بھارت ہم سے زیادہ چالاک کیوں ہے؟


ہم 11 جولائی 2003 کی صبح 6 بجے لاہور کے تاریخی ہوٹل فلیٹیز پہنچے جہاں سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان دوبارہ شروع ہونے والی دوستی بس سروس کے ذریعے دہلی روانہ ہونا تھا۔ اس بس کا آغاز 1999 میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ پاکستان کے وقت ہوا۔ پھر بھارتی پارلیمنٹ حملے کے بعد یہ بس سروس معطل کردی گئی۔

آدھے جاگے آدھے سوئے مسافروں میں زیادہ تر صحافی اور چند پاکستانی اور بھارتی مسافر خاندان بس میں سوار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ صحافی ہونے کے ناتے مسافروں سے جاننے کی کوشش شروع کردی کہ وہ کس مقصد کے لیے دہلی جارہے ہیں۔ بعض نے کہا کہ ان کے رشتہ دار دہلی میں ہیں اور وہ ان سے ملنے جا رہے ہیں۔ ایک کونے میں میاں بیوی اپنی کم سن بچی کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ آگے بڑھ کر جاننے کی کوشش کی کہ وہ دہلی کیا لینے جا رہے ہیں۔ تو بچی کے والد ندیم سجاد نے جواب دیا کہ ان کی بچی کے دل میں سوراخ ہے اور وہ دہلی کے راستے بنگلور جائیں گے جہاں ایک اسپتال میں ان کی بچی کا آپریشن کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ کیونکہ پاکستان میں بچوں کے دل کے امراض کا کوئی اسپتال نہیں جس کی وجہ سے انہیں بھارت جانا پڑ رہا ہے۔

ایک سوال اور دماغ میں آیا کہ آپ کو اس بس میں سفر کرنے کا خیال کیسے آیا؟ ندیم سجاد کہنے لگے کہ انہوں نے دبئی کے راستے بھارتی ویزہ کی درخواست کی تھی کہ انڈین ہائی کمیشن سے فون آیا کہ آپ کو ہم زمینی راستے سے بھارت سفر کرنے کا ویزہ دے دیتے ہیں آپ دوستی بس کے ذریعے دلی آجائیں اور وہاں سے بنگلور کی فلائیٹ لے لیں۔ بس میں سمجھ گیا۔ اس کے بعد میں نے ندیم سجاد کو بتایا کہ جونہی آپ واہگہ بارڈر پار کریں گے سارے بھارتی میڈیا کی نگاہوں کا مرکز آپ لوگ ہوں گے۔

اس کے بعد واہگہ بارڈر پربھارتی امیگریشن کے دفتر سے بعد باہر نکلے تو آگے صحافیوں اور ٹی وی کیمروں کا ایک ہجوم تھا۔ ایک سکھ صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ وہ بچی نور فاطمہ کہاں ہے۔ میں نے جواب دیا کہ بس وہ بھی باہر آنے والی ہے۔ جونہی ندیم سجاد کی فیملی باہر نکلی تو میڈیا کے کیمرے آن ہو گئے اور سوالوں کی بھرمار شروع ہوگئی۔ اس کے بعد سرہند میں ایک گھنٹہ قیام اور پھر شام 6 بجے دلی کے امبیڈکرر بس ٹرمینل پربھی بھارتی میڈیا کا سارا دھیان بچی نور فاطمہ اور اس کے والدین پر ہی تھا۔ ہوٹل پہنچے تو این ڈی ٹی وی پر نور فاطمہ کی فیملی لائیو پروگرام میں بیٹھی تھی۔

دنیا بھر کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان امن کی سفیر کا درجہ پانے والی نور فاطمہ پورے بھارت کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ کوئی علاج کا مکمل خرچہ اٹھانے کی پیشکش کررہا تھا تو کسی نے مفت رہائش فراہم کرنے کا پیغام دے دیا۔

ہم سوچ رہے تھے کہ بھارتی وزارت خارجہ نے کس مہارت سے نور فاطمہ کے خاندان کو تاریخی دوستی بس میں بٹھا کرتعریفیں سمیٹیں اور بنگلورمیں اپنے اسپتال کا دنیا بھر میں چرچا کیا جس کے بعد وہاں افریقہ اور وسطی ایشیا سے دل کے مریض بچے آنا شروع ہوگئے۔ دوسری طرف اسی روز ایسی ہی ایک بس دلی سے لاہور بھی پہنچی تھی مگر ایسی کوئی سواری نہیں تھی جس پرہم دنیا کی توجہ اپنی طرف دلاسکتے۔ ہماری وزارت خارجہ نے شاید ایسا سوچا ہی نہیں تھا۔

تاہم دلی سے آنے والی بس میں سوارصحافیوں کی لاہورآمد پر سرکاری طور خوب آؤ بھگت کی گئی جبکہ دلی سرکار نے پاکستانی صحافیوں کو گھاس بھی نہیں ڈالی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک جونئیر افسر نے بتایا کہ پاکستان اس بس سروس کے شروع ہونے پر پرجوش ہے مگر بھارت کا ردعمل قدرے مختلف ہے۔ ’ہمیں کوئی جلدی نہیں۔ ہم ایک قدم بڑھا کرپہلے اندازہ لگائیں گے کہ وہ کتنا کامیاب ہوتا ہے پھر دوسرا قدم اٹھائیں گے‘ ۔

تاہم دلی میں زیادہ تر عوام واجپائی سرکار کے ساتھ تھے اور چاہتے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان عداوت ختم کرکے امن قائم کیا جائے۔ پارلیمنٹ کے باہر ایک شخص کا کہنا تھا کہ دشمنی اور دوستی کا انحصار دونوں طرف کے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ پرہے۔ جیسا وہ چاہیں گے ویسا ہی ماحول بن جائے گا۔

اسی دوران سابق بھارتی وزیراعظم مرحوم اندر کمار گجرال سے جیو ٹی وی کے لیے انٹرویو کیا۔ انہوں نے دوستی بس سروس کی بحالی کو خوش آئیند قراردیا۔ اندر کمار گجرال کا تعلق جہلم سے تھا اور وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اچھے تعلقات کے خواہاں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی نواز شریف کے ساتھ بات چیت رہتی تھی۔ انہیں بہت افسوس تھا کہ اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف کی مذاکرات کی کوششیں آگے نہ بڑھ سکیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کیا چاہتا تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ کہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ یہ طے پایا تھا کہ سرحد کے دونوں طرف کشمیریوں کی آمدورفت کو انتہائی آسان بنا کر زیادہ سے زیادہ خود مختاری دے دی جائے گی۔ اورآہستہ آہستہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجاتا۔

بہت سے امن کے داعی سمجھتے ہیں کہ 1999 میں واجپائی کی لاہور آمد کے موقع کو ہم ضائع کرنے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھاتے اور خطے میں غربت کے خاتمے اور عوام کی خوشحالی کے لیے کام شروع کرتے تو آج پاکستان بہت آگے جا چکا ہوتا۔ مگر افسوس ہم نے اپنی انا اور اندرونی چپقلش کی وجہ لاہور اعلامیے کا ایک نادر موقع کھو دیا۔ اس کے بعد اگرچہ صدر مشرف نے اسی اعلامیے کو بنیاد بنا کرکمپوزٹ ڈائیلاگ کے ذریعے کشمیر سمیت دیگر دیرینہ مسائل حل کرنے کی کوشش کی مگر پھر ممبئی حملوں نے مشرف کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا اور اس کا الزام بھی پاکستان پر آیا۔

آج حالت یہ ہے کہ ایک سال ہم بھارت سے مذاکرات کی منتیں کرتے رہے اورنتیجہ یہ نکلا کہ مودی سرکار نے کشمیر کو وفاق میں ضم کردیا۔ بھارت نے پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان پر کشمیر میں دخل اندازی کے الزامات لگا کر دنیا کو قائل کرلیا کہ خطے میں ساری گڑبڑ پاکستان کروا رہا ہے۔ وہ فاٹف جیسے اقدامات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو کمزوربھی کرتا رہا اور ہم یہ طے کرنے میں مصروف رہے کہ معاشی بد حالی اور دہشت گردی کے شکار پاکستان میں جمہوری حکومتوں کو کمزور کیسے کرنا ہے۔

اسی معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کا فائدہ بھارت نے اٹھایا اور آج ہم سوچ میں پڑے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے۔ کوئی ٹھوس پالیسی کی بجائے ہمارے وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ میں سہمے ہوئے لہجے میں پوچھتے ہیں، ’اور کیا کروں، بھارت پر حملہ کردوں؟ ‘ شاید ان کی شعلہ بیانی، بڑھکیں اور دھمکیاں صرف اپنے سیاسی حریفوں کے لیے ہی ہیں۔

سیاسی جوڑتوڑ سے فرصت ملتی تو ہم بھارت کی فاشسٹ حکومت کے بُرے ارادے بھانپ لیتے اور کوئی پیشگی اقدامات کرلیتے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بل سے پہلے ہی دنیا میں سفارتی جنگ کے ساتھ ساتھ بھارت کی اس منافقانہ حرکت پربھرپورشورمچانا شروع کردیتے تو شاید حالات اتنے مایوس کن نہ ہوتے۔

ایک طرف ہم اپنی قوم کوامیدوں کے پہاڑ دکھاتے ہیں کہ کوئی اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتا تو دوسرے ہی لمحے ایسے بڑے بڑے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ امیدوں کے محل دھڑام سے زمیں بوس ہوجاتی ہیں۔ کبھی ہم اپنی اگلی نسل کو بتاتے ہیں کہ ہم بہت چالاک اورطاقتور ہیں اور ساتھ ہی یہ پیغام دیتے ہیں کہ دنیا بڑی ہوشیار ہے ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ تو کیا ہم مان لیں کہ دنیا بڑی چالاک ہے اور ہم معصوم یا بدھو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).