بے سمت ہجوم میں کھڑا متلاشی


کثرتِ آبادی، وسائل و مہارت کی کمی، مذہبی خود پسندی اور خاندانی کلچر کے مسائل میں الجھے، ہم قوم کا تصور اجاگر کرنے میں ناکام، ایک بے سمت ہجوم کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ یہ مسائل اور ان سے جنم لینے والے دیگر مسائل اس قدر شدید ہوچکے ہیں کہ ہم اصل معاملات اور ان کی تہہ تک پہنچنے کی کوششیں ترک کر کے اب بس ضمنی مسائل کے حل کو ہی اصل مسائل کا حل سمجھ کر ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ذمہ دار ایوان بھی جیت، ہار کی خوشی و غم سے نڈھال

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھرکی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

کی تصویر بنے مسائل سے بے اعتنائی برتتے نظر آتے ہیں۔ ہر روز ایک تازہ قصہ عوام کی نذر کردیا جاتا ہے۔ عوام آڈیوز، ویڈیوز، سکینڈلز، ٹویٹس کی تاریخی و جغرافیائی غلطیوں، میڈیا پر سیاستدانوں، اداکاروں کے عوامی جگہوں پر یا ذاتی نوعیت کے لڑائی جھگڑوں کے مناظر سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں اور پھر عام عوام سوشل میڈیا پر اپنے لیڈران کے ترجمان بن کر ان کی پارسائی اور مخالف کی ہرزہ سرائی کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں۔ الفاظ کی اس جنگ میں مقابل کو نیچا دکھانے کے لئے تہذیب، تاریخ، دلیل، شائستگی سے پہلو تہی برتی جاتی ہے اور الزام تراشی، ہرزہ سرائی، طعن وتشنیع، دشنام طرازی مغلظات بکنے حتیٰ کہ انسانیت کی ہر حد کو پامال کیا جانا ہی جیت کی دلیل ٹھہرتی ہے۔ تحمل، بردباری، شائستگی، رواداری کی بجائے گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا ہمارا قومی معمول بن چکا ہے۔

دوسری طرف ان جھمیلوں سے بچنے والوں نے مزاح کے نام پر جگت بازی، پھکڑپن، فحش گوئی ذو معنی جملوں کا بازار گرم کررکھا ہے۔ یہ بھی قومی مزاج کا خاصا بن چکا۔ طنز و مزاح کا حسین امتزاج مفقود ہوتا جارہا ہے۔ اب ہزلیات کے چلن کا ظہور خاص و عام کی محفل اور بڑے نشریاتی اداروں کی مقبولیت کا پیمانہ طے کرتا نظر آتا ہے۔ نوجوان نسل کی سمت کا تعین اور قومی دھارے میں شمولیت کا مرکز اب یہی نکتہ (جگت بازی) بنتا نظر آتا ہے۔

آبادی کا سیلاب بروقت روکنے میں تو ہم ناکام ہو ہی چکے تھے آج بھی صورت حال مثالی نہیں۔ کچھ مذہبی خود سری، اولاد نرینہ کے حصول میں مگن، دولت کی فراوانی، جہالت اور ڈپریشن کا شکار لوگ کثیر اولادی کے اسیر نظر آتے ہیں۔ جس کا حل کسی کے بس کی بات نہیں۔ البتہ جو ذی روح اس معاشرے کا حصہ بن چکے ان کے لئے اقدامات کی ذمہ داری سے ہم آج بھی غافل اور بے بہرہ ہیں۔ ہر گلی، نکڑ، چوک، راستوں میں کھڑے اور راہ چلتے ہوئے گھورتے ہوئے، تمسخرانہ جملے، نازیبا القاب کا اعادہ کرتے، دنیاوی معیارات سے عاری معاشرہ ہیں۔

مذہب کے پرچار کو ہم دینی فریضہ سمجھتے ہوئے خوب ادا کرتے ہیں۔ مذہبی معاشرہ، مذہب کی اخلاقی تربیت سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ دینی خدمات ادا کرنیوالوں کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ بھلائی کا لبادہ زیب تن کیے، معاشرے کا یہ حصہ، برائیوں کو فروغ دینے میں سر فہرست ہے، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کودے رہے ہیں خاک بازی کا

وسائل کو بروئے کار لانا اور عوام کو ثمرات کے حصول میں معاون بنانا یقینی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس ہجوم کو قوم بنانے میں ہر فرد کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ علم کی دنیا سے روشناس کروانا، درست اور غلط میں تمیز اور دلیل کی بنیاد پر بات کرنا اور ماننے کا چلن عام کرنا ہم سب کو یہ فرض ادا کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).