ریاست مدینہ اور ہماری معیشت


دنیا میں امن کے قیام سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں اور امن قائم کرنے کے لئے انصاف اولین شرط ہے، ظاہر ہے جہاں امن و انصاف کی حکمرانی ہوگی وہاں ظلم و جبر کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جائے گی، بدقسمتی سے آج ہمارے درمیان سے انصاف بڑی تیزی سے رخصت ہوتا جارہا ہے نتیجے کے طور پر ظلم و طغیان میں دن بدن اضافہ پورے ملک کو ہلاکت خیزی کی طرف لئے جارہا ہے۔ ایسے میں نہ صرف ہمارے بلکہ سبھی اہل وطن کے لئے لمحہ فکریہ یہی ہے کہ ہم انفرادی اوراجتماعی سطحوں پر قیام امن کی کوششوں میں جٹ جائیں۔ اس ضمن میں ہم تاریخ کے صفحات سے کچھ مثالیں پیش کررہے ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ ماضی میں انصاف کی بنیادیں کس قدر مستحکم و توانا تھیں جس کے سبب یہ دنیا امن و امان کا گہوارہ بنی ہوئی تھی۔ کل بھی یہی منصفانہ کردار امن و سکون کا باعث تھا اور آج بھی سسکتی اورکراہتی انسانیت کے لئے یہی شافی علاج ہے۔

خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓکے زمانہ خلافت میں ایک عیسائی تاجر اپنے تجارتی گھوڑوں کو لے کر دریائے فرات کے راستے اسلامی سرحد میں داخل ہوا۔ سرحدی چوکی پر متعین افسر زیاد بن حدیر نے ان گھوڑوں پر محصول طلب کیا تاجر نے محصول ادا کر دیا واپسی میں وہ جب دوبارہ اسی راستے سے گزرا تو زیاد نے اس کے غیر فروخت شدہ گھوڑوں پر پھرمحصول مانگا تاجر کو اس کی بات پر اعتراض ہوا۔ اس نے گھوڑوں کو وہیں اپنے غلاموں کے سپرد ک رکے اس غرض سے مدینہ روانہ ہوا تاکہ وہاں امیرالمومنین حضرت عمرؓسے اس بات کی شکایت کرے۔ مدینہ پہنچ کراس نے امیرالمومنین سے پورا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا جب گھوڑے فروخت ہی نہیں ہوئے تو دوبارہ محصول لینے کا کیا مطلب۔

عمر فاروق ؓنے پوری بات بغور سننے کے بعد مختصراً صرف اتنا کہا ’کفیت‘ ( یعنی اس کا انتظام کردیا گیا ہے ) تاجر کو لگا کہ خلیفہ نے اس کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے محض ایک رسمی جملہ کہہ دیا ہے۔ وہ مایوسی کی حالت میں فرات کی اسی چوکی پر واپس آیا اور خاموشی سے محصول کی رقم دینے لگا مگر چوکی کے نگراں زیاد نے اس کی رقم لوٹاتے ہوئے کہا کہ خلیفہ کا حکم آگیا ہے کہ تم سے دوبارہ محصول نہ لیا جائے۔ اس واقعے سے عیسائی تاجر بے حد متاثر ہوا، اس نے کہا کہ جہاں انصاف کی رفتار اس قدر تیز ہو کہ میرے پہنچنے سے قبل ہی یہاں پہنچ جائے، اس نے زیاد سے مخاطب ہوکر کہا کہ ”اے زیاد! میں مسیحیت چھوڑتا ہوں۔ اور اس شخص کے دین کو قبول کرنے کو تیار ہوں جس نے تمہارے پاس انصاف کا یہ فرمان بڑی تیزی سے بھیجا ہے۔“

حضرت علی ؓ اسلامی حکومت کے چوتھے خلیفہ راشد تھے ایک مرتبہ ان کی زرہ چوری ہوگئی۔ انہیں یہ پتہ چلا کہ وہ زرہ ایک یہودی کے پاس ہے۔ انہوں نے کوفہ کے قاضی شریح کی عدالت میں دعویٰ دائر کرتے ہوئے اپنی جانب سے دو گواہ پیش کیے ان میں سے ایک گواہ ان کا غلام قنبر تھا اور دوسرے گواہ خود خلیفہ کے بیٹے حضرت حسن ؓتھے۔ قاضی نے کہا کہ باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی اور صرف ایک گواہ مقدمے کی شنوائی کے لئے ناکافی ہے یہ کہہ کر قاضی شریح نے مقدمہ خارج کردیا اور زرہ بدستور یہودی کے پاس رہ گئی۔

لیکن عدالت سے باہر آنے کے بعد یہودی نے یہ کہہ کر اسلام قبول کرلیا کہ ”اسلامی قوانین انتہائی منصفانہ اور ہمہ گیر ہیں جہاں خلیفہ جیسی شخصیت کو اپنی حیثیت کو بالائے طاق رکھ کر خود قاضی کے روبرو کھڑا ہونا پڑے اور قاضی پر خلیفہ کے رعب ودبدبے کا کوئی اثر نہیں ہو اور قاضی وقت کے حاکم اعلیٰ کے خلاف بلا جھجھک فیصلہ دیدے۔“ اس نے نہ صرف اسلام قبول کرلیا بلکہ وہ زرہ یہ کہہ کر واپس کردی کہ یہ آپ ہی کی ہے اور آپ اپنے دعوے میں حق بجانب ہیں۔

بنوامیہ کے دور خلافت میں جب دمشق کی جامع مسجد تعمیر کی جانے لگی تو اس سے منسلک عیسائیوں کا ایک قدیم گرجا موجود تھا۔ مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اگر گرجا کی کچھ زمین حاصل ہوجائے تو مسجد کافی کشادہ ہوسکتی ہے لیکن عیسائی عمائدین اس پر راضی نہ ہوئے۔ اس وقت کے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے زمین کے حصول کے لئے عیسائیوں کو ایک معقول رقم کی پیش کش کی مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ چنانچہ مسجد اتنی ہی جگہ میں تعمیر ہوگئی بعد کے دور میں ولید بن عبدالملک نے بھی کچھ رقم کے عوض گرجا کی اس زمین کو حاصل کرنا چاہا لیکن عیسائی دوبارہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ تب ولید نے اپنی طاقت کے زور پر اس زمین پر قبضہ کرلیا اور اسے مسجد میں شامل کرکے تعمیر مکمل کردی اس طرح سے مسجد حسب خواہش کشادہ ہوگئی۔

کچھ سال کے بعد جب عمربن عبدالعزیز کا دور خلافت آیا جوکہ اپنی نیک نامی خدا ترسی اور انصاف پسندی کے لئے مشہورتھے۔ جب ان کی شہرت اطراف و اکناف تک پھیلی تو وہاں کے عیسائیوں نے بڑی امیدوں کے ساتھ ان سے ملاقات کی اور اپنی ان شکایات کو پیش کیا جو ایک عرصے سے ان کے دلوں میں ایک خلش بن کر انہیں بے چین کیے ہوئے تھی۔ حضرت عمربن عبدالعزیزنے ان کی باتیں بغور سنیں اور بلا توقف یہ حکم جاری کردیا کہ گرجا کی جس زمین کو مسجد میں شامل کیا گیا ہے اسے فوری طور پر مسمار کر کے زمین عیسائیوں کے حوالے کر دی جائے۔

مسلمانوں کو اس بات سے کافی قلق ہوا انہیں امیرالمومنین کے اس فیصلے سے خوشی نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے حیرت و رنج کا اظہار کیا۔ دوسرے لفظوں میں انہیں اس فیصلے میں اپنی پسپائی نظر آئی اور اسے انہوں نے بزدلی پر بھی محمول کیا۔ اس وقت رد عمل کے طور پر عام مسلمانوں کا یہی خیال تھا کہ کیا ہم اپنی مسجد خود اپنے ہی ہاتھوں سے گرا دیں حالانکہ ہم نے برسوں اس کے اندر اذانیں دی ہیں اور نمازیں ادا کی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے متعدد ریمارک سن کر بھی عمر بن عبدالعزیز اپنے فیصلے پر اٹل رہے انہوں نے جواب دیا کہ ”خواہ کچھ بھی ہو مقبوضہ زمین اگر عیسائیوں کے گرجا گھر کی تھی تو وہ انہیں ضرور واپس کی جائے گی۔ “

خلافت بنوامیہ اس وقت انتہائی مضبوط اور مستحکم سلطنت تھی جو اپنے آس پاس کے علاقوں میں قائم دیگر حکومتوں پر زبردست طریقے سے اثر انداز تھی بیشتر حکمراں اس سے خوف کھاتے تھے کسی کے اندر ہمت نہیں تھی کہ اس سے ٹکرانے کی جرأ ت کرسکے۔ اس صورت حال میں اس کے انتہائی منصفانہ فیصلے پر عیسائی بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا انہوں نے کہا کہ ”ہمارا دعوی ٰ ثابت ہو گیا اور ایک انصاف پسند خلیفہ نے ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا ہمارے لئے یہی سب سے بڑا اعزاز ہے اور اس بڑے اعزاز کے حصول کے بعد ہمیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہمارے نزدیک اب اس زمین کی کوئی حیثیت نہیں ہمیں انصاف عزیز تھا جو ہمیں مل گیا اور اب ہم یہ زمین اپنی طرف سے مسجد کو ہدیتا ً پیش کررہے ہیں۔“

یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ دنیا کو انصاف اور حق بیانی کی قیمت پر ہی امن و امان کا تحفہ دیا جا سکتا ہے اس کے برعکس کوئی بھی عمل ظلم و جبر اورہلاکت خیزی ہی کی طرف لے جانے والاہے بدقسمتی سے آج ہمارے ملک کی صورت حال کچھ اسی طرح کی ہے جہاں انصاف تو عنقا ہوتا جارہا ہے لیکن ظلم و ستم ڈھانے کے نئے نئے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).