پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی غنڈہ گردی


\"saleemلڑکیاں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی“ ہم سب میں چھپا تو بڑا شور ہوا۔ جمعیت نے اپنا باقاعدہ ردعمل شائع کرایا لیکن پھر واپس لے لیا۔ لوگوں کے اتنے زیادہ تبصرے اور سوالات آئے کہ مجھے لگا لوگوں کو مزید معلومات درکار ہیں لہٰذا اگلی قسط حاضر ہے۔

میں یہ وضاحت بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ میں جمعیت کے تمام لوگوں کا دل سے احترام کرتا ہوں۔ ان کے ساتھ میرا نظریاتی اختلاف بالکل واضح ہے لیکن میں پرامن مکالمے کا قائل ہوں۔ گالی کا جواب بھی گالی سے نہیں دیتا۔ میں انہیں کافر، غدار یا انسانیت کا دشمن نہ سمجھتا ہوں نہ ہی ایسا کہتا ہوں۔ بات صرف اتنی ہے کہ میری ناقص رائے میں جمعیت کے نظریات ہمارے معاشرے میں پسماندگی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں۔ اس لئے یہ موضوع بحث ہیں۔

جمعیت کے دوستو، میرا اور آپ کا نظریاتی فرق کچھ یوں ہے۔

(1) میرے لئے عقیدہ میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے۔ کسی کو اس میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ جب کہ آپ ہر وقت دوسروں کے عقائد کو درست کرنے میں لگے رہتے ہو۔

(2) میں \”لا اکراہ فی الدین\” کا قائل ہوں۔ آپ دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں اور پھر اس کی سزا کا نعرہ لگاتے ہیں جو میرے نزدیک مذہبی آزادی سے لگا نہیں کھاتا۔

(3) میں مذہب کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کا مخالف ہوں۔ جبکہ آپ مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کرتے ہیں۔ آپ اہل تشیع، احمدی اور ہندؤوں کے بارے میں اپنی سوچ اور بیانات کو ذرا پرکھ لیں۔

(4) میرے نزدیک سب لوگوں کی مذہبی آزادی بہت اہم معاملہ ہے۔ اور کسی بھی ملک کے سب لوگوں کو مذہبی آزادی صرف اسی صورت میں میسر آ سکتی ہے جب ریاست غیر جانب داری سے لوگوں کے اس حق کی حفاظت کرے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صرف سیکولر ریاستوں میں سب لوگوں کو مذہبی آزادی ملتی ہے۔ میرا خواب ایک سیکولر پاکستان ہے جس میں سب لوگ برابر کے شہری ہوں جب کہ آپ کے نزدیک سیکولرزم گالی ہے۔

(5) میں تمام انسانوں کے لئے بنیادی انسانی حقوق کی برابری کا قائل ہوں جبکہ آپ عورتوں کو مردوں سے کم تر سمجھتے ہیں اور بچوں اور بچیوں کے بنیادی انسانی حقوق کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ان کے خلاف تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں۔

(6) میں عورتوں اور بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کا مخالف ہوں جبکہ آپ عورتوں اور بچوں کے خلاف گھر، سکول یا مدرسہ میں جسمانی اور جنسی تشدد کے خلاف نہیں ہیں۔ تبھی تو آپ اس سلسلے میں کسی بھی قانون سازی کی مخالفت کرتے ہیں۔

(7) میں ریپ کو ایک گھناؤنا جرم سمجھتا ہوں جبکہ آپ اس کو دو بالغ لوگوں کے مرضی سے قائم کردہ جنسی تعلق کے ساتھ مکس کر دیتے ہو۔ اسی لئے آپ کے خیال میں ریپ کو ثابت کرنے کے لئے عورت چار چشم دید گواہ لائے ورنہ چپ رہے۔ مولانا منورحسن صاحب کا بیان آن ریکارڈ ہے۔ چار چشم دید گواہ تو دوسروں پر زنا کا الزام لگانے والے کی ذمہ داری تھی تاکہ لوگ بہتان تراشی سے باز رہیں۔

(8) آپ عورتوں کے خلاف ہونے والے جنسی تشدد کا الزام عورت کے سر ہی تھونپتے ہیں۔ مثلاً آپ کے خیال میں عورتوں کے خلاف جنسی ہراسانی کی اصل وجہ عورتوں کا لباس ہے۔ اس جرم کو روکنے کے لئے قانون سازی کی کوششوں کے آپ مخالف تھے۔

(9) میرے نزدیک موجودہ دور میں بچوں یا بچیوں کی شادی کرانا یا بڑوں کو اپنی مرضی کی شادی سے روکنا جرم ہے۔ آپ اس زمانے میں بھِی کم عمر بچیوں کی شادیوں کے حامی ہو حالانکہ میڈیکل سائنس کی رو سے یہ ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا موجب ہو سکتی ہے۔ اور عورتوں کو مرضی کی شادی کرنے پر قتل کرنے والوں کو بچانے کے بہانے ڈھونڈتے ہو۔ آپ ان دونوں جرائم کے خلاف قانونی سازی کی مخالفت کرتے ہو۔

(10) میں فیملی پلاننگ کو سب لوگوں، خاص طور پر عورتوں، کا بنیادی حق سمجھتا ہوں جب کہ آپ فیملی پلاننگ کے مخالف ہو۔ عورت کو اس کی بچہ دانی کی ملکیت بھی نہیں دیتے ہو۔

(11) میرے نزدیک انسانوں کا ایک دوسرے سے منہ چھپائے پھرنا انسانی عظمت کے خلاف ہے جب کہ آپ چاہتے ہو کہ انسانوں کی آدھی آبادی دوسری آدھی آبادی سے منہ چھپائے پھرتی رہے۔

(12) میں بچوں کو سکولوں میں سچ پڑھانے کا قائل ہوں جب کہ آپ ہمارے جھوٹ سے بھرے سلیبس میں کسی بھی تبدیلی کے مخالف ہو۔

یہ تو ایک جھلکی ہے۔ ہمارے نظریاتی اختلافات کی باقی فہرست پھر کبھی۔ اب آتے ہیں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں جمعیت کی کارکردگی کی جانب، تو ملاحظہ ہوں چند حقائق؛

میں درجنوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہیں جمعیت نے اغواء کیا اور ان پر تشدد کیا۔ ان میں میرے قریبی دوست اور میرے جاننے والے بھی شامل ہیں۔ میں نے ایسے زخمی لوگوں کی تیمارداری بھی کی ہوئی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے والوں سے یہ بات چھپی نہیں ہے۔

یہ کھلا راز ہے کہ جمعیت کے پاس جدید اسلحہ کے انبار ہوتے تھے۔ یونیورسٹی کیمپس میں اتنا مہلک اسلحہ رکھنے کا کیا مطلب ہے۔ یہ اسلحہ طالب علموں کی ضرورت ہوتا ہے یا غنڈوں کی۔

میں 1983 میں سائنس کالج وحدت روڈ کا طالب علم تھا۔ بلیک ایگلز الیکشن جیتی تھی۔ لیکن یہ کالج نیو کیمپس کا پڑوسی ہونے کے ناطے جمعیت کے عتاب میں رہتا تھا۔ کالج کے ایک فنکشن میں جمعیت نے ہلڑ بازی کی۔ تشدد کے خوف سے سب لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ عبداللہ، بلیک ایگلز کا لیڈر بالکل میرے پاس کھڑا تھا۔ جمعیت کا ایک لڑکا آیا اور چند فٹ دور کھڑے ہو کر پستول عبداللہ پر تانی اور گولی چلا دی۔ ادھر گولی چلنے کی آواز آئی ادھر عبداللہ کے پیٹ سے خون کا فوارہ پھوٹا۔ کئی سال بعد بھی گولی چلانے والے اس لڑکے کو نیو کیمپس کے ایک نمبر ہاسٹل میں میں نے خود دیکھا۔ یہ ایک کھلا راز تھا کہ جمعیت نے کئی مجرموں کو لڑائیوں میں استعمال کرنے کے لئے پناہ دے رکھی تھی۔

پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کا قانون تھا کہ مردوں اور عورتوں کا مکس گروپ کسی کنٹین پر بیٹھ کر کچھ کھا پی نہیں سکتا۔ میں یونیورسٹی چھوڑنے کے تین سال بعد 1991 اپنی بیوی کے ساتھ نیو کیمپس گیا۔ ہم نے ہاسٹل کی فروٹ شاپ پر موٹر سائیکل روکی۔ سب لوگ پہچان گئے اور بڑی آؤ بھگت کی۔ ہم نے جوس کے دو گلاس آرڈر کئے تو بیچارے معذرتیں کرنے لگے۔ کہنے لگے \”آپ کو پتا ہے وہ ہماری دکان کی دھجیاں اڑا دیں گے\”۔ پاکستان کی باقی کسی جگہ پر ایسا کوئی قانون نہیں ہے آخر پنجاب یونیورسٹی میں یہ قانون کیوں تھا اور کس نے بنایا تھا؟

یونیورسٹی میں آدھی رات کو اچانک دوستوں کا فروٹ شاپس چلا جانا عام تھا۔ ایسی ہی ایک رات کو ہم چند دوست جوس کا آرڈر دے کر بیٹھے تھے کہ جمعیت کے لوگوں نے ہم سے بدتمیزی کی اور ڈرایا دھمکایا فروٹ شاپ کو منع کر دیا کہ وہ ہمیں جوس پیش نہ کریں۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ہم میں ایک لڑکے نے برمودہ شارٹ پہن رکھی تھی۔ ہم نے بد تمیزی برداشت کی اور واپس کمرے میں آ گئے۔ ورنہ اگلا مرحلہ تشدد ہی تھا۔

لڑکیوں کے خلاف جنسی ہراسانی کے بہت سارے واقعات کئی خواتین نے پچھلے آرٹیکل پر تبصروں میں لکھ دئے ہیں۔ اپنے پچھلے بلاگ \”لڑکیاں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی\” میں جس خاتون کا واقعہ میں نے بیان کیا ہے اس خاتون کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس نے یہ واقعہ روتے ہوئے بیان کیا تھا۔

دو اہم سوالات۔ (1) کیا وجہ ہے کہ اسی کی پوری دہائی میں پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے علاوہ کبھی کسی سٹوڈنٹ تنظیم نے نئے داخلوں کے موقع پر سٹال تک نہیں لگایا۔ (2) کیا وجہ ہے کہ حافظ سلمان بٹ صاحب کو ہرانے والا پنجاب یونیورسٹی کا جنرل سیکرٹری اپنے پورے دور میں پنجاب یونیورسٹی میں نہیں دیکھا گیا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جمعیت کے پاس تھانیدار اور جج بننے کا کیا جواز ہے۔ ایک تہذیب یافتہ معاشرے میں اگر کوئی طالب علم، ملازم یا ٹھیکیدار یونیورسٹی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یونیورسٹی انتظامیہ ایکشن لے سکتی ہے۔ جمعیت کو ایکشن لینے کا حق کس نے دیا ہے۔ کیوں کر جمعیت لوگوں کو مجرم قرار دیتی ہے اور تشدد کر کے سبق سکھاتی ہے۔ کیا ریاست کے قانون کو یوں اپنے ہاتھ میں لینا فساد فی الارض نہیں کہلائے گا؟  ڈسپلن، اخلاقیات اور مذہب کے نام پر خود ہی تھانیدار اور جج بن بیٹھنا صریح غنڈہ گردی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments