محبت گھولنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں


\"sehrish-usman-2\"

اس کی پلکوں کا سایہ اس کی گالوں پر پڑا کرتا تھا مسکراتی ہوئی بھلی لگتی تھی یا تو اسے معلوم تھا یا اسے کسی نے بتا رکھا تھا پلکیں جھکا کہ مسکرایا کرو۔ گردشیں تھم کے نہ بھی دیکھیں تو آنکھ کے دریچوں سے سفر دل کے نہاں خانوں تک ضرور ہوتا ہے۔ اور ہمیں یقین ہے ایسی ہی کوئی گھڑی تھی خاتون روسٹرم پہ کھڑی پریزنٹیشن دے رہی تھیں اور آدم کے بیٹے نے اپنی جنت داؤ پہ لگانے کا فیصلہ کر لیا۔

دو چار مہینے ہم ہونق بنے مسکراہٹوں کے تبادلے دیکھتے رہے۔ اور جس دن انفارمل گیٹ ٹو گیدر میں خاتون کسی کے ساتھ رنگوں کی میچنگ کر بلیک نیٹ کا ڈریس پہن کے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں اس دن تو ہمارے اندر کی شکی ”آنٹی“ کا یقین عین الیقین کی حدوں کو چھونے لگا۔ اسی دن جب خاتون نے یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے کی تان اٹھائی تو ہمیں کسی ظالم کے پلائے بغیر ہی کوک کا اچھو لگا کہ دو ایک اور ”سمجھدار“ لوگوں کو ”کہانی“سمجھا گئے۔

ابھی ہم دی پرنس اور ارتھ شائستر میں سے کوئی فسادی منصوبہ اس ہنسوں کی جوڑی پہ اپلائے کرنے کے متعلق سوچ ہی رہے تھے کہ انہوں نے ”پریم رتن دھن پاییوؤ“ گا لیا۔ المختصر ماں نے جب بیٹا ہاتھوں سے نکلتا دیکھا تو اس نے گہری پلکوں والی چڑیل کے ساتھ میچ ڈالنے کا پروگرام بنالیا۔ دسمبر کی چھٹیوں سے پہلے جب ہمیں مسکراتی آنکھوں سے کارڈ تھمایا گیا اور آنے کی تاکید کی گئی تو اس کی آنکھوں کی مسکراہٹ پہلی دفعہ ہمیں بھی اپنے لڑکی ہونے کا احساس دلا گئی۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے منصوبہ ساز ذہن سے شادی پر نہ آنے کا کوئی اخیر منصوبہ سناتے ایک کلاس فیلو گویا ہوئیں ”تو لو میریج کر رہی ہو تم“؟ ساتھ ہی بولیں پتا نہیں لڑکیاں لڑکے کیسے پھنسا لیتی ہیں“!

گہری پلکیں ایک لحظے کو لرزیں اور چہرے پر سایہ سا لہرایا۔

ہم نے بھی شائد زندگی میں پہلی ہی دفعہ دنگے کو جنم نہ دینے کا فیصلہ کیا خاتون کو وش کیا اور آنے کی یقین دہانی کرائی۔

وہ بات تو ختم ہوگئی اور میں آج تک یہ ہی سوچتی ہوں لڑکی کو اب تمام عمر اسی جملے کی بازگزشت سننا پڑے گی کہ خدا جانے کیسے پھنسا۔ ۔ ۔ ۔ پتا نہیں ہمارے سوشل سیٹ اپ میں ناخوب اسقدر خوب کیوں ہے؟ جب لڑکی کی اپنی مرضی خوشی رضامندی کے بغیر کسی ان چاہے تعلق کو تمام عمر گھسیٹنے پر رضامند ہو جاتی ہے تو کل عالم کی غیرت کا شملہ اوج ثریا کو چھونے لگتا ہے۔ سارا خاندان براداری فخر سے سر اونچا کیے کسی انسان سے اس کا پیدائشی قانونی شہری معاشرتی اور شرعی حق چھین کے مسرور پھرتا ہے سٹیٹ سے لے کر خون جگر میں سینچنے والی ماں تک نہیں پوچھتی کہ یہ جو خود کشی پر مجبور کی جارہی ہو۔ حشر میں اس کی وجہ سے حشر تو نہیں اٹھا دو گی- لیز کے پیکٹ پر کمپرومائز نہ کرنے والی بیٹی کو جب باپ ”عزت“پر سمجھوتہ کراتا ہوگا تو بیٹی انگلی پکڑ کے چلتے چلتے رک کے دیکھتی تو ہوگی ۔ ہر وقت چھپکلی کاکروچ سے ڈرانے والے بھائی کی آنکھوں میں شرارت تو ڈھونڈتی ہی ہوگی کہ ابھی بھائی کہہ اٹھے گا ہیو یو ٹوٹلی لاسٹڈ؟
Have you totally lost۔

چائے بناؤ کچھ نہیں ہورہا ایسا۔ ۔

اورجب یہ سب نہیں ہوتا ہوگا تو اس وقت یقینا تعلقات پر سرشار ہونا تو چھوڑ ہی دیتی ہوگی وہ۔

والدین بھی کیا کریں ہمارا معاشرتی سیٹ اپ لوگوں کو پسند رکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ ہم فیصلے لینے کی آزادی دینے کو بغاوت اور بدتمیزی سمجھت ہیں۔ یہ جو پوری کی پوری برادری پورا پورا گاؤں چودہری ساب کے فیصلے پر ایک ہی بندے کو ووٹ دیتی ہے یہ بھی تو اسی کی ایک مثال ہے۔ ذرا سوچیے ہر مہذب معاشرہ معاشرتی گروہ اور فرد اس بات پر تنقید کرتا ہے اسے قابل نفرین سمجھتا ہے سیاسی حقوق پر ڈاکا بھی کہلاتا ہے۔

تو کسی کی زندگی کے ساتھی چننے کے حق پر ہم فیصلے میں قلعی اور قطعی اختیار کیسے رکھ سکتے ہیں؟ چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا؟

ایک اور پیاری سی دوست ہے جب اس سے شادی کا پوچھیں تو مسکرا کہ کہتی بچپن کے منگیتر کی فیملی سے اب امی ابو کی لڑائی چل رہی ہے۔ ہنس کے کہا کسی اور سے کرلو…اور اس کی آنکھوں کی شکستگی لے ڈوبی مجھے۔

فیصلہ کیا ہے اس کے امی ابو سے ملنے کا اور انہیں یہ بتانے کا کہ

اناؤں نفرتوں خود غرضیوں کے ٹہرے پانیوں میں
محبت گھولنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں

کیا ہمیں اب اپنے سوشل ٹیبوز توڑنے کی سخت ضرورت نہیں؟ ذرا سے تھوڑا زیادہ سوچیے!

اور یہ مت سمجھ لیا جائے کہ یہاں ہر قسم کی بے راہ روی کا جواز مہیا کیا جا رہا ہے۔ ارے بھئی ہم تو دشمنی کے اظہار کرنے میں بھی ملٹن کے سے معیار کے قائل ہیں- محبت تو پھر ادب کی متقاضی ہے اظہار میں بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments