مونچھیں ہوں تو ’مظہر برلاس‘ جیسی


ایک دفعہ برلاس صاحب مجھے ساتھ لے کر افتخار عارف صاحب کے گھر چلے گئے جو ان دنوں آبپارہ روڈ پر واقع ایم این اے ہاسٹلزمیں مقیم تھے۔ میری ایسی مستند ادبی حیثیت کے حامل کسی انسان سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ ان دنوں اکادمی ادبیات کے صدر نشین بھی تھے۔ مجھے گمان تھا کہ وہاں ادبی گپ شپ ہوگی۔ شاعری کے نئے پرانے رحجانات پر بحث ہوگی، میں ادب کے ادنیٰ سے طالب علم کی حیثیت سے کچھ سیکھنے کی غرض سے برلاس صاحب کے ساتھ ہو لیا تھا۔ وہاں جاتے ہی برلاس صاحب نے سلام دعا کے بعد سرکاری فون کو تاڑ لیا اور افتخار عار ف صاحب سے رسمی اجازت کے بعد لگے ڈائل گھمانے اور اپنے دور نزدیک کے جاننے والوں سے رابطوں میں کھب گئے۔ میں ایک نو آموز پنجابی لکھاری تھا، اردو ادب کے ادیب شہیر سے کہاں تک بات چیت کرسکتا تھا؟ میری علمی و اَدبی زنبیل جلد ہی خالی ہوگئی اور پھر ہم ادھر ادھر کی باتوں میں اپنا وقت پاس کرنے لگے تا وقتیکہ برلاس صاحب نے فون کی جان چھوڑی اور ہم نے وہاں سے رخصت لی۔

برلاس صاحب کی شناخت اس وقت بننی شروع ہوئی جب ان کی فلیٹ میں آنے والی رحیم یار خاں کی بلند قامت ادبی شخصیت ارشاد امین صاحب سے میل ملاقات ہوئی۔ یہ بندہ واقعی برلاس کی زندگی کا پارس پتھر ثابت ہوا۔ ارشاد امین صاحب سعودیہ سے جو لاکھوں روپے کما کر لائے تھے وہ سارے کے سارے ایک ادبی رسالے کی اشاعت میں ڈبو چکے تھے اور اب اسلام آباد میں ایک نئے منصوبے پر کام کرنے کا سوچ رہے تھے۔ ارشاد امین صاحب کا پروگرام پاکستانی پارلیمانی ممبرز کی تعارفی ڈائریکٹری تیار کرنا تھا۔ مظہر برلاس کی گمنام زندگی میں یہ منصوبہ ایک نیا موڑ لے کر آیا جس نے اسے بہت کم عرصے میں ملک کی اَپر کلاس سے متعارف کروا دیا۔

ارشاد امین صاحب مظہر برلاس کو ساتھ لے کر پارلیمنٹ بلڈنگ اور ایم این اے ہاسٹلز میں جانے لگے۔ اسمبلی کے سیشن کو پریس گیلری میں بیٹھ کر دیکھنے لگے۔ نت نئے لوگوں، میڈیا پرسنزاور سیاسی رہنماؤں سے مل کر برلاس صاحب بھی وی آئی پی بنتے چلے گئے۔ ان کی باتوں اور رکھ رکھاﺅ میں تبدیلی محسوس ہونے لگی۔ میرے خیال میں انہوں نے ارشاد امین صاحب سے بالا بالا وزیروں اور مشیروں سے ذاتی تعلقات استوار کر لیے جن کو سیڑھی بنا کر یہ لوگوں کے کچھ پھنسے ہوئے کام کرانے لگے۔ اس خدمت خلق میں یہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے گئے۔

آنے والے وقتوں میں ہم سب نے دیکھا کہ ان کی گپ شپ یوسف رضا گیلانی صاحب سے بھی ہوگئی اور شاید جیل میں دونوں اکٹھے بھی رہے۔ تو جب سابق وزیر اعظم پاکستان گیلانی صاحب نے جیل میں اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب ’چاہ یوسف سے صدا‘ لکھی تو اس کتاب کے دیباچے میں مظہر برلاس صاحب کو بھی حرف سپاس پیش کیا گیا۔ گیلانی صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دوران دورہ امریکہ میں برلاس صاحب ان منتخب اخبار نویسوں میں شامل تھے جنہیں امریکہ یاترا کیلئے سرکاری سطح پر چنا گیا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو کہ ایک مسلسل جدوجہد کرنے والے اور گراس روٹ لیول سے اٹھ کر آنے والے اخبار نویس کو ملا۔

پیپلز پارٹی کے دور میں ہی مظہر برلاس پاکستان ٹیلی ویژن کے سرکاری چینل پر اپنا سیاسی ٹاک شو ’ٹاکرا‘ کے عنوان سے کرنے لگے جس میں یہ باقی ایسے شوز کی طرح دو یا تین سیاسی نمائندوں میں مرغوں والی لڑائی کروا کر خود سامنے بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہتے۔ پھر پروگرام کا نام حامد میر کے پروگرام سے متاثر ہوکر ’کیپٹل ویو‘ کر لیا۔ اس پروگرام کے بہت قصے پھیلے۔ روایت کے مطابق ٹاپ سٹوری یہ تھی کہ ایک خاتوں شاعرہ نیز اداکارہ سے دریافت فرمایا۔ بارش میں نہانا پسند ہے؟ جواب ملا، ملا جی ہاں۔ ترنت دوسرا سوال آیا، کپڑے پہن کے یا بغیر کپڑوں کے؟ خاتون شاعرہ کے شوہر نامدار بھی تشریف رکھتے تھے۔ اس کے بعد راوی خاموش ہے۔

ایک دن میں نے حضرت شام سے اس پروگرام کی ریٹنگ کے حوالے سے پوچھا تو موصوف نے جواب دیا: ’میں نے ابھی اس پروگرام کو وِیو نہیں کیا‘ میں یہ جوب سن کرحیران رہ گیا کہ کہاں مظہر برلاس اس نوجوان کو متعارف کراتے رہے اور کہاں یہ روکھا سا جواب۔

ایک اور بات کا مجھے آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ ان دونوں حضرات کی آپس میں رشتہ داری کیا ہے اور ناراضی کیسے ہوئی؟ کیونکہ جب مظہر برلاس اپنی شادی کا کارڈ دینے خود چل کر میرے دفتراسلام آباد آئے تو ان کے ہاتھ میں دو کارڈ تھے۔ کہنے لگے پاشا بھائی یہ ایک کارڈ آپ کے لئے ہے اور دوسرا اپنے یار شام کو دے دینا جو کہ بہت بڑا حضرت ہے۔ میں نے کارڈ شام تک پہنچا دیا۔ ولیمے کی تقریب چک شہزاد میں راجہ پرویز اشرف صاحب کے فارم ہاﺅس پر ہوئی، جہاں عوامی نمائندوں کا ہجوم تھا۔

جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک کے دوران اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک میلے کا سماں ہوتا تھا جب نامور صحافی، دانشور، سول سوسائٹی کے افراد مل جل کر احتجاج کرتے تھے اور مشرف حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اس اجتماع پر کبھی کبھی پولیس بھی دھاوا بول دیتی ، ایسے ہی ایک ہنگامے میں مظہر برلاس کی سر پر لاٹھی لگنے سے خون نکل آیا توحامد میر موقع سے فائدہ اٹھا کر برلاس صاحب کوسیدھا اپنے ٹاک شو کیپٹل ٹاک میں لے گیا۔ جہاں برلاس صاخب نے خون آلود پٹی والے ماتھے کے ساتھ اس ظلم پر حکومت کے لتے لئے۔ ایس پروگرام کو دیکھ کر حضرت شام نے کیا خوب جملہ کسا جو یوں تھا:

’ظالمو اَب توچیف جسٹس کو بحال کردو، حتیٰ کہ اس تحریک میں مظہر برلاس کا لہو بھی شامل ہو گیا ہے‘

مظہر برلاس صاحب میرے اب بھی بہت اچھے دوست ہیں اوران کا تازہ کالم مجھے واٹس اَپ پر باقاعدگی سے ملتا ہے جس کے مندرجات پر ان سے تبادلہ خیال بھی ہوتا ہے۔ یہ کالم نہیں، برلاس صاحب کا خاکہ ہے جو میں نے اپنی یادوں کے سہارے لکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2