آر ایس ایس، بی جے پی، کشمیر اور آرٹیکل 370 !


آر ایس ایس ہندوستان کی ایک ہندو پرست تنظیم ہے۔ جس کا مائنڈ سیٹ تشدد سے بنا ہے اور ان کا منشور کسی بھی طریقے سے ہندوؤں کے حق میں کام نکلوانا ہے۔ اس تنظیم کے تحت 1951 میں ایک سیاسی پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی وجود میں آئی۔ مزکورہ ہندو پرست تنظیم نے سب سے پہلے 1998 میں اقتدار پر قابض ہونے کے لئے ایک جلد بازی کی تھی جب اس تنظیم کے ایک رضا کار اٹل بہاری واچپائی (بی جے پی) نے اتحادی جماعتوں کو ملا کر اپنی حکومت بنائی۔

ایک طور پر تو آر ایس ایس حکومت میں تو آگیا لیکن اس سے حکومت اور آر ایس ایس یا سنگھ کے مابین اختلافات شروع ہو گئے۔ حکومت اتحادی جماعتوں کے بغیر کچھ کر نہیں سکتی تھی اور سنگھ کو یہ منظور نہ تھا۔ اس طرح یہ اختلافات گھروں سے نکل کر باہر سڑکوں پر آگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2004 میں بی جے پی اور این ڈی اے (National Democratic Alliance ) کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انڈین نیشنل کانگریس حکومت میں آئی۔ اور آر ایس ایس کے عزائم خاک میں مل گئے۔

بی جے پی کا ہمیشہ سے یہ منشور رہا ہے کہ آر ایس ایس کو حکومت میں رہ کر چھپکے سے ہاتھ دیا جائے۔ سنگھ، رام مندر بنانے اور کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔ اُن کا منصوبہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جیسے ہی اقتدار ان کے ہاتھ میں آئے اور وہ ان مسائل پر کھل کر بحث کریں۔ اب 2014 کے لوک سبھا کے انتخابات میں آر ایس ایس یعنی سنگھ کے سب سے قابل رضا کار نریندر مودی کی کامیابی سے ایک بار پھر حکومت سنگھ کے زیرِ اثر آ گئی ہے۔

1984 کے بعد پہلی بار کسی پارٹی کو اتنی بھاری اکثریت ملی۔ لیکن 1998 کی جلد بازی اور 2004 کی ناکامی نے سنگھ کو کافی محتاط کر دیا ہے۔ جس کے باعث اب سنگھ ہر کام پردے کے پیچھے سے محتاط انداز میں کرنے کا حامی رہا ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اقتدار کا جو دامن دس سال ان کے ہاتھ سے دور رہا اور اب ان کے ہاتھ لگ گیا ہے، شاید وہ پھر سے دور نہ ہو جائے۔

اب جب سے مودی سرکار آئی ہے تب سے آر ایس ایس کا دماغ ہی حکومت میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ بجا ہے کہ اب آر ایس ایس کھل کر اپنی تحاریک نہیں چلا رہی لیکن درِ پردہ قابض یہی تنظیم ہے۔ مودی کو انہوں نے ہر وقت استعمال کیا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم سے لے کر رام مندر کے لئے چلائی جانے والی تحریک کی آڑ میں مسلمانوں پر ظلم اور بابری مسجد کو منہدم کرنے تک۔ ہر جگہ آر ایس ایس کا دماغ ہی چلا ہے۔

آر ایس ایس کا ایک اچھوتا منصوبہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 A (جو کہ آرٹیکل 370 کا ہی حصہ ہے ) کا خاتمہ ہے۔ اول الذکر آرٹیکل کی بدولت کشمیر کو ایک مخصوص حیثیت حاصل ہے۔ اس آرٹیکل کو ختم کرنا یعنی مقبوضہ کشمیر میں ہندو آباد کاری اور پھر کشمیر کا مکمل طور پر ہندوستان کا ہو جانا ہے۔ اسی سلسلے میں جب دسمبر 2014 کے ریاستی انتخابات ہونے کے لئے 65 فیصد ووٹنگ ہوئی، جس میں پی ڈی پی 28 سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی ثابت ہوئی اور بی جے پی 25 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔

یہ دونوں ایسی پارٹیاں ہیں جن کا موقف کشمیر کے حوالے سے بالکل متضاد رہا ہے۔ پی ڈی پی کشمیر کو انڈیا کا حصہ تو قرار دیتی ہے لیکن وادی کے عوام کی امیدوں پر پورا اُترتی ہے اور عوام کی امنگوں کی ترجمانی کر رتی رہی ہے جبکہ بی جے پی اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اس طرح یہ آگ اور پانی یعنی پی ڈی پی اور بی جے پی نے مل کر ریاست میں حکومت تشکیل دی اور آرٹیکل 370 پر خصوصی موقف پر اتفاق ہوا۔ وہ موقف یہ تھا کہ ’دونوں پارٹیوں کے نظریاتی اختلافات کے باوجود کشمیر کے مسائل کا ہر حل آئین کے مطابق کیا جائے گا پھر چاہے وہ خود مختاری کا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔ ‘ انتخابات کے لئے مہم کے دوران مودی ہر طرح آرٹیکل 370 سے دور رہے اور یہ تک کہا کہ اس معاملے پر بحث جاری ہے باقاعدہ انتخابی مہم کا حصہ بنانا ضروری نہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کتنی محتاط انداز میں کھیل رہی تھی۔

جب مسلمانوں کے قریب اور اسلام پسند تصور کرنے والی پارٹی پی ڈی پی ( پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) اور بی جے پی کا پہلی بار اتحاد ہوا تو یہ سمجھا جانے لگا کہ شاید آرٹیکل 370 کا معاملہ ختم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کچھ واقعات سے یہ اندازہ ہونے لگا کہ ایک لمحے میں کشمیر کے باسی مسلمان اکثریت کی بجائے اقلیت بن جائیں گے۔ جس کے بارے میں وقتاً فوقتاً کشمیر کی سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی عندیہ دیتی رہی۔ آہستہ آہستہ اس آرٹیکل کو کھوکلا کیا جانے لگا۔ اور پھر وہ گھڑی آئی جس میں آر ایس ایس کا دماغ استعمال کر کے بی جے پی نے یہ آرٹیکل منسوخ کر دیا۔ آرٹیکل 370 اور اس کا ایک اور حصہ آرٹیکل 35 A کشمیریوں کو ایک مخصوص حیثیت دیتا ہے اور کشمیریوں کو مستقل شہریت کا ضامن ہے۔ لیکن اب اس کے خاتمے سے سب کچھ بدل گیا۔

آرٹیکل 370 کے مختصر تاریخ کے بعد اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس آرٹیکل میں تھا کیا؟ یہ آرٹیکل 20 اکتوبر 1947 میں پاکستانی افواج کی دخل اندازی کا نتیجہ ہے۔ یہ آرٹیکل شیخ عبداللہ جو کہ جموں و کشمیر کے وزیرِ اعظم تھے، نے پیش کیا تھا۔ اس آرٹیکل کے ذریعے کشمیریوں کو یہ مراعات حاصل تھے۔

یہ آرٹیکل کشمیر کو انڈیا کی باقی تمام ریاستوں سے ممتاز بناتی تھی۔

اس آرٹیکل کے خاتمے سے کشمیر کو اب الگ ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔

اب ریاست جموں و کشمیر مرکز کے زیرِ انتظام دو ریاستیں ہیں۔

ایک ریاست کا نام جموں و کشمیر جبکہ دوسرے کا لداخ ہوگا۔

ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔

آرٹیکل 370 کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ مملکت تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔

اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلیٰ کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔

انڈیا کے تمام قوانین اب کشمیر میں نافذ ہو جائیں گے۔

پہلے جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت چھ سال تھی اب مرکز کی طرح پانچ سال ہوگی۔

یہ فیصلہ کہ کشمیر میں تعزیراتِ ہند نافذ ہوگا یا مقامی آر پی سی، یہ فیصلہ مرکزی حکومت یا پارلیمان کرے گی۔

اس سے پہلے مالیاتی ایمرجنسی کا آرٹیکل 360 نافذ نہیں تھا اب یہ نافذ کر دیا گیا۔

اس سے پہلے کشمیر میں خواتین کے حوالے سے ایک روایتی قانون نافذ تھا۔ جب ایک کشمیری عورت کشمیر سے باہر شادی کرتی تو وہ کشمیری ریاست کی شہرہت کھو بیٹھتی۔ اب اس طرح نہیں ہوگا۔ اب اگر کسی کشمیری عورت نے ریاست سے باہر شادی کی تو اس کی شہریت برقرار رہے گی جو کہ انڈین شہریت ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر کشمیری عورت کسی پاکستانی سے شادی کرے گی تو وہ پاکستانی شخص کشمیری شہریت کا حامل ہو جائے گا اور وہ کشمیر میں جائداد خرید سکتا تھا اور کشمیری شہریت بھی حاصل کر سکتا تھا جو کہ اب نہیں ہو سکے گا۔

آرٹیکل کی منسوخی سے پہلے پنچایت کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا اب پنچایت کو باقی ریاستوں کی طرح مکمل اختیار حاصل ہے۔

کشمیر میں (RTE) یعنی Right to Education حاصل نہیں تھا جبکہ اب یہ حاصل ہوگا۔ اور کشمیری بچے اس سے استفادہ حاصل کریں گے۔

اس سے پہلے کشمیریوں کا الگ جھنڈا تھا جبکہ اب سہہ رنگی انڈین ترنگا قومی جھنڈا تصور کیا جائے گا۔

آرٹیکل میں یہ موجود تھا کہ اگر کشمیری انڈیا کے جھنڈے اور دیگر قومی علامتوں کی بے حرمتی کرتے ہیں تو اسے جرم تصور نہیں کیا جائے گا جبکہ اب یہ جرم ہوگا۔

اس سے پہلے جموں و کشمیر میں عدالتِ عظمیٰ احکامات جاری نہیں کر سکتی تھی جبکہ اب یہ ممکن ہوگا۔

اس سے پہلے کشمیری عورتوں کے لئے شرعی قانون نافذ تھا جو کہ اب شاید نہ ہو۔

مسلمان اکثریتی ریاستوں میں اقلیت کے لئے جو کوٹہ مخصوص تھا، کشمیر میں وہ نہیں دیا جاتا تھا جبکہ اب یہ کوٹہ ( 16 % For Minorities ) دیا جائے گا۔

اس آرٹیکل کے کچھ فوائد تھے یہ بھی ملاحظہ ہوں۔

سب سے پہلے اس کے ایک حصے کے ذریعے یہ بات واضح کی گئی کہ کوئی بھی غیت کشمیری یہاں جائداد نہیں خرید سکتا تھا۔

کوئی غیر کشمیری یہاں اپنا بزنس نہیں چلا سکتا تھا تو یہ کشمیریوں کا فائدہ ہوا کیونکہ ان کو اپنے لوکل چیزیں بھیجنے کا بھر پور موقع ہاتھ آیا۔

اس کے کچھ نقصانات بھی تھے جو کہ انڈیا کے پوائنٹ آف ویو سے تھے جیسا کہ

یہاں انڈیا کا قانون نافذ نہیں تھا۔

یہاں نوکریوں کی کمی تھی جس کی وجہ سے لوگ دہشت گردی میں ملوث ہو رہے تھے۔

سہولیات کی بھی کمی تھی۔

میڈیکل سہولیات بھی نہیں کے برابر تھے کیونکہ سرکاری ہسپتالوں کا حال بے حال تھا اور کوئی پرائیویٹ ہسپتال نہیں تھا۔

کوئی صنعتی سیکٹر نہیں تھا۔

مرکزی حکومت سے دور ہونے کے باعث کرپشن زوروں پر تھی۔

جی ڈی پی بھی کمزور تھی اور تعلیم نہ ہونے کے برابر۔

ہمارے حساب سے ایک فائدہ یہ تھا کہ جموں و کشمیر میں صرف کوئی مسلمان ہی وزیر اعلیٰ بن سکتا تھا۔ باقی کسی کو بھی اجازت نہیں تھی۔

آرٹیکل 370 کے ایک ذیلی حصہ 35 A کے تحت بھی کچھ قوانین نافذ تھے۔ یہ اُس وقت کے صدر راجندر پراسد نے نہرو کے مشورے سے شامل کیا تھا۔ جس میں یہ شقیں شامل تھیں۔

کوئی غیر کشمیری یہاں آباد نہیں ہو سکتا۔

غیر کشمیری جائداد نہیں رکھ سکتا تھا اور نہ ہی خرید سکتا تھا

غیر کشمیری سرکاری نوکری کے لئے اہل نہیں تھا۔

کشمیری میں پیدا ہونے والا ہی کشمیری شہریت رکھتا ہوگا۔

اب ہم اپنے تناظر میں سوچتے ہیں۔ اس آرٹیکل کی منسوخی سے کیا ہوگا؟ یہ سب سے پہلے اور سب سے ایم سوال ہے۔ در اصل بی جی پی نے آر ایس ایس کا دماغ استعمال کیا اور کشمیر میں باقی ہندوستانیوں کو جانے کی اجازت مل گئی جس کی وجہ سے وہاں ہندوؤں کی آبادی بڑھے گی اور مسلمان دھیرے دھیرے مکمل طور پر اقلیت بن جائیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ آرٹیکل بھارت نے اقوامِ متحدہ کو خوش کرنے کے لئے شامل کیا تھا۔

جب پاکستانی مجاہدین نے 1948 میں بھارت سے موجودہ کشمیر چھینا تو بھارت اقوامِ متحدہ کے پاس گیا اور یہ معاہدہ کیا کہ بھارت باقاعدہ استصوابِ رائے سے یہ مسئلہ حل کرے گا اور کشمیریوں کو ان کا حق دے گا۔ لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کسی قسم کا حملہ نہیں کرے گا اور لائن آف کنٹرول کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں لائن اف کنٹرول بھی کھینچی گئی اور پاکستان نے بھی حملہ نہ کرنے کا کہہ دیا۔ لیکن اب بھارت کو شاید یہ نقصان اُٹھانا پڑے۔

وہ معاہدہ بھارت نے خود ختم کر دیا۔ اب پاکستان حملہ کرنے میں بالکل آزاد ہے۔ 2020 میں سی پیک بھی فعال ہو جائے گا۔ بھارت میں سکھوں کا ریفرینڈم بھی ہوگا۔ جو کہ خالصتان تحریک کی کامیابی ثابت ہوگی۔ اس طرح بھارت اکیلا ہو جائے گا۔ چین اور پاکستان کے درمیان پھنس کر بھارت کے پاس جنگ کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ اب پتّہ پاکستان کے ہاتھ میں ہے کہ پاکستان کیا چال چلتا ہے! جو بھی ہو لیکن پاکستان کو ہر طرح سے اور ہر طرف سے محتاط ہو کر داؤ لگانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).