میرے نامکمل حج اور پرانا مکہ


میں نے آنکھ کھول کر دنیا کو دیکھا تو ہر سال کا حج زندگی کا لازم حصّہ پایا۔
بابا اور اماں کی زندگی مکہ اور مدینہ کے گرد منڈلاتی تھی دو پروانوں کی طرح۔
تیسری میں آ گئی جسے ان کی انگلی پکڑ کر اس مرکزِ حیات کے گرد منڈلانا ہوتا تھا۔

بابا سرکاری ملازم تھے۔ ہر سال حج کے لیے ان کی چھٹی کا معاملہ پھنس جاتا۔ اعتراض آتا کہ ابھی پچھلے سال تو گئے ہو! اُدھر چھٹی کی درخواست چیف سیکریٹری کی ٹیبل پر پڑی پھڑپھڑا رہی ہوتی اور اِدھر وہ بے چین ہوئے پھرتے اور اماں کو سفر کی تیاری کا کہہ رہے ہوتے۔ مزاجاً بابا optimist تھے اور اماں pessimist۔ اماں بھر آئی ہوئی آواز میں مایوسی کے ساتھ کہتیں کہ اس بار بلاوا نہیں آیا! اس بار ہمیں یاد نہیں کیا گیا! ہاں اتنی بھیڑ میں ہم کہاں یاد ہوں گے! اور بھی کئی چاہنے والے پہنچے ہوئے ہوں گے وہاں۔ وہی ہم سے زیادہ عزیز ہوں گے!

بابا شدتِ جذبات سے سُرخ پڑ جاتے۔ آواز ان کی بھی بھر آتی تھی مگر ایک مکمل یقین کے ساتھ کہ اللہ پر یقین رکھو اور تیاری کرو۔

چھٹی منظور ہو تو جاتی مگر عموماَ حج کے دن سے ایک دن پہلے۔

ہم جدہ اتر کر سیدھے مکہ پہنچتے تو، یا تو منیٰ روانگی کے لیے قافلے نکل رہے ہوتے تھے یا منیٰ جا چکے ہوتے تھے۔

کبھی کبھی اُس رات جب لوگ منیٰ جا چکے ہوتے اور ہم رات گئے مکہ پہنچتے۔ ایسے میں مکہ ایک خالی نیم تاریک شہر کی صورت، سناٹے میں ڈوبا ہوا ملتا تھا۔ اگلی صبح ہم بھی مکہ سے سیدھے عرفات کے لیے نکل جاتے۔

وہ خالی ہو چکا مکہ کا شہر میرے بہت بچپن کی یادوں میں رکھی رہ گئی زرد پڑ چکی تصویروں کی طرح آج بھی موجود ہے۔

وہ سنسان مکہ ایک عجب پُراسرار شہر دکھتا تھا!

سعودی عرب میں تیل کی دولت تو آ چکی تھی مگر مکہ، مدینہ اور جدہ ابھی اپنے قدیم خدوخال کے ساتھ موجود تھے۔ گو کہ بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ شروع کر دی گئی تھی نئی عمارتوں اور سڑکوں کا جال بچھانے کے لیے۔

میری یاد داشت کا وہ زمانہ ساٹھ کی دہائی کا ہے۔ سعودی پاکستانیوں پر واری جاتے تھے اور ان کے بوسے لیتے نہ تھکتے تھے۔

مکہ شہر کا منظر کچھ یوں تھا کہ پہاڑی ڈھلوانوں پر بنی پتلی گلیوں کا ایک جال سا بچھا تھا اندر ہی اندر۔ گلیاں در گلیاں، ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی۔ گاڑی ان گلیوں میں نہیں جا سکتی تھی۔ پیدل گزرنا ہوتا تھا۔

سیاہ پتھروں سے بچھا گلیوں کا فرش اور گلیوں کے دونوں کناروں پر سیاہ و سرمئی رنگ کے پتھر سے بنے ہوئے دو دو منزلہ مکانات، جن کے ستون اور چھتوں کے شہتیر کھجور کے تنوں سے بنے ہوتے تھے۔ لکڑی کی باریک جافری نما جالیوں سے بنی، باہر گلی کی طرف نکلتی ہوئی، چھوٹی بڑی کھڑکیاں (bay windows)، جن کے اندر کی طرف بنے چبوترے بیٹھنے کے کام آتے تھے۔

انہی گلیوں میں ہر گھر کی بکریاں بھی گھر کے دروازوں سے بندھی اپنے آگے چارہ بکھیرے بندھی منمنا رہی ہوتیں۔

انہی تنگ گلیوں میں افغانیوں اور بخاریوں کی تندور کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہوتی تھیں، جہاں تازہ نان کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں میں مروّج خوراک حریسہ بڑے بڑے صراحی نما دیگچوں میں مسلسل پک رہا ہوتا تھا اور تندور میں بکرے کا ثابت سر پکایا جاتا تھا۔ بکروں کے کئی ثابت سر تندور کی دکانوں پر خریدار کے انتظار میں لٹک بھی رہے ہوتے تھے۔

حج کے موسم میں مکے کے لوگ اپنے گھر ہوٹل کی طرح کرائے پر اٹھا دیتے تھے اور خود گھر کی چھت پر خیمہ لگا کر رہتے تھے۔ ان گھروں کی سیڑھیاں بھی تنگ اور سیاہ و سرمئی پتھر کی ہوتی تھیں۔ ایک منزل پر ایک یا دو کمرے ہوتے تھے۔ کمروں کی دیواروں پر طاقچے بنے ہوتے تھے جن پر میں نے تو فنجان سجے دیکھے تھے مگر شاید کبھی دیے جلا کر رکھے جانے کے کام آتے ہوں گے!

کمروں کے فرش پر مکینوں کی مالی حیثیت کے مطابق سُرخ پھولدار قالین بچھے ہوتے تھے اور دیواروں سے لگے پتلے پتلے گدے اور ٹیک لگانے کے لیے پتھر کے سے سخت تکیے۔

 گلی میں کھلتی bay window کا چبوترہ گویا اوپر بیٹھنے کا واحد انتظام ہوتا تھا، ورنہ فرشی نشست کے علاوہ اوپر بیٹھنے کا تصوّر ہی نہ تھا۔

ہر گھر کا یہی نقشہ تھا۔ یا پھر مرکزی شہر سے کچھ دور پہاڑوں کے دامن میں پتھر کے چھوٹے چھوٹے غریبانہ گھر۔ جیسے ہمارے پہاڑی علاقوں میں آج بھی ہیں۔

مرکزی شہر کی تمام گلیاں مسجدالحرام کی جانب جا کر کھلتی تھیں۔

مسجدالحرام کے اطراف جیسے آج فلک بوس عمارتیں نظر آتی ہیں، تب اونچے اونچے پہاڑ دکھتے تھے۔ سیاہ و سرمئی پتھر کے، ازل سے ڈٹے کھڑے پہاڑ۔

خانہِ کعبہ کے سامنے بیٹھے ہوئے، ان پہاڑوں پر پتھر کی دیواروں اور ٹین کی چھتوں سے بنے بدوؤں کے جھونپڑا نما گھر جابجا نظر آ رہے ہوتے تھے۔ ان میں بستے لوگ ان پہاڑوں پر اترتے چڑھتے دکھ رہے ہوتے۔ کھال سے بنی، پانی سے بھری مشکیں پیٹھ پر لادے ہوئے، چھوٹی چھوٹی لنگوٹ باندھے دبلے پتلے بدو ان گھروندوں میں پانی پہنچاتے نظر آ رہے ہوتے تھے۔

خانہِ کعبہ کے گرد طواف کی جگہ چھوڑ کر باقی کے صحن میں کنکر بھرے ہوتے تھے، جن پر بچھی سرخ دریوں پر نمازی کعبہ رُخ بیٹھا کرتے تھے۔ مسجد نبوی کی طرح کبوتر یہاں بھی پھڑپھڑاتے پھرتے تھے۔ ان کے چگنے کے لیے گندم صحن کی کنکریوں کے بیچ بھری ہوتی تھی۔

مسجدالحرام کی عمارت ابھی عثمانی دور کی تھی۔ سُرخ اور نارنجی رنگ اینٹوں کے محرابوں والے برآمدے خانہِ کعبہ سے مناسب فاصلے پر چاروں اطراف دائرے کی صورت کھڑے تھے۔ ان برآمدوں کے عقب میں سعودی دور کی نئی تعمیر کا کام ابھی شروع ہی ہوا تھا۔

اب تو وہ پتھر شیشے کے سنہری شوکیس میں رکھا ہے جس پر حضرت ابراھیم کے پیروں کے نشان ہیں اور جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراھیم نے کعبے کی تعمیر کی تھی۔ مگر میرے بچپن کے اُن دنوں میں عین اس جگہ ایک سبز رنگ کی چھت اور جالیوں والی کوٹھڑی سی بنی تھی، جس کے اندر کہیں رکھا وہ پتھر کبھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ ہاں ایک معذور شخص جس کی نہ ٹانگیں تھیں اور نہ بازو، اس کوٹھڑی کے باہر ایک چھلنگا سی کھٹیا پر پڑا رہتا تھا، جیسے وہ اسی جگہ کا حصّہ ہو!

زم زم کا پانی سفید جبے میں ملبوس حبشی نوجوان پلا رہے ہوتے تھے۔ سفید مٹی کی صراحی کندھے پر رکھے، آیات کنندہ چاندی رنگ پیالیاں آپس میں کھنکھناتے، زم زم کی آواز لگاتے پھر رہے ہوتے تھے۔ ان میں کچھ حبشی، خواجہ سرا بھی ہوتے تھے۔

بابا بہت ہی شوق سے مسجدالحرام کے اس حصے میں جاکر بیٹھا کرتے تھے جہاں سے نبی کریمﷺ معراج پر گئے تھے۔ اس جگہ ایک بڑا اور چوڑا سا چبوترہ بنا ہوتا تھا جس کی حدود حضرت ام ھانی کے گھر کے مطابق تھیں، جہاں سے نبی کریمﷺ معراج پر گئے تھے۔ بابا اکثر اس جگہ بیٹھ کر معراج کا واقعہ دہراتے مگر مکمل نہ کر پاتے۔ نبی کریمﷺ کے متعلق وہ زیادہ دیر بات کر نہیں پاتے تھے۔ آنسو اور بھر آئی ہوئی آواز انہیں روک لیتی تھی۔

صفا مروہ میرے بہت ہی بچپن میں شاید بیچ بازار سے گزرتا تھا مگر مجھے جو صفا مروہ یاد پڑتا ہے، اس کی سیمنٹ کی دیوار بازار اور مسجد کے بیچ حائل کی جا چکی تھی۔ مگر صفا و مروہ کی دونوں پہاڑیاں اپنی اصل حالت میں جوں کی توں موجود تھیں، جیسی ازل سے تھیں۔

مگر صفا مروہ کے دروازوں سے باہر بلکل ایسے بازار سج چکے تھے جیسے میلوں ٹھیلوں میں لگتے ہیں۔

شہر کی نئی تعمیر کے لیے کھدائی کی ہوئی زمین مٹی کے ٹیلوں کی صورت اختیار کیے ہوئے تھی اور اس پر لکڑی کے ڈھابوں کی صورت لاتعداد کھلی دکانیں لگی ہوتی تھیں۔

سعودی عرب میں باہر کا سامان آنا شروع ہو چکا تھا۔ صفا مروہ کے باہر امریکہ اور یورپ سے درآمد شدہ سامان ڈھیروں کی صورت ان کھلی دکانوں میں رکھا ہوتا تھا۔ لڑکیوں کے خوبصورت، یورپین اسٹائل اور ساٹھ کی دہائی کے جدید ریڈی میڈ فراک، میکسیاں، پینٹس اور ٹاپس بہت زیادہ نظر آتے تھے۔ مقامی لڑکیوں نے یہی لباس پہننا شروع کر دیا تھا اور ان کے لباس کا اسٹائل بھی تیزی سے بدل رہا تھا۔

اس کے علاوہ ان دکانوں پر طرح طرح کے کمبل، سنہری رنگ کے برتن اور کھلونے سب چیزوں میں نمایاں نظر آ رہے ہوتے تھے جو حاجیوں کے لیے کشش کا باعث ہوں گے!

مسجدالحرام کی دوسری جانب سونے کا بازار بھی اسی طرح لکڑی کی کھلی چھوٹی چھوٹی کیبنز کی صورت تھا، جس طرح ہمارے ہاں آج بھی پان سگریٹ کی کیبنز ہیں۔ سونے کے زیورات اور solid gold کی موٹی موٹی زنجیریں ان کیبنز پر سبزی کی طرح لٹک رہی ہوتی تھیں۔

دکاندار سب ہی کاروبار کے ساتھ ساتھ حقہ ضرور گڑگڑا رہے ہوتے۔

لمبی سی نے ہوتی تھی حقے کی جو کافی فاصلے تک کھنچتی تھی۔ باہر سے شوخ رنگ کپڑے کا کوَر چڑھا ہوتا تھا نے پر۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah