جمعیت سے کچھ ملاقاتیں


\"Amjadگزشتہ دنوں محترم سلیم ملک اور محترم احتشام خالق کے جمعیت کے حوالے سے مضامین نظر سے گزرے۔ اسی سلسلے میں اپنے تجربات شیئر کر رہا ہوں۔

 یہ 1997 کی بات ہے جب مجھے فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے کی غرض سے اپنے میٹرک کے چند دوستوں کے ہمراہ گورنمنٹ کالج مانسہرہ جانے کا اتفاق ہوا۔ کسی بھی سٹوڈنٹ کی زندگی میں کالج کا پہلا دن یقیناً ایک خوشگوار یاد ہوتا ہے۔ لیکن میرا وہ دن ایک تلخ یاد کے ساتھ منسوب ہے۔ ہم دوستوں نے خوشی خوشی کالج کے فارم جمع کروائے اس کے بعد کالج کی کینٹین پر ناشتہ کیا اور ساتھ ساتھ خوش گپیاں کیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اب ہمیں سکول بیگ نہیں لانا پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ کالج میں اپنی مرضی سے کلاسز لینے اور چھوڑنے کا حق ہوگا اور تیسرا یہ کہ استاد کے ڈنڈے سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ لیکن یہ سب کہتے ہوئے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں استاد کا ڈنڈا تو بہرحال نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ کافی ڈنڈے موجود ہیں۔

اسی گفتگو میں مگن ہم جب واپسی کے ارادے سے کالج گیٹ پر پہنچے تو کچھ ڈنڈے ہمارے منتظر تھے۔ چند ہلکی داڑھی والے لڑکے کالج گیٹ بند کرنے کے بعد اس کے سامنے ڈنڈے لے کر براجمان تھے۔ ایک صاحب جن کے ہاتھ میں پستول تھا۔ وہ تقریر کی شکل میں اول فول بول رہے تھے۔ ان کے الفاظ کا خلاصہ کچھ یوں تھا۔

’’ نیا آنے والا جو بھی طالبعلم جمعیت کا فارم نہیں بھرے گا اس کو کالج سے نہیں جانے دیا جائے گا‘‘

یہ ہمارے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔ ہم سب حیران و پریشان تھے کیونکہ ہمیں گھر سے نکلتے ہوئے کسی نے یہ نہیں سمجھایا تھا کہ کالج میں اس طرح کی تنظیمیں ہوتی ہیں۔ بہرحال میرے دوستوں نے مشورہ دیا کہ فام بھر لیتے ہیں کیونکہ ان سے جان چھڑانے کا کوئی اور طریقہ نہیں۔ میں فطرتاً شریفانہ بزدل ہوں۔ لیکن اس بزدلی پر اصولوں کی گہری چھاپ ہمیشہ سے لگی ہے۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کو یہ کام کرنا ہی ہے تو بجائے دھونس زبردستی کے یہ لوگ نئے آنے والوں کی مدد کر کے بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ بہرحال جیسے تیسے کر کے شام کو پرنسپل صاحب نے گیٹ کھلوایا اور ہمیں واپسی کا راستہ ملا۔ چند دن بعد معلوم ہوا کہ پہلے دن فارم بھرنے کے سٹال تو سب تنظیموں نے لگائے تھے لیکن جمعیت کے ڈیسک پر کم لوگ آئے جس کا غصہ کالج گیٹ بند کر کے اتارا گیا۔ اس کے بعد ہم بھی کچھ سیانے ہو گئے۔

جمعیت سے دوسری ملاقات 2002 میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں ہوئی۔ جہاں میں داخلہ لینے کی غرض سے گیا ہوا تھا۔ مجھے اپنے کزن کے پاس رکنا تھا جو پہلے سے ہی انجینئرنگ میں داخلہ لے چکا تھا۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ وہ بے چارہ ہاسٹل کا کمرہ الاٹ ہونے کے باوجود در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ جو کمرہ اسے الاٹ کیا گیا تھا اس میں جمعیت کے ناظم رہائش پزیر ہیں۔ لہٰذا وہ کمرہ انہیں نہیں مل سکتا۔

جمعیت سے تیسری ملاقات یونیورسٹی لائف میں تب ہوئی جب پورے خیبر پختونخوا سے جمعیت کے قافلے آغا خان بورڈ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی پہنچے۔ میں دوستوں کے ہمراہ کینٹین پر بیٹھا تھا۔ ملاکنڈ سے آنے والے کچھ طلبہ سے میں نے سوال کیا کہ یہ آغا خان بورڈ کیا ہے جس کے خلاف آپ احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ یہ ایک کافرانہ نظام ہے جب کہ ان کے ناظم نے جواب دیا کہ یہ تعلیمی نظام کے خلاف یہودیوں کی سازش ہے۔ میں نے پوچھا کہ پھر بھی کچھ وضاحت کریں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے سوالوں سے لگتا ہے کہ آپ بھی کافرانہ نظام کو سپورٹ کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments