دُہرا معیار


\"Hashimجب سماجی کارکنوں کو کام کرنے کی آزادی نہ ہو، جب لبوں کو تالا لگا دینے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہو، جب علم و حکمت کے حامل دانشوروں کو دھول چاٹنی پڑے، جب ذرائع ابلاغ کے قلمکاروں کے قلم کی سیاہی چاندی کی چکا چوند سے پھیکی پڑ جائیں تو معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے، خیر خواہی کی کوئی سوچ نہیں پنپتی، عوام کی صورت حال اس کبوتر کی مانند ہو جاتی ہے جو بلی کی آمد پر اپنی آنکھیں موند لیتی ہے۔ خود غرضانہ سماجی نظام نے انسان سے انسانیت کو چھین کر اس کی شخصیت کو برباد کر دیا ہے۔ یہ توڑ پھوڑ اُس وقت ہوتی ہے، جب معاشرہ دُہرے معیار کا شکار ہو جاتا ہے۔ تعلیمی نظام میں دُہرا معیار، صحت کے نظام میں دُہرا معیار، انصاف کے نظام میں دُہرا معیار، غرضیکہ اس پیارے ملک کو طبقاتی نظام کے دلدل میں گردن تک دھنسا دیا گیا ہے۔

آئین پاکستان نے آرٹیکل 25(A)  میں تعلیم کو حق کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ دستور میں واضح لکھا گیا ہے کہ ’’ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لئے مفت تعلیم دینے کا بندوبست کرے جیسا کہ تعلیم کے حق کے سلسلے میں قانون کی شقوں میں درج ہے لیکن اس کے باوجود ستم ظریفی دیکھئے کہ کیسے غیر محسوس طریقے سے تعلیم کو بیوپاریوں نے تجارت میں تبدیل کر دیا ہے۔ دور حاضر میں بہتر تعلیم کا حصول، غریب اور امیر کا فرق اجاگر کرتا ہے، غریب کو شدت سے احساس دلاتا ہے کہ تم غریب ہو تمھیں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ پیغام کون دے رہا ہے اور کیوں دے رہا ہے؟طویل بحث کرے بغیر ہم، آپ اور سب اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں کہ طبقاتی تعلیمی نظام کو روشناس کرنے کے مقاصد کیا ہیں اور آئینِ پاکستان کو توڑنے اور اس کی پامالی کی جسارت اور جرات کون کر سکتا ہے، کم از کم غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تو ایسا نہیں کر سکتے۔

آئین پاکستان آرٹیکل  38(A-D) کے مطابق ریاست پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ جنس، ذات، رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر عوام کو صاف اور صحت افزا پانی اور ملاوٹ سے پاک خوراک مہیا کرنے کا بندوبست کرے نیز عوام کو طبی سہولیات گھر کے دروازے تک بہم پہنچائے اور ان افراد کا خاص خیال رکھا جائے، جو معذوری یا بیماری کے باعث روزی کمانے کے قابل نہیں ہیں۔ قارئین حیران ہوں گے کہ میں کسی پرستان کے ریاست کی لغو پر مبنی کہانی سنا رہا ہوں لیکن ایسا نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ ایک سبز کتاب میں درج ہے، گو کہ موجودہ صورت حال سے تو یہ سبز کتاب کسی پرستان کی ریاست پر لکھی گئی داستان ہی لگتی ہے اور افسوس اس سبز کتاب کی سیاہی ماند پڑ چکی ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہوا ہر لفظ نقش بر آب کی مانند ہو چکا ہے، پانی کی ایک بوند اس کے نقش کو مٹانے کے لئے کافی ہے۔

عوام کے لئے صحت کے معاملات کو بھی طبقات میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہسپتالوں میں غربت کی تذلیل، تھر میں بچوں کی اموات، دوران زچگی خواتین اور شیر خوار بچوں کی اموات کا بڑھتا ہوا تناسب، دواؤں کی من مانی قیمتیں، جان بچانے والی دوائیاں غریب عوام کی پہنچ سے دور یہ سب آئین پاکستان کی سبز کتاب کے آرٹیکل  38(A-D) کو اور اس کی پامالی کرنے والے قانون کے محافظوں کو منہ چڑا رہے ہیں۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم پاکستان برطانیہ میں اپنا بائی پاس کروا کر آئین پاکستان کو منہ چڑا کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ غریبوں کا مر جانا ہی بہتر ہے کیونکہ ہم پاکستان میں ایک بھی ایسا ہسپتال قائم نہیں کر سکے جہاں ہمارا بائی پاس ہو سکے۔

پاکستانی عوام بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے، ہر لمحہ، ہر لحظہ صرف امید کی آس میں جی رہے ہیں، اُس پاک ذات کی امید کے بعد، اس کیڑے مکوڑے کی مانند جینے والی عوام کے لئے امید کی ایک کرن اس ملک کی عدلیہ تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ اس ملک کے انصاف کو بھی طبقات کی دہلیز پر لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے، اس ملک میں جیلیں بھری پڑی ہیں لیکن صرف غریب افراد سے۔ گناہگار ہو یا بے گناہ انصاف کی دہلیز پر انصاف کی آس میں منتظر اپنی مایوس اور سسکتی زندگی سے بے زار نظر آرہا ہے، کیونکہ اس کے پاس قدم قدم پر رشوت دینے کے لئے رقم نہیں ہے، پولیس کا ایک معمولی افسر کیس سے چھٹکارا دلانے کے لئے، فرعون جیسی طاقت لئے سامنے کھڑا ہے، وکیل کیس لڑنے کے لئے بھاری رقم طلب کرتا ہے۔

سبز کتاب میں نقش بر آب ہے کہ: آئین پاکستان آرٹیکل 25(1) کے تحت تمام افراد قانون کے سامنے مساویانہ حیثیت کے مالک ہیں اور مساویانہ قانونی تحفظ کے حق دار ہیں۔ لیکن اس کے بر عکس مساویانہ حیثیت یہ ہے کہ ایک امیر و کبیر جتوئی قتل کر کے رہا ہو جاتا ہے اور با آسانی ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس دو بھائیوں کو قتل کرتا ہے اور اپنے ملک کو کوچ کر جاتا ہے۔ ایان علی غیر ملکی کرنسی لے جاتے ہوئے پکڑی جاتی ہیں لیکن ملک کی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہوئے، بے کس و مجبور عوام کو منہ چڑانے کے لیے میڈیا پر جلوہ افروز ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان اسٹیل جیسے قیمتی اثاثے کو زبوں حالی تک پہنچانے اور بند کر دینے تک کے ذمہ دار، اب بھی مراعات یافتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں، ملازمین اپنی تنخواہ اور مراعات کی بحالی کے لیے عدالتوں کی غلام گردشوں میں پھنسے ہوئے ہیں، ریٹائرڈ ملازمین واجبات کی حصولی کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، ستم ظریفی دیکھیں حکومت کے ساتھ ساتھ، اسٹیل مل کی اس حالت کا جو ادارے نوٹس لے سکتے ہیں، وہ بھی غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ مساویانہ سلوک ہے ؟ اگر غیر مساویانہ عدل کی داستان لکھنے بیٹھیں تو کتابوں کے انبار لگ جائیں گے۔ سیکیورٹی ادارے قانون کے رکھوالے تو کہلاتے ہیں لیکن خود قانون شکنی میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ سبز کتاب کے محافظ خوبصورت تقریر اور تبلیغ کرنے جیسے بہلاوے میں مصروف ہیں اور پاکستانی غریب عوام یہ دعا کرتے ہیں کہ:

\”اب کے جنم موہے غریب نہ کریو، اگر غریب کریو، تو پاکستانی نہ کریوـ\”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments