بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 میں تبدیلی اور اس کے خطے پر اثرات


انڈیا نے آرٹیکل 370 میں تبدیلی کرکے ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے۔ اس آرٹیکل میں وضاحت کی گئی تھی کہ ریاست کشمیر میں ریاست کے رہائشی شہری اپنے املاک کی ملکیت اور بنیادی حقوق سے متعلق دیگر قوانین کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ جبکہ اس شق کے نتیجے میں دیگر ہندوستانی ریاستوں کے شہری جموں و کشمیر میں زمین یا جائیداد نہیں خرید سکتے ہیں۔ 5 اگست سال 19 20 انڈیا کے ائین کو ریاست کشمیر میں نافذ کردیا گیا ہے۔ اس طرح کشمیر باقی ریاستوں کی طرح انڈیا کا ائینی حصہ تسلیم کیا جاچکا۔ صدارتی فرمان کے ذریعے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔

ایسا کیا ہوا کہ انڈیا کے پالیسی ساز اداروں نے ضرورت محسوس کیا کہ آرٹیکل مذکورہ میں ترمیم کرنا لازمی ہے؟ اس کی دیگر بنیادی وجوہات کے علاوہ اس مسئلہ پر تیزی کی ایک وجہ حالیہ دنوں میں امریکی صدر اور وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات میں صدر ٹرمپ کے طرف سے ثالثی کی پیشکش اور کردار ادا کرنے کے بعد ہوئی۔ تیاری مگر اس سے پہلے کرلی گئی تھی۔ مذکورہ ملاقات میں صدر ٹرمپ نے ملاقات کے دوران کہا کہ مودی نے بھی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔

ٹرمپ کے اس بیان کو مبینہ طورپر انڈیا کی سرکار نے جھوٹ کہہ کر رد کردیا اور کہا کہ مودی نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔ اس کے بعد امریکی سرکار کی طرف سے بھی یہ بیانات سامنے آئے کہ امریکی صدر اپنے بیان پر اب بھی کھڑے ہیں اور انہوں نے جھوٹ نہیں بولا ہے۔ دوسری طرف اس بیان کے فوری بعد انڈیا نے مسئلے کے حل کے لئے باقاعدہ طور پر قانون سازی کرنے کی ٹھان لی۔ ادھر ہم سیاسی بیان بازی، سیاسی گرفتاریوں اور سینیٹ الیکشن میں ایسا گم ہوگئے کہ اندازہ ہی نہیں رہا کہ خطے میں کیا ہونے جا رہا ہے۔

اس کا یہ مطلب ہے کہ مسئلہ کشمیرپر ہمارا موقف اور ہوم ورک کمزور پڑتا جارہا ہے۔ پاکستان کے لئے افغان پیس پراسس میں حصہ لینا سود مند ہے لیکن اس آڑ میں امریکہ کے فرنٹ لائن دوست ہونے کے ناتے ایران کے ساتھ محاذ آرائی ( حالانکہ ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے ) مزید مسائل کو پیدا کرسکتی ہے۔ اس طرح چاروں فرنٹ پر مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس میں غیر جانبدار رہنا ہی بہتر ہوگا۔

قانون سازی کے امور میں پڑوسی ممالک میں اتنے مسائل پیدا نہیں ہوتے جتنے اس کے برعکس ہمارے ملک میں پیدا ہوجانے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میری نظر میں یہ ہیں کہ پاکستان اس وقت داخلہ اور خارجہ محاذ پر سیاسی مسائل سے نبرد آزما دکھائی دے رہا ہے۔ ٹیرر فنانسگ، ایف اے ٹی ایف کے ضمن میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا جا چکا ہے۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی اس کے علاوہ ہے۔ اگر ایک طرف حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی ہے تو دوسری طرف پڑوسی ممالک میں مداخلت کی پالیسی کا الزام بھی اپنا کام دکھارہی ہے۔

کون اس کا ذمہ دار ہے اور کون اس میں ذمہ دار نہیں اس کا تعین وقت ہی کرے گا۔ بہرحال ان حالات میں ہمارے حکمران بری الذمہ نہیں ہو جاتے۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم رونا پیٹنا شروع کر دیں۔ تیار رہنا چاہیے اب کشمیر میں انٹرنیشنل بارڈر کو کسنے کا پروگرام کیا جائے گا۔ کیا ہونا چاہیے تھا اور کیا نہیں ہونا چاہیے تھا اس کو ایک سائیڈ پر رکھتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ اس طرح کے مسئلے کے لئے کسی بھی ملک میں خصوصاً پارلیمنٹ اور دیگر دفاعی ادارے موجود ہوتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی ودفاعی تجزیہ نگاراس مد میں ہر وقت اپنا تجزیہ اور انالیسس پیش کرتے رہتے ہیں۔

رونا پیٹنا، دہائی دینا اس مد میں بیکار ہوتا ہے۔ باقاعدہ طریقہ کار وضع کرنا اور منطقی حل تراشنا پڑتا ہے۔ مخالف بیانیہ اور قانون سازی کا جواب دینا ہوتا ہے۔ میری نظر میں حکومت پاکستان کی طرف سے کاونٹر قانون سازی بھی ایک اپشن کے طور پر موجود ہے۔ آپ کسی طرح اس بات کونظر انداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا انڈیا کے ساتھ معاملہ زیر نظر ضد اور انا سے بڑھ کر ایمانی غیرت کا معاملہ بن چکا ہے۔

مسلمہ طور پر ثابت شدہ اصول ہے کہ صرف جنگ کسی بھی مسئلے کا حل فراہم نہیں کرتی۔ مذاکرات کے تیاری اور مذاکرات پر آمادہ کرکے اپنے مسئلے کے حل کے لئے تجاویز اور متبادل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ذہن سازی اور اپنا بیانیہ نہ صرف ملکی طور پر عوام کے ذہن میں ڈال دیا جاتا ہے بلکہ دوسری طرف اقوام عالم، قوام متحدہ کے اداروں، عالمی ممالک اورخصوصا اسلامی بلاک او ائی سی کو بھی مسئلہ کی نزاکت اور مقدمہ کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ او ائی سی کا اجلاس بلاکر اس مسئلے کو امت مسلمہ کے دیگر مسائل کے طرح اٹھا کر او ائی سی کو فریق کے طور پر تیار کرنا چاہیے۔ ورنہ تو ایسی فورموں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہمارے جائز اور قانونی مسئلے میں ہمارا ساتھ نہ دینا کیا معنی رکھتے ہیں۔

پاکستان کے حق میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مذکورہ مسئلے پرانڈیا نے اقوام متحدہ کے قراردادوں کی کھلی اور صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ عالمی اداروں میں یہ مقدمہ سب جوڈیس ہے۔ اقوام متحدہ کوازخود نوٹس لینا چاہیے۔ کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس مد میں کشمیر کے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا اور نہ ہی ان کے خواہشات کا احترام کیا گیا۔ اس سے اگر ایک طرف انڈیا کی بد نیتی ثابت ہوتی ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔

اس مسئلے پر امریکن صدر اور اقوام متحدہ کیا کرسکتے ہیں؟ اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ کارگل کی جنگ کے نتیجے میں انڈیا نے بھونڈی سیاست کرکے اقوام عالم میں ہماری ریاست کو بدنام کرکے کشمیر سے پیچھے دھکیل دیا اورا پنی اس سازش میں کامیاب ہوگیا۔ دخل اندازی اور ٹیررسٹ آرگنائزیشن کو فنڈنگ کے مبینہ بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ اس وقت کشمیر سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔ حالات جوں کہ توں ہیں۔ اس کے بعد سے انڈیا کا نقطہ نظر کافی مضبوط نظر آرہا ہے۔

مضبوط اس لیے بھی ہے کہ اس سارے عرصہ میں ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوئے ہیں۔ حالیہ طور پر ایک سابق صدر، دو وزیراعظم اور دوسرے اعلی پائے کے سیاستدان کرپشن مقدمات میں جیلوں میں نظربند ہیں۔ میڈیا سینسر شپ، میڈیا بلیک آؤٹ اور حکومتی بیانیہ کے علاوہ کسی اور چیز اور بیان و جلسے کی کوئی وقعت نہیں۔ مذکورہ مسئلے پر حکومت کی کوئی کاغذی کارروائی موجود نہیں ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ عالمی طور پر ایک ملک کا مسئلہ ملکی سیاستدان ہی بہتر طور پر پیش کرسکتے ہیں۔

لیکن حالات آپ کے سامنے ہیں کہ کس طرح دوسرے بڑے بڑے مگر مچھوں کو چھوڑ کر صرف سیاستدانوں پر سارا نزلہ گرایا جا رہا ہے اور اس نسبت دوسری کرپٹ ترین، سول و ملٹری بیوروکریسی اور اشرافیہ کو کرپشن مقدمات سے چوٹ دیا گیا ہے۔ خدارا قومی مسئلوں پر اتفاق رائے بنایا جاتا ہے۔ قومی اور ملی مسئلوں پر سیاستدان ایک پیج پر ہوتے ہیں۔ سیاست میں اختلاف کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ قومی مسئلوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔

کوئی سیاستدان یا سیاسی پارٹی ایک کام ایک طرح سے کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو دوسرا اس کام کو دوسرے طریقے سے کرنا چاہتا ہے۔ البتہ مقاصد اور پالیسی ایک ہوتی ہے یہی سیاست کا مطمع نظر اور مقصد ہوتا ہے۔ اس میں دشمنی کے کیا معنی، سمجھ سے بالاتر ہے۔ مذکورہ مسئلے پر تمام اختلافات کو بھلا کر پارلیمنٹ میں بحثیں ہونی چاہییں۔ قانون سازی ہونی چاہیے۔ بدلتے ہوئے حالات کے موافق قومی بیانیہ تشکیل دیا جانا چاہیے۔ اتفاق و اتحاد کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).