نیا پاکستان، نیا بیانیہ اور ریاست مدینہ کا تصور


پاکستان کی تاریخ میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے ملک پاک میں شعبہ جاتی، آئینی اور قانونی اصلاحات کرکے عوام کو بنیادی حقوق دیے اور ملک کی نئے سرے سے تعمیر کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ ملک کو کھڑا کردیا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا جو شہید بھٹو نے سرانجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ ملک وقوم کے لئے خلوص نیت سے خدمات نے ہی بھٹو شہید کو تاریخ میں امر کردیا۔ عہد کی ستم ظریفی ہے کہ عوامی خدمات کی شہید بھٹو کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور ایک ایسے بیانیہ نے جنم لیا کہ جو آج تک پیچھا کر رہا ہے۔

شہید بھٹو کے بعد کے 42 سال ملک وقوم نے ایک ایسے بیانیہ کے تحت گزارے ہیں کہ جیسے زندگی اور موت کا کھیل ہو۔ وطنیت اور قومیت کو جذبات کی بھینٹ چڑھا کر تباہی و بربادی کے نئے نئے دروازے کھولے جاتے رہے ہیں۔ ضیاء آمریت اور پرویزمشرف کی بھیانک سیاست نے سیاست دانوں کی منڈیاں سجا کر سیاست کو گالی بنایا اور سیاست دانوں کو بکاؤ مال کے نئے معانی پہنا دیے گئے۔ جمہوریت اور جمہوری رویوں کے خلاف مذہب کو ہتھیار کے طور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

جس کے نتائج ہمیں دہشت گردی کی جنگ کی صورت میں حاصل ہوئے۔ ملک ایک ایسی دلدل میں دھنستا گیا کہ طالب علموں کے ہاتھوں عشق رسول کے نام پر اساتذہ قتل ہونے لگے۔ سیکیورٹی گارڈ ہی قاتل بن گئے۔ ملک وقوم کے محافظ اپنی حفاظت سے بھی عاجز نظر آنے لگے۔ ملک ایک دہشت گاہ بن کر رہ گیا تو پھر بیانیہ بدلنے کی بازگشت سنائی دی۔ عمران خان حکومت سے لاکھ اختلافات ہوں گے، یہ بھی حقیقت ہے کہ آئیڈیل صورتحال نہیں ہے مگر حکومت جو اقدامات کر رہی ہے یہ بھی ایک ننگی حقیقت ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی حکومت ہے جس نے ملک وقوم کی تعمیر کے لئے اقدامات کا آغاز کیا ہے۔

جس میں معیشت کو دستاویزی بنانا اور ٹیکس نیٹ میں ہر شہری کو لے کر آنا، یہ اہم ترین کام ہے۔ کم ازکم کشکول لے کر در در مانگنا نہیں پڑے گا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے بھی نجات حاصل ہوگی۔ فکری بنیادوں کی درستگی سمیت مذہبی اجارہ داریوں کا خاتمہ، مذہبی مدارس کی رجسٹریشن، یکساں نصاب تعلیم، مذہب کو سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی، مسلح مذہبی گروہوں پر پابندی حکومت کے شاندار کارنامے ہیں۔ وزیر اعظم سٹیزن پورٹل سے عوام کے بے شمار مسائل آسانی سے حل ہورہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عام آدمی کی رسائی وزیر اعظم ہاؤس تک ممکن بنائی گئی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کے ساتھ افواج پاکستان کھڑی ہیں۔ افواج پاکستان ہر طریقے سے عمران خان حکومت کو سپورٹ کر رہی ہے۔ یہ سچ بھی واضح ہے کہ افواج پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے عمران خان کو اقتدار دینے کے لئے کئی غیر جمہوری راستے بھی اپنائے۔ درست ہے۔ فوج عمران خان کو اقتدار میں لے کر آئی ہے۔ اب بھی پچھے کھڑی ہے۔ مگر یہ نوبت کیوں آئی؟ اس کے سوا چارہ کیا رہ گیا تھا۔ آرمی چیف نے تماشا دیکھتے رہنے کی بجائے بہتر راستے کا انتخاب کیا۔ جس کے مثبت اثرات نمایاں ہیں۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے پاس حکومتیں رہی ہیں۔ نواز شریف پاکستان کے اکلوتے بڑے لیڈر کے پاس ملک وقوم کی تعمیر کا کیا وژن تھا؟ کیا پروگرام تھا؟ مریم نواز چیخ رہی ہے۔ عوام کے سامنے رکھیں کہ مسلم لیگ کے فلاں قومی ایجنڈے اور پروگرام کو سبوتاژ کرکے نئی حکومت لائی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں کام تو ضرور ہوا مگر پیپلزپارٹی عوام میں اپنی مقبولیت اس لئے کھوچکی تھی کہ پارٹی میں قیادت کا شدید فقدان موجود تھا۔

بلاول کے خیالات اور وژن درست سمت کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں مگر افسوس کے پاکستان میں بادشاہت نہیں ہے۔ بلاول کو ابھی سیاسی سفر طے کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام عمران خان کے بعد بلاول کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان حکومت کے آنے سے سیاسی اجارہ داریوں کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ نئی قیادت بھی سامنے آئی ہے۔ مجموعی طور عوام نے نئی حکومت، نئی قیادت، نیا پاکستان اور نئے بیانیہ کو قبول کرلیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ناقدین ریاست مدنیہ کے تصور کو بھی سمجھنے لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).