قومی غیرت، جنگ اور غیر جانبدار دیوتا


یونان کی فوجیں نو سال تک ٹرائے کے دروازے پر ڈیرا ڈالے بیٹھی تھی۔ کبھی کبھار ٹرائے کے سپہ سالارہیکٹر ٹروجن فوج کے ایک دستے کے ساتھ دروازے سے نمودار ہوتے، یونانیوں کی صفوں میں ہلچل مچاتے ہوئے واپس ٹرائے میں داخل گھس جاتے اور دروازے بند کر دیے جاتے۔ دس سال تک لڑی جانے والی یہ جنگ شروع غیرت کے نام پر ہوئی تھی لیکن جب یہ ختم ہوئی تو ان تمام غیرت مندوں میں صرف ایک شخص ”اوڈیسئس“ زندہ بچا تھا۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ ٹرائے کے بادشاہ پریئم کے صاحبزادے ہیکٹر اور پارس سپارٹا کے بادشاہ ”مینی لیوس“ کے مہمان بنے، رات بھر شراب و کباب کی محفل سجی رہی اور اگلے دن واپس گئے تو مینی لیوس کی خوبصورت بیوی ہیلن بھی ان کے ہمراہ تھی جو پارس کو دل دے بیٹھی تھی۔ مینی لیوس کو جب پتہ چلا کہ ان کی بیوی ٹروجن شہزادے کے ساتھ بھاگ گئی ہے تو ان کی غیرت جاگ گئی لیکن اکیلا سپارٹا ٹرائے جیسے طاقتور ملک کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔

مینی لیوس نے فوری رد عمل دینے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے بھائی ایگا میمنن کے پاس جانے کا فیصلہ کیا جو میسینائے کا بادشاہ تھا۔ اپنے بھائی کے ساتھ ہونے والی بے عزتی کے بارے میں سن کر ایگا میمنن کی بھی غیرت جاگ اٹھی لیکن وہ بھی ٹرائے کے ساتھ جنگ لڑنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتے تھے اس لیے مینی لیوس کو پر سکون رہنے کا مشورہ دیا اور پورے یونان میں اپنے سفیر دوڑا دیے جنہوں نے مینی لیوس کے ساتھ ہوئی بے عزتی کو یونان کی بے عزتی بنا کر پیش کیا اور پورے یونان کے بادشاہوں کو ٹرائے کے خلاف جنگ لڑنے پر آمادہ کر لیا۔

ایگا میمنن کے سفارتکاروں کی کوششوں سے یونان کے بادشاہوں کی قومی غیرت جاگ اٹھی تھی سوائے ایکلیز کے، جو یونان کے سب سے بہادر جنگجو تھے لیکن مینی لیوس کی بیوی کے لیے میدان جنگ میں کودنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایگا میمنن ایکلیز کی خود سری سے تنگ تھے لیکن ان کے بغیر جنگ لڑنا بھی افورڈ نہیں کرسکتے تھے لہذا ایکلیز کو فتح کی صورت میں شان و شوکت اور شہرت کے خواب دکھا کرجنگ میں حصہ لینے پر آمادہ کیا گیا۔ قومی غیرت کے نام پر ایک ہزار کشتیاں سمندر میں اتاری گئی اور پورے یونان کے بادشاہوں کی مشترکہ فوج ٹرائے کو سبق سکھانے کے لیے روانہ ہوگئی۔

ٹرائے کے ساحلوں پر اترنے کے بعد ایگا میمنن اور ایکلیز کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور ایکلیز نے قسم کھائی کہ جب تک آگ ان کی کشتیوں تک نہیں پہنچتی، وہ جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ وقت گزرتا گیا، ٹرائے اور یونان کی فوجیں وقفے وقفے سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی رہیں لیکن کوئی بھی لڑائی فیصلہ کن ثابت نہ ہوسکی۔ یونان کی فوجیں قومی غیرت کی آگ بجھائے بغیر واپس جانے کے لیے تیار نہیں تھیں جبکہ ٹرائے کی دیواریں اتنی مضبوط تھیں اور رسد کا نظام اتنا علیٰ تھا کہ دس سال کی ناکہ بندی کے باوجود ٹرائے کے شہریوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑرہا تھا۔

ادھر دیوتاؤں کے بادشاہ زیوس نے تمام دیوتاؤں کو غیر جانبدار رہنے کا حکم دیا تھا۔ ایک دن جب زیوس نیند میں تھے، دیوتاؤں نے اپنے اپنے پسندیدہ فریق کی مدد کرنے میدان میں آگئے لیکن جلد ہی زیوس نیند سے جاگ گیا اور انسانوں کی جنگ میں مداخلت کرنے پر دیوتاؤں کی سخت سرزنش کی۔

پھر ایک دن معمول کی لڑائی کے دوران ایکلیز کے قریبی دوست پیٹروکلس ہیکٹر کے ہاتھوں مارا گیا۔ ٹروجن فوج کی لگائی ہوئی آگ ایکلیز کی کشتیوں تک پہنچ گئی، اور وہ اپنی قسم کے مطابق رتھ لے کر میدان جنگ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ماحول گرم ہوتا دیکھ کر دیوتاؤں کے بادشاہ زیوس نے پابندی اٹھادی اور سب سے پہلے آپولو دیوتا ایکلیز کو سبق سکھانے کے لیے ٹرائے کے دروازے پر پہنچ گئے جن کے مندر کی ایکلیز نے بے حرمتی کی تھی۔ ایکلیز ٹروجن فوج کی صفوں کو چیرتا ہوا شہر کے مرکزی دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔

جو بھی سامنے آتا کٹ کر گر جاتا، ٹروج فوج کے قدم اکھڑ گئے اور بھاگ کر شہر میں پناہ لینے میں ہی عافیت سمجھی لیکن ہیکٹر کو یوں میدان چھوڑ کر بھاگنا گوارا نہیں تھا۔ وہ دروازے سے واپس مڑے اور ایکلیز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ آپولو دیوتا کو پتہ تھا کہ ایکلیز سے لڑے گا تو ہیکٹر مارا جائے گا اس لیے آپولو نے بھیس بدل بدل کر ایکلیز کو ہیکٹر سے دور لے جانے کی کوشش کی لیکن ایکلیز کسی کے دھوکے میں آنے والے کہاں تھے، سیدھا شہر کے مرکزی دروازے پر پہنچ گیا جہاں ہیکٹر پہلے سے موجود تھے۔

ہیکٹر پورے ٹرائے میں ناقابل شکست تھے جبکہ ایکلیز کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کو کوئی انسان قتل نہیں کرسکتا۔ یہ دو انسانوں کی لڑائی نہیں تھی بلکہ دو پہاڑ تھے جو ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ کافی دیر یہ مقابلہ جاری رہا۔ پھر موقع پا کر ایکلیز نے ہیکٹر کے گلے میں چھرا گھونپ دیا اور ان کی لاش کو رتھ سے باندھ کر اپنے خیمے پر لے گئے۔

دیوتاؤں کو مداخلت کی اجازت ملنے کے بعد حالات و واقعات میں تیزی آرہی تھی اوراس طرح غیرت کے نام پر شروع کی گئی یہ جنگ، جنگ عظیم میں بدل گئی۔ ایک ایک کرکے یونان کے تمام جنگجومیدان جنگ میں کام آتے رہے جو زندہ رہے وہ اوڈیسئس کی عقلمندی سے ایک دن ٹرائے میں داخل ہوگئے، گھمسان کی رن پڑی جس میں دونوں طرف کے نمایاں جنگجو کھیت رہے۔ ایکلیز جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ دیوتاؤں کا لاڈلا ہے کبھی مر نہیں سکتے، زخمی پارس کی تیرایڑی میں لگنے سے دم توڑ گئے۔

یونان کی ایک ہزار کشتیاں جل کا راکھ ہوگئیں، ٹرائے کا عظیم و الشان شہر خاکستر ہوگیا۔ ٹرائے کے عظیم بادشاہ پریئم مندر میں دعائیں مانگتے ہوئے قتل ہوئے اورشہزادہ پارس نے ہیلن آف ٹرائے کے ساتھ پہاڑوں میں پناہ لی۔ یونان سے آئے بادشاہوں اور جنگجوؤں میں صرف ”اوڈیسئس“ زندہ بچے جن کا کمال یہ تھا کہ وہ جذبات کے بجائے عقل سے کام لیتے تھے۔

تو کہنا یہ تھا کہ غیرت، عزت اور طاقت کے نام پر جنگیں لڑی تو جاتی ہیں لیکن مد مقابلہ دو سپر پاور ہوں، جیسا کہ ٹرائے اور یونان تھے، تو نتیجہ کسی ایک کی فتح و شکست کے بجائے دونوں کی تباہی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ بھارت ایک بڑی طاقت ہے لیکن ایٹمی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہم بھی بھارت سے کم نہیں ہیں۔ غیرت کے نام پر ہم بھارت سے جنگ تو چھیڑ سکتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ کسی کو معلوم نہیں۔ اوپر سے آج کے دور کے دیوتا تو جنگ کے لیے آستین چڑھائے بیٹھے ہیں، یونانی دور کے دیوتاؤں کی طرح دس سال غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کریں گے، پہلی گولی چلتے ہی میدان میں اترے گے۔ اب تو کوئی اوڈیسئس جیسا عقلمند بھی دنیا میں نہیں ہے جو زندہ بچ جائے اور آنے والی نسلوں کو جنگ کی ہولناکیوں سے آگاہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).