دنیا میں کتنا غم ہے


دفتر پہنچتے ہی میں نے بیل بجائی۔
فوراً ہی میرا چپراسی دوڑتا ہوا آیا۔

”سام علیکم صاب۔“
”وعلیکم السلام۔“

”کیا حال ہے محمد علی۔“
”الحمدللہ آپ سناؤ صاب۔“

”میں بھی الحمدللہ ٹھیک ٹھاک۔“
”اچھا جلدی سے اچھی چائے پلاؤ سر میں بہت درد ہورہا ہے۔“

”ابھی لایا صاب۔ وہ یہ کہہ کر تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔“
کچھ ہی دیر میں وہ چائے کی ٹرے و کیک رسک سجائے میرے کمرے میں داخل ہوا۔

چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے میں نے اس کے چہرے کی طرف بغور دیکھا تو اس کے چہرے پہ ایک عجیب سی اداسی و پریشانی نظر آئی۔
”کیا ہوا محمد علی کوئی ٹینشن ہے کیا؟“

”نہیں صاب کچھ نہیں سب اوکے ہے۔“
اس نے چائے نکال کر میرے سامنے ٹیبیل پر رکھی، اور پلٹ کر جانے لگا۔

”محمد علی رکو ایک منٹ۔“
”جی صاب حکم؟“

”بیٹھو ادھر!“ میں نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو بیٹھنے کا کہا۔
ایک لمحہ سوچنے کے بعد وہ میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔

”اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟“
”کچھ نہیں صاب آپ کو بولا تو ہے ہم نے۔“

”دیکھو مجھ سے جھوٹ مت بولو۔ میں چہرہ شناس ہوں، چہرہ دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہوجاتا ہے۔ اب جلدی سے بتاؤ کیا پریشانی ہے۔ پریشانیاں کسی سے بانٹ کر آدھی ہوجایا کرتی ہیں۔ شاید میں تمھارے کسی کام آسکوں یا فقط اچھا مشورہ ہی دے سکوں۔ جس سے تمھاری پریشانی کا کچھ ازالہ ہوسکے۔“

”صاب گھر کا ٹینشن ہے۔ مہنگائی بہت ہوگیا ہے۔ آپ جانتے ہو میری تنخواہ 15000 ہے، ساڑھے 5 ہزار روپے گھر کا کرایہ ہے۔ صرف ایک کمرہ اور لاؤنج ہے۔ جہاں ہمارا بیوی، تین بچے اور بوڑھی ماں رہتا ہے۔ صاب آج صبح نیند سے اٹھتے ہی ہمارا چھوٹا بیٹی، جس کا عمر 5 سال کا ہے ہمارے سینے پر آکر بیٹھ گیا اور بری طرح ہم سے چمٹ گیا۔ اور روتے ہوئے ہم سے بولا کہ ہمارے لئے عید پر بکرا لے کر آنا۔ صاب آپ جانتے ہو اس مہنگائی کے دور میں جہاں میری تنخواہ 15000 ہو کرائے اور بل وغیرہ کے بعد 7 سے 8 ہزار روپے بچتا ہے، جس میں کھانا پینا۔ گھر کے اخراجات اور بوڑھی ماں کی دوا دارو ہوتی ہو۔ وہاں ہم بکرا کیسے لا سکتا ہے۔ بکرا تو دور کی بات ہم تو گوشت بھی سال میں دو چار بار ہی کھاتا ہے۔“

”ہم نے تو بچوں کو بھی شروع سے تسلی دے کر سمجھایا ہوا ہے کہ جو لوگ زیادہ گوشت کھاتا ہے وہ بیمار ہوجاتا ہے، اس لئے سال میں دو چار دفعہ ہی گوشت کھانا چاہیے۔ مگر صاب اب بچے بھی اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر سمجھدار ہوگئے ہیں۔ اب وہ ضد کرتا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے میرا بیٹی نے میرے سے کہا، ابو پڑوس میں جو میری سہیلی ہے اس کے گھر ہم گیا تھا تو اس کی امی نے گوشت کا بریانی بنایا تھا۔ ابو اس کا بہت اچھا خوشبو تھا۔ ہم نے گھر آکر امی سے کہا کہ ہمارے لئے بھی بریانی بنادو تو امی نے کہا گوشت نہیں ہے اس لئے بڑا عید پر بنائیں گے۔ ابو آپ گھر آتے وقت گوشت لیتے آنا ہم امی سے بول کر بریانی بنوائیں گے اور پھر جب تم گھر آئے گا نہ ابو تو نیچے دری بچھا کر ساتھ کھائیں گے۔“

یہ واقعہ سناتے ہوئے میں نے دیکھا محمد علی کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ اور وہ اپنے انگوٹھے کی مدد اپنے آنسو صاف کرنے لگا۔

کچھ لمحوں کی گہری سوچ کے بعد وہ بولا: ”صاب! ایک دفعہ ہم باہر بیٹھا ہوا تھا تو دیکھا ایک آدمی پلاسٹک کے شاپر میں گوشت لے کر جارہا تھا تو اچانک کسی وجہ سے اس کا تھیلی پھٹ گیا۔ اور کچھ گوشت نیچے گرگیا۔ پھر ہم نے دیکھا ایک بلی تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور ایک گوشت کا ٹکڑا لے کر بھاگ گیا اور جاکر اپنے بچے کے سامنے رکھ دیا تو ہم نے سوچا ہم سے اچھا تو یہ بلی ہے۔ ہم تو نیچے سے بھی اٹھا کر اپنے بچوں کو نہیں کھلا سکتا۔ صاب ہم نے بچپن سے غریبی دیکھا ہے کبھی شکوہ نہیں کیا ہنستے کھیلتے برداشت کیا مگر اب اولاد کا محرومیاں دیکھ کر ان کا چھوٹا چھوٹا معصوم خواہشات دیکھ کر دل بہت کڑتا ہے۔ اب برداشت نہیں ہوتا ہم سے۔“

”پچھلے سال زندگی میں پہلی بار ہم اور ہمارا بیوی الیکشن میں ووٹ ڈالنے گیا صاب اور ہم نے“ بلے ”پر مہر لگایا، اس سے پہلے ہم نے کبھی کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ ہم کو کسی نے بتایا کہ بلے کو ووٹ دوگے تو تمھارا سارا پریشانی ختم ہوجائے گا۔ تم کو مفت کا گھر ملے گا جو تمھارا اپنا ہوگا۔ اور تمھیں اس کا کرایہ بھی نہیں دینا ہوگا۔ دال آٹا سبزی بھی سستا ملے گا اور تمھارا بچہ بھی اسکول جائے گا وہ لکھ پڑھ کر بڑا آدمی بنے گا۔“

”سب سے زیادہ خوشی کی بات صاب ہمارے لئے یہ تھی کہ مفت میں ہم کو گھر ملے گا تو ہمارا ساڑھے 5 ہزار مہینے کا بچے گا جو ہم کرائے کی مد میں دیتا ہے۔ اس سے ہم اپنے بچوں کی خواہشات پوری کرے گا۔ مگر صاب۔ کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ مہنگائی پہلے سے زیادہ بڑھ گیا۔ پریشانیاں مزید ہماری زندگی میں داخل ہوگئیں۔ مفت کا گھر تو چھوڑو آٹا، چینی، دال، سبزی سب مہنگا ہوگیا۔ یہ پریشانیاں ہیں صاب جو ہم کو اندر سے ختم کررہی ہیں۔“

”صاب! ہم ان پڑھ جاہل آدمی ہے ہم کو اس سے غرض نہیں نواز شریف کو پکڑ کر جیل میں ڈال دو۔ اس سے ہمیں کیا ملے گا۔ ہم کو تو دو وقت کا روٹی چاہیے۔ ہم کو اپنے بچوں کا تعلیم چاہیے۔ ہمارا وزیر اعظم صاب کہتا ہے ’گھبرانا نہیں ہے۔‘ ہم کیسے نہ گھبرائے صاب۔ دفتر کے لئے نکلتے ہوئے بستر پر پڑی اپنی بوڑھی ماں سے اس کی طبیعت پوچھتا ہوں تو وہ مجھے یہ بتانے کے لئے وہ ایک دم تندرست ہے وہ تیزی سے بستر سے اٹھ کر مجھے کہتی ہے ’مجھے کیا ہونا ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘ “

”صاب! ہماری ماں نے مجھے بچپن میں سکھایا تھا کبھی جھوٹ نہیں بولنا مگر اب وہ خود ہم سے جھوٹ بولتا ہے کہ وہ بیمار نہیں ہے بالکل ٹھیک ہے۔ جب کہ ہم جانتا ہے وہ کتنا بیمار ہے۔ کتنا کمزور ہو گیا ہے۔ پچھلے ماہ اس کو قریبی کلینک لے کر گیا تو ڈاکٹر نے کہا تھا اس کو یخنی پلاؤ اور بکرے کا گوشت کھلاؤ۔ اور ساتھ یہ دوائیں لازمی پلاتے رہو جن کی قیمت 1800 روپے تھی۔ صاب۔ وہ جانتا ہے اس کا بیٹا کس مشکل حال میں ہے اس لئے وہ ہم سے جھوٹ بولتا ہے۔“

”دل خون کے آنسو روتا ہے جس ماں نے ہم کو پالا بڑا کیا ہم اس کا علاج تک نہیں کراسکتا۔ اپنی آپ کو بہت بے بس محسوس کرتا ہے ہم مگر صاب تم کہیں یہ نہیں سوچنا ہم آپ کو یہ سب اس لئے کہہ رہا ہے کہ آپ ہمارا مدد کرو۔ نہیں صاب ہمارے ماں باپ بہت خوددار تھا صاب۔ روکھی سوکھی کھایا کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ کسی نے مدد کرنی بھی چاہی تو اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم نے اس کی مدد قبول کرنے سے انکار کردیا۔“

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ اور چائے کی خالی پیالی اور ٹرے اٹھاکر میرے کمرے سے مایوس قدموں کے ساتھ باہر نکل گیا۔
اس کی بے بسی کی یہ رودار سن کر میں اس سے بہت کچھ کہنا اور بولنا چاہتا تھا۔ مگر نہ جانے میری زباں ایک دم سے کیوں پابند سلاسل ہوگئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).