علم اور تجربہ


ہر معاشرہ کچھ ان پڑھ اور کچھ تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دونوں طبقات کے لوگوں کو اپنی زندگی میں بہت جلد ان دونوں طبقات میں سے کسی کا ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ بعض معاشروں میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور بعض میں ان پڑھ لوگوں کی۔ بعض معاشروں میں یہ دونوں طبقے ایک ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور بعض معاشروں میں ان طبقات میں بہت فاصلہ ہوتا ہے اوریہ دونوں طبقے ایک دوسرے کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور اپنی اپنی دنیا میں رہتے ہیں۔ دونوں ہی طبقات اپنی اپنی جگہ اپنے مسائل کے اپنی اپنی سوچ کے مطابق بہترین حل نکال سکتے ہیں۔ ان پڑھ لوگ بھی بھر پور کامیاب زندگی گزارتے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے معیار کے مطابق کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔

ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگ اپنے پرکھوں کے تجربے کے زور اپنے مسائل کا حل نکاتے ہیں۔ جبکہ تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے تجربے کے ساتھ ساتھ علم کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے اور اپنے علم کے ساتھ ساتھ دوسروں کی تحقیق سے فائدہ اٹھانے کے مواقع بھی میسر ہوتے ہیں۔ ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جن حالات میں وہ زندگی گزار رہے ہیں وہ حالات ان کے پرکھوں کی زندگی سے مختلف نہ ہوں ورنہ ان کا تجربہ کمزور پڑ جائے گا اور نئے حالات ان کے لئے آسان نہیں ہوں گے ۔ دوسری طرف تعلیم یافتہ طبقے کے پاس نہ صرف ان کے پرکھوں کا تجربہ ہوتا ہے بلکہ جدید تعلیم بھی ہوتی ہے جو کہ اس تجربے کو جدید تقاضوں کے مطابق لاگو کرکے بہت سے نئے حالات پیدا کرتی ہے۔

ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کی دنیا تھوڑی محدود ہوسکتی ہے اور بعض دفعہ ایک ہی معاشرے کے مخلتف علاقوں میں رہنے والے ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ ایک ہی طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود صرف رہن سہن کے طریق یا زبان مخلتف ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو مختلف سمجھتے ہیں اور نہ صرف ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بھی ہو جاتے ہیں۔ اور شاید اسہی سے نسلی تعصب جنم لیتا ہے۔

جبکہ تعلیم یافتہ لوگوں کا طبقہ بہت وسیع ہو سکتا ہے۔ پوری دنیا کے تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ایک قدر مشترک ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے ان کی تعلیم۔ یہ تعلیم پوری دنیا کے مختلف ملکوں، مختلف تہذیبوں، مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں کو متحد ہو کر کام کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اور ان مواقعوں کو استعمال کر کے تعلیم یافتہ لوگ بین الاقوامی سطح پر بہت سے ایسے تجربات کرتے ہیں جو دنیا میں زندگی گزارنے کے طور طریق ہی بدل دیتے ہیں۔ اور یہ وہ مقام ہوتا ہے جب ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقہ اور تعلیم یافتہ طبقہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔

ایک طرف وہ طبقہ جو مسلسل اپنی تعلم کے حصول کی تکمیل کی خاطر نئے سے نئے کی تلاش میں ہوتا ہے اور ایک وہ جو اپنے بقا کی خاطر ذرا سا بھی ارتعاش برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اب جس معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقہ اپنے ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کے قریب ہوتا ہے وہاں تعلیم یافتہ طبقے کی تعلیم کا ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان پڑھ طبقے کے اندر تعلیم کی افادیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور تعلیم یافتہ لوگ ان کے آئیڈیل بننے لگتے ہیں۔ اپنے دادا پردادا کی محبت اپنی جگہ مگر اپنی زندگی گزارنے کے لئے وہ تعلیم کے میدان میں کارنامے دکھانے والے لوگوں کواپنا ہیرو ماننے لگتے ہیں۔ اور اس طرح معاشرہ اپنی ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آگے بڑتا چلا جاتا ہے۔

پر جب تعلیم یافتہ طبقہ اپنے ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں سے دور اپنی الگ دنیا بسا لیتا ہے تو وہ ان پڑھ لوگ جو پیشہ ورانہ تعلیم کی کمی کو کسی ہنر یا بزرگوں کے کھڑے کیے کاروبار کو چلا کر پورا کر لیتے ہیں ان کی زندگیاں تو چلتی رہتی ہیں پر ان پڑھ اور غریب لوگوں کی تعلیم یافتہ لوگوں کی دنیا میں صرف ایک غلام کی حیثیت سے ہی رسائی ممکن ہوتی ہے جس کی وجہ سے نا صرف ان دونوں طبقات کے فاصلے بڑھتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت جنم لینے لگتی ہے۔ اس نفرت کے پیدا ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔

جب کم پڑھے لکھے لوگ اپنے طبقے کا انتخاب کرتے ہیں وہ فیصلہ بھی اس نفرت کو بھڑکانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب کوئی تھوڑا بہت رحم دل پڑھا لکھا انسان کسی غریب ان پڑھ والدین کو اس بات پر آمادہ کر لیتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائے۔ وہ والدین اپنی خون پسینے کی کمائی سے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں اور وہ بچے تعلیم یافتہ طبقے میں شامل ہونے کی تگ و دو میں اپنے محسن والدین کوہی پیچھے چھوڑ چھاڑ اپنی زندگیوں میں مگن ہو جائیں تو ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے کے لئے بہت بری مثال قائم کردیتے ہیں اور صرف ان پڑھ طبقہ ہی نہیں تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ بھی ان والدین کو لعن طعن کرتے ہیں کہ انہوں نے غلام ہوتے ہوئے آزادی اور بہتر زندگی کا سوچا ہی کیسے۔

یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں ہے۔ جب کسی چھوٹے سے قصبے کے لوگ غربت بھری زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹ کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے وقت کاٹ رہے ہوتے ہیں اور اس دوران کسی گھر کا بچہ کوئی امتحان پاس کرکے بڑا افسر لگ جاتا ہے ہے تو اس پورے قصبے کے لوگ خوش ہو جاتے ہیں کہ اب ہمارے قصبے کی قسمت جاگے گی۔ یہ اس قصبے کی مٹی سے جنم لینے والا بچہ اب افسر بن کر اس قصبے کی بہتری کے لئے کام کرے گا۔ ان چودہریوں، خانون، وڈیروں سے ہمارے حقوق کے لئے لڑے گا۔ مگر جب وہ افسر انہی چودہریوں، خانون، وڈیروں سے ڈرتا ہے اور انہی کے حکم پر اپنے ہی لوگوں پر ظلم کرتا ہے تو اس قصبے کے لوگوں کا یہ کہنا حق بجانب ہوتا ہے کہ تعلیم بزدل بنا دیتی ہے۔

اور آہستہ آہستہ ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقہ اس تعلیم یافتہ طبقے میں شامل ہونے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیتا ہے اور اب ان کے لئے تعلیم یافتہ طبقہ ایک دشمن بن جاتا ہے۔ اب وہ اس تعلیم یافتہ طبقے سے وہ خوشیاں چھین لینا چاہتے ہیں جو تعلیم یافتہ طبقے کو تو میسر ہیں پر ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے کو میسر نہیں۔ وہ غریب ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگ تعلیم یافتہ طبقے کے لئے کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں پر صرف ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے۔ جیسے تعلیم یافتہ طبقے کو اس ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے کا فائدہ مطلوب نہیں ہوتا اسہی طرح ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقہ اس تعلیم یافتہ طبقے کے فائدے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ اور یہ طبقاتی فاصلہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔

جب معاشرے اس طبقاتی نفرت کا شکار ہو جاتا ہے تو معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقے کی ترقی مجموعی طور پر معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتی کیونکہ اس میں ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے کی ضروریات کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہوتا۔ اوران پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے کی ترقی اپنی نوعیت میں بہت محدود ہوتی ہے۔ اگرمعاشرے میں ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد زیادا ہو تو ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے کی ترقی مجموعی ترقی کا تاثر پیش کرتی ہے پر اپنی محدود نوعیت کی وجہ سے تھوڑے سے وقت میں اس ترقی کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔

معاشرے میں سے ان طبقاتی فاصلوں کو ختم کرنے کے لئے دونوں طبقات کے تجربہ کار اور جہاں دیدہ لوگوں کی بے لوث کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کے طبقاتی فاصلوں کو دور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس کی بہت ہی کم مثالیں ملتی ہیں۔ ان فاصلوں کو دور کرنے کے لئے سب سے زیادہ پر خلوص اجتماعی نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پھر قابل عتماد لیڈرشپ کی۔ اس کے بعد بے لوث انتھک محنت اور بے انتہا مخالفت سہنے کا حوصلہ۔ جن لوگوں کے لئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار معاشرہ سونے کی کان ہو وہ کبھی بھی ان طبقاتی دراڑوں کو پر نہیں ہونے دیں گے اور ان لوگوں کی ہر لحاظ سے مخالفت کریں گے جو ان طبقاتی فاصلوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس گلوبلائزیشن کے دور میں جب مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے طاقتور لوگ اپنے اپنے مفادات کی خاطر مختلف معاشروں میں ان طبقاتی فاصلوں کو پیدا کرتے ہیں اور ان کو قائم رکھنے کے لئے بہت ساری اقسام کے سرمایہ سے سرمایہ کاری کرتے ہیں جس میں سوچ، وقت، پیسہ، لوگ اور بہت سی اور اقسام کا سرمایہ شامل ہے۔ ان حالات میں طبقاتی فاصلوں کو ختم کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور شاید اب ان فاصلوں میں کمی بھی ان تمام ممالک سے جن کے مفادات اس معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ سے جڑے ہوئے ہیں سے مذاکرات کرنے کے بعد کسی سمجھوتے کی صورت میں ہی آسکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ وہ سمجھوتے اس معاشرے کے لئے کتنے قابل قبول ہوتے ہیں یہ اس معاشرے کے قبولیت کے معیار اور دنیا کے ساتھ چلنے کی خواہش پر منحصر ہے۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).