیں۔ شہر شہر احتجاج ہورہے ہیں، شہہ سرخیاں اور پریس کانفرنسز ہورہی ہیں، مگر غور نہیں ہورہا تو اپنے زیر انتظام علاقہ گلگت بلتستان کی محرومیوں، ان کے حقوق اور ان کی ضروریات اور مطالبات پر نہیں ہو رہا۔

سر دست پاکستانی حکومت کے مطالبات یقیناً درست ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی میں تبدیلی انڈین گورنمنٹ کے مکروہ عزائم کو آشکار کرتی ہے۔ کشمیری عوام پر مظالم ڈھا کر اور ان کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ وہاں پر ہزاروں کشمیریوں کو حقوق مانگنے کے جرم میں شہید اور خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ان سب کی شدید مذمت کی جاتی رہی اور اب بھی ان کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اس معاملے میں کوئی دو رائے نہیں کہ کشمیر اور کشمیریوں کے معاملات میں پاکستان کا موقف یقیناً کشمیری مظلوم عوام ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کا موقف ہے۔

کشمیر میں کنٹرول لائن کے دونوں جانب جو احتجاج ہورہا ہے وہ حق بجانب ہے، خود انڈین پارلیمان میں اپوزیشن بھی سخت احتجاج کررہی ہے۔ اب اس کے ساتھ ہی یہ بات ہمارے حکمرانوں اور ملکی فیصلہ ساز اداروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ٹھیک ہے گلگت بلتستان والے پر امن ہیں، محب وطن ہیں، پاکستان کے لئے ہزاورں قربانیاں دے کر اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنیوالے ہیں، اس کے لئے قدرتی وسائل سمیت سیاحت، پانی، گلیشئر اور دنیا کی سب سے بڑی اکانومی چین تک زمینی رابطے کا واحد ذریعہ ہیں، جموں کشمیر جتنی 7 ملین کی آبادی نہیں، نہ آزاد کشمیر جتنی 4 ملین کی، مگر بائیس لاکھ انسانوں کی آبادی سات دہائیوں سے آئینی اور بنیادی جمہوری حقوق سے محروم ہے۔ ان کی محرومی کا سبب کوئی اور نہیں مملکت خداداد پاکستان کے حکمران اور مقتدر ادارے ہی ہیں۔ کشمیری جس حق کے چھن جانے پر سراپا احتجاج ہیں اور پاکستان عالمی طور پر اس ایشو کو اتنا اٹھانے پر مجبور ہے تو یہی معاملہ گلگت بلتستان کا بھی ہے۔ گلگت بلتستان والے بھی اپنی بابت اٹھاتے رہے ہیں، جن کی آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ہماری عوام دو چیزوں کی بات کرتی ہے۔ یہ کہ مکمل ملکی آئین کے مطابق اس خطے کو شناخت اور تمام آئینی اداروں میں نمائندگی دی جائے، اور دوسری کشمیر پر تصفیہ ہونے تک علاقے میں ”قانون باشندہ“ کو عملاً نافذ کیا جائے، جسے آج تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے حقوق کے مطالبات گونجتے رہے مگر پاکستانی اداروں اور حکمرانوں کی جانب سے بارہا اس خطے کو تنازعہ کشمیر سے ملاتے ہوئے حیلے بہانے کیے جاتے رہے۔ چونکہ اس خطے کی محرومی کا سبب حکمرانوں کے ہی نا پختہ اور غیر ذمہ دارانہ فیصلے تھے اور ہیں، پس ہماری نظر میں اسی بنیاد پر آج انڈیا، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے گلگت بلتستان والی حیثیت دے چکا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ مقبوضہ کشمیر والوں کو انڈین آئینی اداروں میں نمائندگی حاصل ہے جبکہ گلگت بلتستان کو پاکستان نے یہ حق بھی نہیں دیا۔ سو ملک عزیز کے حکمرانو! یہ راستہ آپ لوگوں نے ہی انہیں دکھایا۔ اور اپنے دکھائے راستے پر آج آپ کو دنیا کے سامنے احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔ کاش جب گلگت بلتستان کی بائیس لاکھ عوام احتجاج کر رہے تھے، اپنے حقوق مانگتے تھے، تب آپ انہیں درخوراعتنا سمجھتے، تو یہ نوبت نہ آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).