عوام میں اذیت پسندی کا رجحان


ایک روز دفتر جاتے ہوئے راستے کہ ایک سگنل پر رکا ہوا گرین سگنل کا انتظار کر رہا تھا۔ ہلکی پھلکی موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے خیالوں میں مست کسی خواہش میں گم سوچ رہا تھا کہ کاش یہ خواب بھی پورا ہو جائے تو بس پھر سکون سے زندگی گزارنی ہے ساتھ ساتھ خواب کو پورا ہوتا تصور کرتے خوشگوار موڈ میں تھا کہ کسی نے زور سے گاڑی کے شیشے کو کھٹکھٹایا میں ایک دم چونکا اور دیکھا کہ ایک عجیب سی شکل والا شخص جس کے چہرے پر ایک آنکھ تھی اور دوسری طرف سے چہرہ پھولا ہوا گردن سے نیچے تک لٹک رہا تھا اور کان شاید تھے ہی نہیں۔

ایک لمحے کو میں سمجھ ہی نہیں پایا کہ یہ ہے کیا؟ دل کی دھڑکن رک سی گئی تھوڑا ڈر گیا دل میں تکلیف بھی محسوس ہوئی شاید منی ہارٹ اٹیک تھا اتنا خوفناک منظر دیکھ لیا کہ اگر پتہ ہوتا کہ یہ دیکھنے والا ہوں تو شاید اس دن دفتر ہی نہ جاتا۔ لیکن قسمت میں تھا یہ جھٹکا سہنا سارا دن ہی بہت عجیب سا گزرا۔ وہ ایک بھکاری تھاسمجھ نہیں ائی کہ کس بیماری کا شکار تھا، میں اپنے آپ کو کوستا بھی رہا کہ کیا ضرورت تھی اتنے غور سے دیکھنے کی؟ لیکن وہ چہرہ اب دماغ میں درج ہوچکا ہے اور اب شاید کبھی نہیں بھولے گا۔

کچھ عرصے بعد رب نے میری خواہش پوری کی اور میں ورلڈ کپ کی کوریج کے سلسلے میں لندن روانہ ہو گیا اس ملک کے نظام، تہذیب، اخلاقیات، تاریخ، روایات اور وہاں کے لوگوں کے انسان دوست رویوں کے بہت سے لوگ قائل ہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہاں کی تو فضا میں بھی سکون ہے بہت سے مقامات پر برطانوی شہریوں کو اتنا مددگار پایا کہ شرمندگی کا بھی احساس ہوا، ہنستے مسکراتے چہرے جن پر بے فکری اور اطمینان صاف ظاہر ہے ہر طرف دیکھ کہ ایسا لگتا کہ شاید یہاں پریشانی نام کی کوئی چیز نہیں۔

ایسے ہی ایک دن وہاں سڑک پر ایک شخص کو گٹار بجاتے دیکھا تو میں رک گیا اتنی خوبصورت دھن کہ جیسے اسی کی کمی تھی وہ شخص سب کی توجہ حاصل کر رہا تھا کچھ لوگ کھڑے اس کو سن رہے تھے کچھ گزرتے ہوئے داد دے رہے تھے اس کی موسیقی کی دھن کی وجہ سے ماحول بہت خوبصورت ہوچکا تھا شام کا سماں اور موسم بھی بھرپور ساتھ دے رہا تھا دل کر رہا تھا کہ وہیں کہیں بیٹھ جاؤں اور اس منظر سے لطف اندوز ہوتا رہوں۔

وہ شخص بھی بھکاری تھا لیکن پیسے دینے یا نہ دینے والوں سب کے لئے ایک بہترین انٹرٹینمنٹ بھی تھا بلکہ اگر وہ وہاں نہ ہو تو شاید اس جگہ کی اہمیت بھی کم ہو جائے۔

اتنے میں میرے ذہن میں خیال آیا اگر یہاں وہ بھکاری جو لاہور کی سڑک پر مجھے نظر آیا تھا اسے یہاں لاکر کھڑا کر دیا جائے تو شاید یہاں موجود سب لوگ کومے میں چلے جائیں کچھ نرم دل گورے موقع پر دم توڑ سکتے ہیں پولیس کو بھی بلوایا جا سکتا ہے بہت سی گوریاں تو شاید دوبارہ نئی زندگی بھی شروع نہ کر پائیں۔ یہاں جو بھی اس بھکاری کو دیکھے گا وہ پہلے جیسا نہیں رہے گا!

لیکن یہ اذیت صرف ہمارے حصے میں ہی ائی ہے جو ہمیں دن رات ملتی ہے اور ہر وقت سڑکوں پر ایسے بھکاریوں کی صورت میں ایسے چہرے نظر آتے کہ لگتا ہے کہ شاید یہاں انسان سزا کے طور پر رکھے ہوئے ہیں یہاں پریشان رہنا اور پریشانیاں بانٹنا لوگوں کا مشغلہ ہے۔

ایکسیڈنٹ کسی کا بھی ہو، جہاں کہیں بھی کوئی فوتگی ہوئی ہو ہم یہ اطلاع سب کو پہنچانا لازمی سمجھتے ہیں چاہے اس کا تعلق ہو یا نہ ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ برابر کی اذیت سے گزریں۔ ٹی وی پر ہر وقت جنازے ادا کرنے کی خبریں ہیں، تدفین پہ تدفین کیے جارہے ہیں، بارش تھوڑی زیادہ ہو جائے تو سو، پچاس بندے خالق حقیقی کو جا ملتے ہیں، جس دن کوئی نہ مرے اس دن پرانے مرے ہوؤں کی خبریں، ان کو بچھڑے اتنا عرصہ ہوگیا، ہر ماہ پہلی خبر، پٹرول بم گرا دیا گیا، کسی کو کرنٹ لگ جائے کوئی گٹر میں گر جائے ایک ہزار بندہ اکٹھا ہو کر اس اذیت ناک منظر سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔ دو لوگ آپس میں لڑ رہے ہوں تو رش لگ جائے گا لوگ اتنے شوق سے لڑائی دیکھ رہے ہوں گے کہ جیسے سپر مین اور سپائیڈر مین کا جھگڑا ہوگیا ہو۔

جو کوئی جتنا بھی منحوس واقعہ سنا دے دوسرا سبقت حاصل کرنے کہ لئے اس سے زیادہ منحوس قصہ سنا دے گا۔ میں جب بھی کسی کو ریٹائر ہوتے دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ شخص قبرستان کی طرف جارہا ہے۔ ہمیں یہ بھی پریشانی رہتی ہے کہ خیر ہو ایک دو دن سے کچھ ہوا نہیں۔ جس کسی کو بھی دیکھ لیں اپنے ارد گرد پریشان نظر آتا ہے لوگوں کے چہروں پر مایوسی ہے لوگ خوفزدہ رہتے ہیں۔ کسی کو سکول فیسوں کی پریشانی تو کسی کو بجلی کہ بلوں کی ٹینشن ہر وقت دماغ کی شریانیں کانپتی رہتی ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔

میں مانتا ہوں کہ خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے اور غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے لیکن ہر وقت صرف غم ہی کیوں بانٹنا ہے؟ کوئی اگر غلطی سے خوش گھوم پھر رہا ہے تو فوراً غم بانٹ دیتے ہیں۔ اذیت میں رہنا اور اذیت دینا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں اور مثالیں بھی ایسی ہی دیتے ہیں کہ دنیا فانی ہے، سب نے جانا ہے، یہاں کچھ نہیں پڑا، قبر کی سوچ! ٹھیک ہے لیکن پر سکون زندگی گزارنا سب کا حق ہے۔ زندہ رہنے کہ لئے بھی کچھ بنیادی ضروریات ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے نظام میں اصلاحات نہایت ضروری ہیں! نہیں تو ہم اس ذہنی کوفت سے کبھی جان نہیں چھڑوا پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).