کشمیر کا مسئلہ اور پاکستان


بھارت کے آئین میں دفعہ 370 اور دفعہ 35۔ اے مقبو ضہ جموں و کشمیر کی خودمختاری کی ضامن دفعات تھیں۔ چند روز قبل بھارت نے ملکی آئین میں قرارداد کے ذریعے تبدیلی کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کر دیا ہے۔ اب یہ خا لصتا ایک دستوری اور قانونی معاملہ ہے۔ مقبو ضہ جموں و کشمیر کے عوام اور پاکستان نے بھارت کی اس قرارداد کو مسترد کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قرارداد کو مسترد کرنے کے بعد دونوں متعلقہ فریقین یعنی سری نگر کے باسیوں اور اسلام آباد کے پاس کون سے وہ قانونی راستے ہیں کہ جس کو اختیار کرتے ہوئے وہ دلی کو اس فیصلے کو واپس لینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب کشمیر کی خود مختار حیثت کو ختم کرنے کی قرارداد ایون میں پیش کی تو وہاں کی حزب اختلاف اور مقبوضہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے شدید احتجاج کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نوازسرکردہ سیاسی رہنماؤں فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، سجاد لون اور دیگر نے بھی اس قرارداد کو مسترد کیا ہے۔ حریت کانفرنس کے رہنماؤں اور وادی کے تمام عوام نے بھی اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

اس فیصلے کے خلاف پاکستان نے بھی شدید ردعمل دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا۔ وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن بھی ہوا۔ عسکری قیادت بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئی تھی۔ لیکن سوال پھر وہی کہ کیا ان تمام اقدامات سے بھارت کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ ملکی آئین میں قرارداد کے ذریعے کی گئی تبدیلی سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت کو ختم کرنے کا فیصلہ واپس لیں؟

میرے خیال میں پاکستان میں اس طرح کے اجلاسوں سے بھارت ہرگز اس فیصلے کو تبدیل نہیں کرے گا۔ اب اگر بھارت پاکستان میں ہونے والے اجلاسوں سے دباؤ میں نہیں آئے گا اور اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرے گا تو پھر اسلام آبادکو اور کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کو اس فیصلے کو واپس لینے پر مجبور کیا جاسکے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت میں موجودہ اپنے سفارت کاروں کو فوری طور پر مشاورت کے لئے بلائیں۔ ان سے مشورہ کریں کہ کیا صرف قرارداد کے ذریعے بھارت، مقبوضہ جموں وکشمیر کی خودمختار حیثت کو ختم کرسکتا ہے یا اس کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوگی؟ اگرپاکستان، بھارت کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرتی ہے تو کیا بھارت کی عدالتوں میں اسلام آباد اپنا مقدمہ پیش کرسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا مقبوضہ جموں وکشمیر کے ارکان اسمبلی یا کسی سیاسی جماعت یا فرد کو یہ اجازت ہے کہ وہ اس فیصلے کو بھارت کے سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکے؟

اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جائے کہ کیا مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی اسمبلی کی غیر موجودگی میں کیا بھارت کو یہ اختیار حا صل ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خود مختارحیثیت کو ختم کر ے یا اگر اسمبلی موجود بھی ہو تو کیا بھارت ایسا کرسکتا ہے؟ پاکستان کو چاہیے کہ بھارت میں موجوداپنے سفارت کاروں کے ساتھ مشاورت کریں۔ بھارت میں اس تبدیلی کے خلاف قانونی جنگ لڑنے پر ان سے رائے لیں۔ دلی میں مو جود پاکستانی سفارت کاروں کو چاہیے کہ وہ وہاں ممتاز آئینی اور قانونی ماہرین کے ساتھ مشاورت کریں۔ جوبھی صورت حال بن رہی ہو اس سے ملک کے متعلقہ اداروں کو آگاہ کریں۔ اسلام آباد میں وفاقی وزارت خارجہ اور وفاقی وزارت قانون کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موجود صورت حال میں حکومت کی بھرپور رہنما ئی کرے کہ حکومت قانونی طور پر کیا آپشن استعمال کرسکتی ہے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر کے حوالے سے چونکہ پاکستان کا موقف واضح اور دو ٹوک ہے۔ اسلام آباد کا موقف ہے کہ ہم کشمیریوں کی سفارتی، سیاسی اوراخلاقی مدد جاری رکھیں گے۔ اس لئے موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان، بھارت کے اس فیصلے کو عالمی فورم یعنی اقوام متحدہ میں اٹھا ئیں۔ لیکن ضروری ہے کہ اس کے لئے مکمل تیاری کی جائے۔ وفاقی وزارت خارجہ اور وفاقی وزارت قانون مقبوضہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کا مکمل جائزہ لیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود معاہدات کو کنگھال لیں۔ بین الاقوامی قوانین کا اچھی طرح سے مطالعہ کرکے مقدمہ تیار کرکے اقوام متحدہ لے جائیں۔ اگر صرف خانہ پری کرنی ہے تو پھر اقوام متحدہ میں جانے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ خود خطے کے ممالک روس، چین، ترکی اور ایران سے بات کریں۔ عالمی دنیا میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کو اعتماد میں لیں۔ مسلم دنیا میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کو بھی صورتحال سے آگاہ کریں۔

کشمیر کمیٹی کو فعال کیا جائے تاکہ سفارتی محاذ پر بھارت کو بھرپور جواب دیا جائے۔ اگر پاکستان بھارت کے خلاف قانونی اور سفارتی محاذ پر بھرپور کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ممکن ہے کہ بھارت اپنا فیصلہ واپس لیں۔ لیکن پھر بھی اس میں وقت لگے۔ اگر بغیر کسی منصوبہ بندی کے روایتی انداز میں پاکستان نے مو جودہ حالات میں بھارت کے خلاف عالمی اداروں میں جانے کی کوشش کی، با اثر ممالک سے رابطہ کیا یا عالم اسلام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی تو ممکن نہیں کہ کوئی ان کا ساتھ دیں اور بھارت پر یہ فیصلہ واپس لینے کے لئے دباؤ بڑھائیں۔

مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان نے ابھی تک روایتی طریقہ کار ہی اپنایا ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا قبل از وقت تھا۔ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ حکومت بھارت میں موجود اپنے سفارت کاروں کے ساتھ مشاورت کرتی۔ وفاقی وزارت خارجہ اور وفاقی وزارت قانون کے ساتھ مشاورت کے بعد قانونی جنگ لڑنے کے لئے لائحہ عمل بناتی۔ عالمی فورمز پر موجودہ حالات میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے حکمت عملی بناتی اور پھر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر حزب اختلاف سے بھی رائے لی جاتی۔

لیکن حکومت نے صرف خانہ پری کے لئے قبل از وقت بغیر کسی لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کے اجلاس بلا کر ملک اور قوم کا وقت اور پیسہ دونوں برباد کیا۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لے۔ بھارت میں موجود پاکستان کے سفارت کاروں، وفاقی وزارت خارجہ، وفاقی وزارت قانون اور دیگر متعلقہ اداروں کو واضح احکامات دیں کہ روایتی طریقہ کار اور انداز سے اجتناب کیا جائے۔ ان پر زور دیں کہ حکومت کو موجودہ صورت حال میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے قانونی طریقہ کار اور بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کے لئے مستند دستاویزات، قراردادوں اور معاہدوں کے تناظر میں رہنما ئی کریں۔ اگر حکومت نے خود روایتی انداز کو ترک نہیں کیا اور نہ ہی اداروں کو روایتی انداز سے منع کیا تو پھر ممکن نہیں کہ پاکستان یہ قانونی اور سفارتی جنگ جیت سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).