وہی کریں جو انڈیا کرتا ہے


جس وقت امریکی صدر ٹرمپ عمران خان کو اپنے پہلو میں بٹھا کر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر رہا تھا، درویش کا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا۔ بہت سے دانشوروں نے اس بات پر بغلیں بجائیں، زور قلم استعمال کر کے امید بھرے مضامین باندھے کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہو چکا، یہ نہ صرف انڈیا کی سفارتی شکست ہے بلکہ اسے اب کشمیر پر با معنی مذاکرات ہر صورت کرنے پڑیں گے۔ میری تحریر گواہ ہے میں نے کہا تھا کشمیر کے مسئلے پر ٹرمپ سے جس قسم کی ثالثی کی توقع ہم لگائے بیٹھے ہیں یہ بالکل فضول ہے، الٹا نریندر مودی اس پیشکش پر بھارت میں اٹھنے والے ردعمل کی آڑ لے کر کوئی بڑی شرارت کر گزرے گا۔

پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے راجیہ سبھا میں تین بل منظور کروا کر کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی۔ صدارتی حکم کے تحت پیش کیے گئے پہلے بل کے ذریعے بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔ دوسرے صدارتی حکم کے تحت بھارتی آئین کے آرٹیکل پینتیس اے کا خاتمہ عمل میں لایا گیا اور اب کوئی بھی شخص کشمیر میں جائیداد خرید سکتا ہے۔ یہ پابندی مہاراجہ ہری سنگھ نے انیس سو چوبیس میں عائد کی تھی تاکہ کشمیر کے باہر کے لوگ وادی کے باسیوں کے روزگار پر ڈاکہ نہ ڈال سکیں۔ تیسرے صدارتی حکم کے تحت کشمیر کی نئی حد بندی کی گئی ہے اور لداخ کو کشمیر سے الگ کر کے بھارت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

نہایت افسوس کی بات ہے ہمارے تمام حکومتی بزر جمہران ٹرمپ کے ٹریپ میں آ کر مبارکباد دیتے اور وصول کرتے رہے۔ مزید افسوس اس وقت ہوا جب ہمارے ایک وزیر نے اس عظیم واردات کے بعد کہا کہ ”ہمارے لیے انڈیا کا یہ اقدام غیر متوقع تھا۔“ ہر کوئی جانتا ہے کہ انڈیا نے یہ قدم راتوں رات نہیں اٹھایا بلکہ کافی دنوں اس کی علانیہ تیاری جاری تھی۔ انڈیا نے اس اعلان سے قبل کسی بھی ممکنہ رد عمل سے بچنے کے لیے مزید پچاس ہزار فوج تعینات کی۔

حریت قیادت تو ویسے ہی ایک عرصے سے زیر عتاب ہے۔ اتوار اور پیر کی نصف شب عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد لون جیسے رہنما بھی نظر بند کر دیے۔ تمام وادی میں اس وقت سے تاحال کرفیو نافذ ہے۔ انٹرنیٹ، موبائل فون، لینڈ لائن، تمام تعلیمی اداروں اور امر ناتھ یاترا کی بندش بھی ایک ہفتہ پہلے سے ہو رہی تھی۔ یہاں تک کے غیر ملکیوں اور سیاحوں کی مکمل واپسی کے لیے سری نگر اور دہلی کے ہوائی سفر کے اخراجات چودہ ہزار سے کم کر کے چھ ہزار کر دیے تھے تاکہ ہر شخص وادی سے فوری طور پر نکل سکے۔

اب تو یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ بھارت کی طرف سے ٹرمپ کو یہ اطلاع کئی ماہ قبل فراہم کر دی گئی تھی کہ بی جے پی کے منشور میں کی کمٹمنٹ پوری کرنے کے لیے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی جائے گی۔ ویسے بھی اس طرح کے بڑے اسٹیپس منہ اٹھا کر نہیں لیے جاتے بلکہ ان کی تیاری ہوتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہماری انٹیلیجنس ایجنسیز نے بھارت کے اس اقدام کی رپورٹ نہ دی ہو۔ ان کی طرف سے حکومت اور دفتر خارجہ کو لازماً معلومات ملی ہوں گی لیکن اس حساس مسئلے پر کسی پیش بندی کی سعی نظر نہیں آئی۔

اس کے بعد بھی ہمارے ہاں سنجیدگی، یکسوئی اور فکر کا بحران برقرار ہے۔ حکومت اوراپوزیشن سمیت کسی نے کھوکھلی لفاظی سے آگے بڑھ کر اس پر بات نہیں کی کہ بھارت میں حکمران بی جے پی کا منشور محض کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی تک محدود نہیں۔ بلکہ وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کے ساتھ اکھنڈ بھارت کے خواب بھی دیکھتا ہے۔ کیا اب بھارت اس دعوے سے دست بردار ہو گیا ہے اور کیا وہ ان علاقوں کو بھی ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

جنہیں بھارتی عزائم کے بارے میں رتی برابر شبہ ہے اور جو ”ادھر ہم ادھر تم“ جیسے درس دے رہے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے دو روز قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ہائی سکیورٹی زون میں لگنے والے بینرز پر کیا تحریر تھا؟ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو تو ہمیشہ سے بھارت جوتے کی نوک پر رکھتا آیا ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ تمام متازعہ امور معاہدہ تاشقند کے تحت باہم گفت و شنید سے نمٹائے جائیں گے۔ لیکن بھارت نے کشمیر کو سرکاری طور پر اپنا علاقہ ڈکلیئر کرنے کے بعد یہ راستہ بھی عملًا بند کر دیا۔

بھارتی موقف کے مطابق کشمیر اب چونکہ انڈین علاقہ ہے، لہذا ممکن ہی نہیں وہ اپنے علاقے کی ملکیت پر کسی بات چیت پر راضی ہو گا۔ کشمیر سے جان چھڑا کر ترقی کی خواہش رکھتے وقت یہ فراموش نہ کریں کہ ہماری ترقی کا انحصار پانی میسر ہونے پر ہے۔ آج بھارت نے کشمیر کی حیثیت بدلی ہے کل کلاں سندھ طاس معاہدے کو ختم کر کے ہمیں ملنے والا تھوڑا بہت پانی بھی روک لیا تو ترقی تو گئی بھاڑ میں ہمیں سانسوں کے لالے پڑے ہوں گے۔ ہاں اس بات سے اختلاف نہیں کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ یہ مگر ممکن تب ہو گا جب بھارت اپنی فوج وہاں سے نکال کر آزادانہ ماحول میں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق استعمال کرنے دے۔ اس کے بعد کشمیری آزاد حیثیت میں رہنا پسند کریں تو فبہا۔

اب تک کا مشاہدہ لیکن یہ ہے کہ جو بھی فرزند کشمیر شہید ہوتا ہے اس کا جسد خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپٹ کر سپرد خاک کیا جاتا ہے۔ چودہ اگست کو کشمیری میں پاکستانی پرچم نظر آتے ہیں جبکہ پندرہ اگست کو سیاہ پٹیاں باندھ کر وہاں یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ کھیل کے معمولی مقابلوں میں بھی انڈیا کی جیت وہاں افسردگی اور پاکستانی جیت وہاں خوشی کا سبب بنتی ہے۔ اس بے غرض قربانی اور والہانہ محبت کا صلہ باہمی تجارت اور سفارتی تعلق کی معطلی نہیں ہو سکتا۔

کشمیر کے لیے مخلص ہیں تو کچھ اور کرنا پڑے گا۔ وہ کیا ہو گا یہ لکھنے، کہنے کی نہیں خاموشی سے کرنے کی چیز ہے اور جن کا کام ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب ہم پر کوئی اخلاقی قدغن بھی نہیں کیونکہ آج سے قبل انڈیا کے پاس کشمیر پر تسلط کا الحاق کی دستاویز کی صورت جواز موجود تھا مگر اب انڈیا نے خود ہی یہ الحاق ختم کر دیا ہے۔ کہتے ہیں جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے۔ بھارت اگر کشمیر ہڑپ کرنے کے بعد بھی کراچی، بلوچستان اور فاٹا پر نظر جمائے بیٹھا ہے تو وہ خود بھی مختلف اکائیوں پر مشتمل ہے۔

صرف کشمیر ہی نہیں ناگا لینڈ، گوا، سکم، میزو رام، آسام، ہماچل پردیش، منی پور، ہریانہ اور مہاراشٹر سمیت علیحدگی کی بہت سی تحریک تحریکیں وہاں چل رہی ہیں۔ خالصتان والوں سے ہمارا تعلق پہلے بھی اچھا تھا اب مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ یہ تمام تحریکیں انڈیا کے وجود میں دراڑیں اور فالٹ لائنز ہیں۔ انہیں مزید اجاگر اور گہرا کرنے میں جو ہم سے ہو سکتا ہے وہ کرنے میں اب کوئی جھجک نہیں رکھنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).