دھڑا دھڑ طلاقیں کیوں ہو رہی ہیں؟ (1)



\"lubnaیہ آج کل دھڑا دھڑ طلاقیں‌ ہر طرف کیوں‌ ہورہی ہیں؟ میں‌ نے اس موضوع پر کئی ملکوں‌ میں‌ چلتی بحث سنی۔ انڈیا، صومالیہ، امریکہ اور پاکستان وغیرہ۔ ساری دنیا میں ایک کھلبلی مچ گئی ہے۔ پاکستان میں‌ طلاق کی شرح دو سو فیصد بڑھ گئی ہے۔ اوکلاہوما میں‌ ساٹھ فیصد شادیاں‌ طلاق پر ختم ہو رہی‌ ہیں۔ ہر جگہ خواتین اپنے شوہروں‌ کو چھوڑ کر جا رہی ہیں جس کو یہاں‌ اوکلاہوما میں بوٹ لگا دینا کہتے ہیں۔

آخر ایسا کیوں‌ ہو رہا ہے؟ میں‌ نے اپنے رشتہ داروں‌ اور دوستوں سے اس بات پر گفت و شنید کی اور سوچا کہ اس اہم موضوع پر ضرور لکھنا چاہئے۔ جن لوگوں‌ نے اپنی کہانیاں مجھ سے شئیر کیں ان کا بے حد شکریہ۔ یہاں‌ اصلی نام نہیں‌ لکھے جائیں‌ گے تاکہ ان افراد کی شناخت چھپی رہے۔

ماریا کی کہانی؛

ماریا ایک ساؤتھ امریکن ہے۔ وہ کافی سالوں‌ سے میری بہت اچھی دوست ہے۔ اس کی دو طلاقیں‌ ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں‌ اس نے مجھے ٹیکسٹ کیا کہ میں‌ ویک اینڈ پر تم سے ملنے آرہی ہوں اور میں‌ اکیلی آؤں‌ گی۔ حالانکہ وہ ہمیشہ اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ آتی تھی۔ میں‌ اس کی شادی میں‌ بھی گئی تھی۔ یہ ٹیکسٹ دیکھتے ہی میں ‌سمجھ گئی تھی کہ اس نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا ہے۔ اچھی دوستی میں دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ جب ہم دوست بنے تو میرے دو چھوٹے بچے تھے اور ہم دونوں‌ ٹی سی آئی ایم میں‌ اے ٹی این ٹی کے لئے بیچ اسپیشلسٹ کی جاب کر رہے تھے۔ وہ پیدل آتی جاتی تھی تو میں‌ نے اس کو کہا کہ تمہارا گھر میرے گھر کے راستے میں‌ ہے تو تم میرے ساتھ گاڑی میں‌ کام پر آؤ اور جاؤ اس سے مجھے کچھ فرق نہیں‌ پڑے گا۔ اس طرح‌ ہم راستے میں‌ باتیں‌ کرتے اور ہماری اچھی دوستی ہوگئی۔ وہ کسی کا احسان رکھنا نہیں جانتی تھی۔ ہمیشہ ادھر ادھر کے گفٹ کارڈ مجھے دیتی تھی جن سے میں‌ اپنے بچوں‌ کے لئے کپڑے یا جس چیز کی بھی ضرورت ہو لے لیتی۔ وہ ایک مشکل وقت تھا۔ دو بچے، شوہر ابھی پاکستان میں‌ تھے۔ لائر کو افورڈ نہیں‌ کرسکتے تھے اس لئے سارا پیپر ورک خود کیا اور ان کو اسپانسر کیا۔

امریکہ کے اصولوں‌ کے مطابق اپنی فیملی کے سائز کے لحاظ سے انکم کا ایک کرائٹیریا ہے کہ آپ اتنے پیسے بنائیں‌ تو ہی اپنے اسپاؤس کو بلا سکتے ہیں۔ پھر ایک دن ہم لوگ بیٹھے کام کر رہے تھے تو نائن الیون ہوگیا۔ حالات بہت خراب ہوگئے اس کے بارے میں پھر کبھی لکھوں‌ گی۔

ماریا نے مجھے باتوں‌ باتوں‌ میں‌ بتایا کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے رہی ہے۔ ہم لوگ اس وقت جوان تھے، میری اپنی شادی کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں‌ ہوا تھا۔ شادی بھی اپنی پسند سے کلاس فیلو سے کی تھی اور پھر بچپن سے یہی سنا تھا کہ طلاق لینا یا دینا تو بہت بری بات ہے اس لئے زیادہ کچھ سمجھ نہیں‌ تھی۔ اس لئے میں‌ نے ماریا کو نصیحت کی کہ تم اپنا گھر بنا کر رکھو اور ایسی ہی دیگر خرافات جو کہ ایک پر تشدد شادی میں‌ بالکل الٹی نصیحت ہے اور اب زندگی کے مشاہدے کے بعد آ کر میں‌ ہرگز کسی دوست، کزن یا مریضہ کو نہیں‌ دوں‌ گی۔ اگر آپ ایک پرتشدد شادی میں‌ ہیں‌ تو الگ ہو جانا بہتر ہے۔ ایسے گھر میں‌ بڑے ہوئے بچے بڑے ہو کر یا تو دوسروں پر تشدد کرتے ہیں یا پھر تشدد کے شکار بنتے ہیں۔ اور ویسے بھی انسان کو زندگی صرف ایک مرتبہ ملتی ہے۔ اس کو روتے سسکتے گذارنے کی کیا ضرورت ہے؟

اس کا پہلا شوہر ایک شکی اور اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے والا آدمی تھا جو ساؤتھ امریکہ سے ایک خوبصورت اور پڑھی لکھی لڑکی کو شادی کر کے لایا اور اپنے گھر میں‌ قیدی بنا کر رکھا۔ اس کو کسی سے ملنے جلنے یا کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ لڑکی ذہین تھی اور اس نے سیسمی اسٹریٹ دیکھ دیکھ کر انگلش سیکھ لی اور اپنے شوہر کے بزنس اور کام میں‌ ہاتھ بٹایا جس سے اس کی مالی حالت بہتر ہوئی۔ لیکن وہ اس کو ایک لمحہ بھی اپنی نظر سے اوجھل نہیں‌ دیکھ سکتا تھا۔ کہنے لگی ایک دن میں‌ اتنا تنگ آگئی کہ خود کو باتھ روم میں‌ بند کرلیا اور باتھ ٹب میں‌ سکون سے بیٹھ گئی تو وہ کچھ ہی دیر بعد دروازہ کسی طرح‌ کھول کر اندر آگیا اور کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں‌ تم مجھ سے یہاں‌ چھپ کر بیٹھی ہو۔

ایک بار یہ لوگ کسی اسٹور میں‌ شاپنگ کر رہے تھے تو وہ اس کا ہاتھ زور سے پکڑ کر گاڑی میں ‌لے گیا اور بولا تم وہاں‌ اس کالے آدمی کے ساتھ کیوں‌ کھڑی تھیں؟ کیا وہ تمہیں‌ اچھا لگتا ہے؟ آخر کار جب بات گالی گلوچ اور مار کٹائی تک پہنچ گئی تو اس نے اپنے شوہر کو چھوڑ کر نوکری کر لی اور آگے چل کر پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن گئی۔ وہ گھومنے آئی تو میں‌ اس کو اپنا نیا آفس دکھانے لے گئی۔ ہم لوگ گھوم پھر کر ہسپتال دیکھ رہے تھے اور وہ دن یاد کر رہے تھے جب ہم یہاں‌ تک پہنچنے کے لئی تگ و دو میں تھے۔

دوسرے شوہر سے کیوں‌ طلاق لے لی؟ وہ اس کو کیسے چھوڑتا؟ ایسی ٹرافی وائف کوئی آسانی سے نہیں چھوڑتا۔ \”شادی شدہ\” اسٹیٹس ایک آدمی کی سماجی حیثیت میں‌ اضافہ کرتا ہے۔ بظاہر ٹھیک ٹھاک پڑھا لکھا، نارمل آدمی لگتا تھا جس کے پاس اچھی نوکری بھی تھی اور مکان بھی۔ لیکن باہر سے جیسے سب کچھ دکھائی دیتا ہے ضروری نہیں اندر سے ویسا ہی ہو۔ لوگوں‌ کے بہت گہرے مسائل ہیں۔ کچھ لوگوں کے دماغی مسائل ہیں۔ یہ کسی آدمی کو بتانا کہ تمہارے دماغ میں‌ کچھ پرابلم ہے، کوئی آسان کام نہیں‌ ہے۔ کوئی بھی یہ بات قبول کرنا نہیں چاہتا کہ اس کے دماغ میں خلل ہے حالانکہ اگر ہو تو مدد لینے میں اور دوا لینے میں‌ کوئی عار نہیں‌ ہونا چاہئے کیونکہ اس سے نہ صرف انسان کی اپنی زندگی بہتر گذرے گی بلکہ اس کے ارد گرد کے لوگوں کے لئے بھی اچھا ہوگا۔ خاص طور پر اگر چھوٹے بچے ان حالات سے اثر انداز ہو رہے ہوں‌ تب تو یہ اور بھی اہم ہے کہ اپنے دماغی مسائل کا بہادری سے سامنا کیا جائے۔

پھر جس گھر میں‌ بچہ بڑا ہو اور جیسا وہ اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھے تو ویسا ہی وہ لاشعوری طور پر کرنا سیکھ لیتا ہے۔ خواتین ساری دنیا میں‌ آج وہ نہیں‌ جو پچاس سال پہلے تھیں۔ آج کی تعلیم یافتہ اور کام کرنے والی خواتین کا اپنا نام ہے، اپنی پہچان ہے، اپنا پے چیک ہے، یا تو وہ اپنے شوہروں‌ کے برابر ہیں‌ یا ان سے بہتر ہیں۔ اور یہ شوہر ان سے اسی طرح‌ پیش آتے ہیں جیسے ان کے اپنے باپ ان کی ماؤں سے پیش آتے تھے۔ وہ ایسا شعوری طور پر نہیں کرتے۔ جب حالات ٹھیک ہوں‌ اور سب کچھ صحیح چل رہا ہو تو سب نارمل رہتا ہے لیکن جیسے ہی کسی بھی قسم کا کرائسس ہو تو ان کا ڈیفالٹ وہی ہوتا ہے جو ان کے بچپن کا ماحول تھا۔ یعنی اگر ان کے گھر میں‌ غصہ کرنا، سامان پھینکنا، گالی گلوچ یا مار کٹائی ہونا ہوتا تھا تو وہ بھی ویسے ہی کرتے ہیں۔ پہلے زمانے کی خواتین کے پاس لات جوت کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ماں باپ یہی کہہ کر بھیجتے کہ شوہر کے گھر سے تمہارا جنازہ نکلنا چاہئے اور پھر وہ بغیر تعلیم اور ہنر کے اپنی اولاد کے لئے خود کفیل نہیں‌ تھیں، اس لئے انہوں‌ نے اپنی زندگیوں‌ کی قربانی دی۔ اگر انتقام لیا تو وہ بھی ایسا کہ جن سے لیا گیا ان کو خبر تک نہ ہوئی۔ آج کل کے ماں باپ بھی سمجھدار ہوگئے ہیں۔ وہ جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ یہ معاملہ چلنے والا نہیں تو خود طلاق کرا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments