کشمیر اور آنے والے دن


پانچ اگست کی دوپہر تک مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا اس کا ذمے دار پاکستان تھا جو کئی سال سے وہاں دہشت گرد بھیج کے معصوم کشمیریوں کو ورغلا رہا تھا۔ شکر ہے پاکستان پر سے دہشت گردی کا ٹیگ فی الحال ہٹا کے اسے بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر پر چپکا دیا گیا ہے۔

یہ چمتکار کسی پاکستان نواز غدار بھارتی نے نہیں وزیرِ داخلہ امیت شاہ اور ان کے باس نریندر مودی نے کیا ہے۔ دونوں نے اپنی اپنی تقاریر میں اس آرٹیکل کے خاتمے کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ اس کے ہوتے کشمیر میں خاندانی سیاست، کرپشن اور دہشتگردی کو فروغ مل رہا ہے۔ اب جب کہ یہ آرٹیکل ختم کر دیا گیا ہے تو ریاستی نوجوانوں کے لیے ترقی و سہولتوں کے وہی مساوی دروازے کھل جائیں گے جو باقی بھارت میں کھلے پڑے ہیں اور مٹھی بھر دہشتگردوں سے وہ مقامی لوگ خود ہی نپٹ لیں گے جو بھارتی آئین اور قومی ایکتا پر یقین رکھتے ہیں۔

بہتر برس سے کشمیر کے دنبے کو ذبیحہ کے لیے مرحلہ وار تیار کرنیوالی منافق کانگریس کے بعض رہنماؤں نے انفرادی طور پر تو مودی حکومت کے اس اقدام کو بھارتی آئین کا قتل اور جمہوریت پر سیاہ داغ لگانے تو قرار دیا مگر بحیثیت پارٹی پالیسی ابھی تک کوئی جامع بیان سامنے نہیں آیا اور آئے گا بھی نہیں۔ اب تو یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ اس معاملے پر خود کانگریس کے اندر پھوٹ پڑ چکی ہے اور کچھ کانگریسی بی جے پی میں شمولیت کے لیے پر تول رہے ہیں۔

حکمران نیشنل ڈیموکریٹک الائنس سے باہر بی جے پی کی مخالف اروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی اور مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی نے آرٹیکل تین سو ستر ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا۔ ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بینر جی نے اسے یک طرفہ اور آمرانہ قدم بتاتے ہوئے مخالفت کی۔ کمیونسٹ پارٹی نے بھی اسے غیر آئینی قدم بتایا مگر کمیونسٹ پارٹی کی پارلیمانی نمایندگی نل بٹا سناٹا ہے۔

چنانچہ انتہائی پر اعتماد مودی حکومت نے بی جے پی نے سب سے پہلے راجیہ سبھا میں یہ بل پیش کیا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی اکثریت ہونے کے باوجود یہ بل منظور ہو گیا۔ جب کہ پانچ سو پینتالیس ارکان پر مشتمل لوک سبھا میں اس بل کی مخالفت میں صرف پچھتر ووٹ آئے۔

ایک گمان یہ بھی تھا کہ جس مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ ریاست کشمیر کی خودمختاری برقرار رکھنے اور اسے آئینی تحفظ دینے کی شرط پر الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے کم ازکم ان کے صاحبزادے ڈاکٹر کرن سنگھ اپنے والد کے دستخطوں کی لاج میں دستاویزِ الحاق پر دن دھاڑے ڈاکے کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ مگر انھوں نے اس ڈاکے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے خط میں بس اتنا کہا ہے کہ اچھا ہوتا کہ یہ قدم فریقین سے پیشگی صلاح مشورے یا اعتماد میں لے کر اٹھایا جاتا۔

سوائے جموں کی ہندو اور لداخ کی بودھ قیادت کسی نے اس اقدام کی حمایت نہیں کی۔ لداخ کا مسلم اکثریتی ضلع کرگل بھی وادیِ کشمیر کی طرح اس وقت دنیا سے مسلسل کٹا ہوا ہے۔ کوئی ایک مسلمان کشمیری دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا جس نے اب تک اس رہزنی کے حق میں کلمہِ خیر منہ سے نکالا ہو۔

مگر وہ جو کہتے ہیں کہ طاقت کو دلیل کی ضرورت نہیں اور فاشزم تو نام ہی طاقت کا ہے کہ جسے دھوکے کے غلاف میں لپیٹ کر عوام سے چموایا جاتا ہے۔ فاشزم کا ایک ہی نعرہ تو ہوتا ہے ”تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر“۔

فی الحال اس بحث کے بجائے کہ یہ بین الاقوامی تنازعہ ہے اور اس کے بارے میں کوئی فریق یک طرفہ فیصلے نہیں ٹھونس سکتا۔ یہ بات کر لیتے ہیں کہ اس فیصلے کے نتیجے میں کشمیریوں کی قسمت ممکنہ طور پر کیا ہو سکتی ہے۔

اگر بھارت کو واقعی ان کشمیریوں پر بھی اعتماد ہوتا جو پچھلے بہتر برس سے بھارت نواز ہیں تو منطق کا تقاضا یہ تھا کہ کشمیر کا خود مختار آئینی تشخص ختم کر کے اسے بھارت کی کسی بھی دوسری نارمل ریاست کی طرح کا درجہ دے دیا جاتا جیسے یوپی، ہریانہ، راجستھان وغیرہ۔ مگر اس کے بجائے کشمیر کو لداخ اور جموں و کشمیر کے دو حصوں میں تقسیم کر کے انھیں براہِ راست مرکز کے کنٹرول میں دے دیا گیا ( گویا ایک نیم خود مختار ریاست کو منٹ بھر میں فاٹا بنا دیا گیا ) ۔

وجہ یہ ہے کہ اگر جموں و کشمیر کو آرٹیکل تین سو ستر کی نیم خود مختارانہ چھتری سے نکال کر فوراً کسی دوسری بھارتی ریاست جیسا درجہ دے دیا جاتا تو پھر فوراً دستور کے تحت نئی ریاستی اسمبلی کے لیے انتخابات کروانے پڑتے اور ان انتخابات کے نتیجے میں خدشہ تھا کہ ایک ایسی اسمبلی وجود میں آ جاتی جو پہلے ہی روز بھارت کی جانب سے تھوپے گئے اقدامات کو مسترد کر کے دہلی کے گلے میں ایک نئی گھنٹی باندھ دیتی۔

چنانچہ یہ وعدہ کیا گیا کہ حالات نارمل ہوتے ہیں جموں و کشمیر کو اپ گریڈ کر کے باقی ریاستوں جیسا درجہ دے دیا جائے گا جس کی اپنی اسمبلی اور وزیرِ اعلی وغیرہ ہو گا۔ حالات نارمل ہونے سے کیا مراد ہے اور یہ کب ہوں گے؟

اگر مودی اور امیت شاہ کے منصوبے کی روشنی میں دیکھا جائے تو کشمیر میں اب تیزی سے بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو بسانے کی کوشش کی جائے گی۔ مسلمانوں کی اکثریت کم کرنے کے لیے کرگل کا مسلم اکثریتی ضلع پہلے ہی جموں و کشمیر سے نکال کر بودھ اکثریتی وفاقی علاقے لداخ سے جوڑ دیا گیا ہے۔

جب چند برس میں آبادی کا تناسب حق میں ہو جائے گا تب موجودہ کشمیری قیادت کے برعکس ایک ایسی نئی مقامی قیادت وجود میں آ جائے گی جو کشمیر کی خود مختارانہ حیثیت کی بحالی کے بجائے اس علاقے کو ایک نارمل بھارتی صوبے کا مطالبہ کرے۔ اس کے بعد انتخابات ہوں گے اور ان کے نتائج سے ثابت کیا جائے گا کہ کشمیری اپنی نئی حیثیت پر کتنے خوش ہیں۔ لہذا دنیا کو اب اس اندرونی معاملے میں ٹانگ اڑانے کی بالکل ضرورت نہیں۔

اس عرصے میں بھارتی سرمایہ کار، صنعت کار اور تاجر کو کھلی چھوٹ دی جائے گی کہ وہ منہ مانگی قیمت پر جتنی تیزی سے کشمیریوں سے زمین خرید سکتا ہے ترقی اور روزگار کے نام پر خرید لے۔ کشمیریوں کے لیے ملازمتوں اور تعلیمی اسکالر شپس کے کوٹہ میں بھی اب پورے بھارت سے بسنے والے آبادکار حصے دار ہوں گے۔ یوں کشمیر کی اصل اکثریت ( مسلمان ) اگلے چند برس میں معاشی گیس چیمبر میں دھکیل دی جائے گی۔

مگر ضروری تو نہیں کہ زمینی حقائق ڈرائنگ بورڈ پر بنائے نقشے کا پورا پورا ساتھ دیں۔ آدمی سوچتا کچھ ہے ہوتا کچھ ہے۔ اب پاکستان کو اس امکان کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ کچھ عرصے بعد کشمیر کی نئی بھارتی ڈرائنگ میں تیزی سے رنگ بھرنے کے لیے حالات اتنے تنگ کر دیے جائیں کہ کشمیری مسلمانوں کا ایک اور ریلا لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے راستے آزاد کشمیر اور پاکستان کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جائے۔

تیزی سے بدلتے جغرافیائی حالات میں پاکستان زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے؟ کرنے کو بہت کچھ کر سکتا ہے مگر جذبات کو پیچھے اور عقل و تدبر کو آگے رکھ کے جرات مندانہ، غیر روایتی اور آؤٹ آف دی باکس فیصلے کر کے ہی طویل لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔ مگر کیسے؟ یہ فقیر جلد ہی اپنی محدود سمجھ کے مطابق دست بستہ عرض کرنے کی کوشش کرے گا۔ فی الحال ریا کاری سے ہٹ کے عیدِ قرباں کی اصل روح پر توجہ کی درخواست ہے۔
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).