کاش مور کی سودے بازی اور اِنڈو پنڈو کی نا مکمل کہانی



’’آپ کی نظر میں کاش مور کا مستقبل اور کیا ہو سکتا تھا‘‘؟
’’یہی کہ اُسے اِنڈو سے آزادی ملنی چاہیے‘‘۔
’’یہ مت بھولو، کِہ آدھے سے زیادہ کاش مور اُن کے پاس ہے، تو آدھا ہمارے پاس۔ کاش موریوں کو آزادی ملی، تو ہمارا کاش مور بھی ہمارے ہاتھ سے جائے گا‘‘۔
’’کاش موری ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں‘‘!

یہ بات سن کے اُس نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ اُسے یوں لگا، ابھی چھت اُن کے اوپر آن گرے گی۔
’’اِس میں ٹھٹھا اُڑانے والی کیا بات ہے‘‘؟
’’یہ ہماری درسی کتب اور سرکاری میڈیا کی پھیلائی باتیں ہیں، جو پورا سچ نہیں ہے۔ برسوں لگا کے عوام کی اذہان سازی کی گئی ہے۔ اب یہی تو مشکل پیش آ رہی ہے، کہ یک دم سے عوام کے ذہن کی سلیٹیں کیوں کر صاف ہوں‘‘۔

میں پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچا، تو چائے کی طلب ہونے لگی۔ ان صفحوں کے بیچ میں بک مارک لگایا اور چائے بنانے کے لیے باورچی خانے کی او بڑھا۔ ان دنوں میرے بیوی بچے عید منانے ننھیال گئے ہوئے ہیں، اور میں گھر میں اکیلا بیٹھا بور ہو رہا تھا۔ میرا بیٹا کالج میں پڑھتا ہے، میرے دیکھا دیکھی اُسے کہانیاں لکھنے کا شوق چرایا ہے۔ اُس کے کہنے پر میں نے اسے ایک نوٹ بک لا کے دی تھی، جس میں وہ اوٹ پٹانگ کہانیاں لکھتا رہتا ہے۔ میں وقت کاٹنے کے لیے وہ نوٹ بک اٹھا کے بیٹھ گیا۔ جتنی دیر میں چائے تیار ہوتی ہے، آپ کو اس کہانی کا پلاٹ سناتا ہوں۔ آپ کہیں گے، میں آپ کو یہ کہانی کیوں سنا رہا ہوں، تو اس لیے کہ ہر باپ اپنے بیٹے کی کارکردگی بیان کرتے خوشی محسوس کرتا ہے۔

بیٹے نے کہانی لکھنے کے لیے زمانہ قبل از مسیح کا دور چنا ہے۔ اس داستان کا عنوان ہے، ’’تاریخ کے اوراق پہ لکھا افسانہ‘‘۔ اُس دور میں روم سپر پاور تھا۔ چوں کہ روم میں جمہوریت تھی، تو بظاہر روم چاہتا تھا، اُس کی باج گزار ریاستیں بھی جمہوری نظام اپنائیں۔ انِڈو اور پنڈو کبھی ایک ہی ریاست کا حصہ تھے، لیکن جس زمانے کا یہ فسانہ ہے، اس سے کوئی ستر بہتر سال پہلے وہ ٹکڑوں میں بٹ گئے تھے۔ بعد میں پِنڈو کے دو حصے ہوئے۔ اب پنڈو میں جمہوری نظام تھا، لیکن کئی بار ایسا ہوا، کہ سپہ سالاروں نے جمہوری نظام کو تلپٹ کر دیا۔ پِنڈو میں پہلی بار جب جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی، تو اُس کے بعد اُس کی عسکری قیادت نے صرف ایسے جمہوری نمایندوں کو پنپنے دیا، جو اُن کے مفادات کا تحفظ کریں، اُن کی پالیسویں پر عمل پیرا ہوں۔ یہاں اتنی گنجایش نہیں کہ اِنڈو پِنڈو کا جامع احوال لکھا جائے، جب کبھی یہ داستان کہیں شایع ہوئی، آپ خود ہی پڑھ لیجیے گا۔

میں نوٹ بک دیکھتے، اُس حصے پہ پہنچ گیا تھا، جب پنڈو میں اُس کے پڑوسی اور اُبھرتی ہوئی سپر پاور فارس نے تعمیری منصوبے شروع کر رکھے تھے۔ ایک طرف پنڈو کو ان منصوبوں کا فائدہ تھا، تو دوسری طرف فارس، پنڈو کے راستے روم کی مارکیٹ پر قبضہ چاہتا تھا۔ روم کو یہ بات پسند نہ تھی، کہ اُس کی ایک باج گزار ریاست، اُس کے ممکنہ حریف کے ارادوں کی کامییابی میں پل کا کام دے۔ پِنڈو میں ماضی کے ایک نیزہ باز ہیرو، جو بعد میں سیاست میں آ گیا تھا، کی حکومت تھی، لیکن اُسے کنٹرول پِنڈو کے سپہ سالار کرتے تھے۔ اُس کی راہ ہموار کرنے کے لیے مخالف رہ نما زندان میں ڈال دیے گئے تھے۔ پھر بھی پِنڈو کی معیشت سنبھل کے نہ دے رہی تھی۔ عوام میں بے چینی تھی۔ ایسے میں روم سے مالی مدد مانگی گئی، تو اس نے بدلے میں یہ شرط رکھی، کہ اپنے پڑوسیوں سے تعلقات میں بہتری لاو، سرحد کے ایک طرف، جہاں روم ہی کے کہنے پر برسوں سے جنگ جاری ہے، وہاں باغیوں کے خلاف کارروائی تیز کرو، فارس کے ساتھ سڑکوں، پلوں، کارخانوں کی تعمیر کا منصوبہ روک دو، نیز اِنڈو سے مل کے کاش مور کے دیرینہ مسئلے کو حل کرو۔

کہانی میں دکھایا گیا ہے، کہ نیزہ باز کی حکومت نے خفیہ طور پہ روم کی شرائط تسلیم کر لی تھیں، لیکن عوام کو دھوکے میں رکھا  تھا۔ یہی کہ اِنڈو ہمارا دُشمن ہے، وہ کاش موریوں کو ہماری حمایت کی سزا دے رہا ہے۔ پنڈو کی اسمبلی میں مخالفین دھواں دار بد زبانی کر رہے تھے۔ حکومتی ارکان بھی بد زبانی میں کسی طور پیچھے نہ تھے۔ چائے تیار تھی۔ میں نے کپ اٹھایا اور کہانی کے اگلے صفحوں پر نظر دوڑائی۔ بیٹا چوں کہ نو آموز ہے، تو کہانی لکھتے، دو ایسے کرداروں کے درمیان مکالمہ دکھایا ہے، جن کی شناخت واضح نہیں ہے۔

’’کاش مور کا سودا کر کے تم مخالفین کا منہ نہیں بند رکھ سکتے۔ عوام کو سب سمجھ آ رہا ہے، کہ حکومت کیا کرتی پھر رہی ہے۔ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کے حکومت کا تختہ اُلٹ دیں گے‘‘۔
’’کچھ بھی نہیں ہو گا۔ یہ کھیل بیان بازی تک جاری رہے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ آنے والے کل میں اپوزیشن نیزہ باز حکمران کو کاش مور کا سودا کرنے والا کہیں گے، اور بس‘‘۔
’’اور بس؟ یہ اتنی معمولی سی بات ہے‘‘؟
’’تو اور کیا‘‘؟

’’عوام کو حقیقت پتا چلی تو وہ کاش مور کا سودا کرنے والوں کی بوٹیاں نوچ لیں گے‘‘۔
’’عوام وہ بھیڑ بکریاں ہیں، جنھیں ہم چرواہے بن کے کب کا ہانک رہے ہیں‘‘۔
’’مان لیا، کہ چرواہا بن کے ہانکا جا رہا ہے۔ لیکن اپوزیشن لیڈر کو کبھی نہ کبھی تو جیل سے رہا ہونا ہے، وہ عوام کو سچ نہیں بتائے گا‘‘؟

’’وہ سب جانتا ہے۔ اور اس کھیل کا حصہ ہے‘‘۔
’’کھیل کا حصہ ہے‘‘؟
’’ہاں! یہ سب ایک ہیں۔ ایک رومی محاورہ ہے، ’سیاست دان، سیاست دانوں کی بہنیں ہوتی ہیں‘۔ یہ عوام کو اسی حد تک سچ بتاتے ہیں، جس حد تک انھیں قابو میں رکھا جا سکے۔ کوئی اس نظام کو بدلنا نہیں چاہتا۔ یہ سب اس نظام کے بینیفشری ہیں۔ اگر ایک نا کام ہو جائے، تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ بس یہی تبدیلی  ہے‘‘۔
’’اور سیاست دانوں کے علاوہ، دوسرے لوگ؟ یعنی اسٹیبلش منٹ‘‘؟
’’اسٹیبلش منٹ؟ اچھا! تمھاری مراد، چور سپاہی، قاضی، تاجروں، سرمایہ داروں، اور ان قوتوں سے ہے، جو اس نظام کا حصہ ہیں‘‘۔
’’ہاں‘‘!
’’کہا ناں، سب اس نظام کو چلتے رہنا دیکھنا چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس نظام کے ناقد بھی یہ نہیں چاہتے، کہ یہ نظام بدلا جائے۔  کیوں کہ سب اسی نظام کے وسیلے سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں‘‘۔

’’تو یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟ تبدیلی کی کوئی امید نہیں‘‘؟
یہاں تبدیلی آئی، تو سیاست دان سے لے کے، بزنس مین، سپاہی، مذہبی پیشوا، کلرک، قاضی، حتیٰ کہ صحافی تک کی چمڑی ادھیڑ دی جائے گی، اور یہ بات سب جانتے ہیں۔ سیاست دان سے صحافی، سب تبدیلی کی باتیں کریں گے، لیکن تبدیلی کیوں چاہیں گے، جب کہ تبدیلی آئی تو اِن سب کا مال چھِن جائے گا‘‘۔

’’تو پھر ایک دوسرے پہ الزام تراشی‘‘؟
’’شریکوں کی لڑائی ہے۔ اقتدار کے پلاٹ میں اپنے اپنے حصے کی جنگ۔ کیک میں سے سب حصہ لے رہے ہیں، زیادہ یا کم کی جھگڑا ہے‘‘۔
’’تو یہاں انقلاب کبھی نہیں آئے گا‘‘؟
’’اس وقت۔۔ جب اکثریت کو بھوک اس حد تک بے بس کر دے گی، کہ وہ مرنے مارنے پہ نہ اتر آئے۔ ایسے وقت کو روکنے ہی کے لیے تو کاش مور کا سودا کیا ہے۔ بدلے میں مالی امداد ملے گی، تا کہ یہ نظام چلتا رہے۔ در اصل یہ نظام بچانے کی جنگ ہے‘‘۔
’’ایمان تو پہلے ہی بِک چکا ہے۔ کاش مور کو بیچنے کے بعد ہم کیا بیچیں گے‘‘؟

اس سے آگے، نوٹ بک کے صفحات خالی ہیں۔ اب مجھے بے چینی سے بیٹے کی وا پسی کا انتظار ہے، کہ وہ کہانی کا اگلا حصہ لکھے۔ میں یہ جاننے کے لیے بے تاب ہوں، کِہ پِنڈو کے حکمران، اس بوسیدہ نظام کو چلانے کے واسطے، فارس کے منصوبے رول بیک کرنے، اور کاش مور کی سودے بازی کرنے کے بعد آگے کیا بیچنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ کیوں کہ پنڈو کی آمدن کا کوئی اور ذریعہ تو ہے نہیں، تو آنے والے کل میں، گھر کا نظام چلانے کے لیے کیا بیچنا ہو گا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran