فوج کے ساتھ تو ہیں لیکن ایک جماعت کے وزیر اعظم کے ساتھ نہیں: مشاہد اللہ خان


پاکستان کی پارلیمان نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حثیت تبدیل کرنے سے متعلق پیش کی جانے والی مذمتی قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اب پاکستانی حکومت پرعزم ہے کہ مسئلہ کشمیر کو نہ صرف عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے گا بلکہ کشمریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔

بدھ کو مسئلہ کشمیر پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا دوسرا دن تھا لیکن نہ پہلے دن والی گہما گہمی تھی اور نہ ہی ارکان پارلیمنٹ میں وہ جوش و جذبہ تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے نہ پارلیمنٹ میں آنے کی زحمت کی اور نہ ہی قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف ایوان میں آئے۔ آج حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کی سیکنڈ اور تھرڈ لیڈرشپ نے تقاریر کرنی تھیں اس لیے نہ صرف ارکان پارلیمنٹ کی تعداد کم تھی بلکہ کشمیر کے معاملے پر ان کا جذبہ بھی کچھ ماند سا دکھائی دیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری بھی اس وقت ایوان میں تشریف لائے جب ان کی تقریر کرنے کا وقت قریب آن پہنچا۔ اپنی تقریر میں آصف زرداری نے کشمیر کی آئینی حثیت کو تبدیل کرنے کو سنہ 1971میں ہونے والے سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ قرار دیا۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے عمران خان کو سلیکٹیڈ وزیر اعظم بھی کہا اور اپنے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اصل طاقت ان کے پاس ہے۔ آصف زرداری کی تقریر کے بعد وفاقی وزیر شیخ رشید تقریر کرنے کے لیے اُٹھے تو سابق صدر اپنی نشست سے اٹھے اور ایوان سے یہ جا وہ جا۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت متعدد ارکان نے بھی تقاریر کیں لیکن شاید ان کی باتیں اتنی پراثر نہیں تھی جس کی وجہ سے متعدد ارکان جمائیاں لیتے نظر آئے۔

اجلاس میں جان اس وقت پڑی جب سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ نون کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اُنھوں نے اپنی تقریر کا آغاز ہی کیا تھا کہ وفاقی وزیر فواہد چوہدری نے اونچی آواز میں بولنا شروع کردیا۔ مشاہد اللہ خان کی جانب سے فواد چوہدری کے لیے استعمال کیے گئے سخت الفاظ پر حکومتی بینچوں کی طرف سے شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔ فواد چوہدری اور کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن قومی اسمبلی مشاہد اللہ خان کی طرف بڑھے تاہم دیگر ارکان پارلیمنٹ درمیان میں آ گئے۔

اس موقع پر ارکان پارلیمنٹ مسئلہ کشمیر اور کمشیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کو بھول گئے اور ایک دوسرے کی قیادت کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ مشاہد اللہ خان نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے کہا کہ لوگ قومی ایئر لائن کے جہازوں کے تاخیر سے پہنچنے کا رونا روتے ہیں لیکن یہاں پر تو کشمیر کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں لینڈ کرنے کے لیے وزیر اعظم کا جہاز چھ گھنٹے لیٹ تھا۔ یہ بات سن کر حکومتی بینچوں نے پھر شور شرابہ کرنا شروع کردیا۔

سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اس معاملے کو سلجھانے کو کوشش کرتے رہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی اسمبلی کے سپیکر کی عدم موجودگی میں سینیٹ کے چیئرمین نے اجلاس کی صدارت کی۔

اجلاس میں عمران خان کی طرف سے حزب مخالف کی جماعتوں سے مسئلہ کشمیر کے معاملے پر تجاویز سے متعلق مشاہد اللہ نے کہا ’انھی سے مشورہ لیں جن کے مشوروں پر چلتے آرہے ہیں۔‘ تاہم انھوں نے کہا کہ اگر مشورہ لینا ہے تو کوٹ لکھپت جیل جائیں جہاں نواز شریف قید ہیں اور اگر نہیں جاسکتے تو سابق صدر آصف علی زرداری جو ایوان میں موجود ہیں، ان سےہی مشورہ لیا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ آصف علی زرداری عمران خان کو ایسے ٹپس بتائیں گے جس کے بعد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی عمران خان کا فون فوری اُٹھا لیں گے۔ مشاہد اللہ خان کے اس جملے پر ایوان میں زوردار قہقہ بلند ہوا۔

سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو شاید یہ بات ناگوار گزری اور اُنھوں نے مشاہد اللہ خان کو تقریر جلد ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ جس پر پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک سینیٹر نے کہا کہ وہ اس لیے انھیں تقریر ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں کیونکہ اُنھوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اُنھیں ووٹ نہیں دیا جس پر ایک مرتبہ پھر ایوان میں زور دار قہقہ بلند ہوا۔

مشاہد اللہ خان نے اپنی تقریر میں توازن پیدا کرنے کے لیے کہا کہ پاکستان کی قوم فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ساتھ ہیں لیکن ایک جماعت کے وزیر اعظم کے ساتھ نہیں جو ملک کی سویلین قیادت کو بیرون ممالک جا کر بدنام کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنی تقریر میں جب انڈیا کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا کہا تو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے ارکین نے راولپنڈی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ وہاں سے کچھ ٹپس ملی ہیں۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق پارلیمان سے قرارداد تو متفقہ طور پر منظور ہوگئی لیکن ارکان پارلیمنٹ نے اپنی تقریروں کے دوران اتنا برا بھلا شاید انڈیا کے وزیر اعظم کو نہیں کہا جتنا برا بھلا وہ ایک دوسرے کی سیاسی قیادت کو کہہ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp