مونچھیں ہوں تو ’مظہر برلاس‘ جیسی


کھڈا مارکیٹ کے فنکار فلیٹ سے اُٹھان لینے اور اُڑان بھرنے والے عصر حاضر کے جن جن مشاہیر کا ذکر میں نے اپنی سابقہ تحریروں میں کیا ہے ان میں سے ایک عظیم ہستی مظہر برلاس بھی ہیں جن کے قلم کی جولانیاں آپ آئے روز اخبارات میں ان کے چھپنے والے تازہ بہ تازہ کالموں سے لگا سکتے ہیں۔ موصوف جتنے کثیر الجثہ آج دکھائی دیتے ہیں ، شہر اقتدار میں قدم رنجہ فرمانے کے ابتدائی دنوں میں اس عظیم جسامت کا محض کسری نمونہ تھے۔ اُن دنوں صحت اور جیب دونوں کی حالت پتلی ہوا کرتی تھی۔ برلاس صاحب کی ذاتی وارڈروب میں ڈھائی عدد جوڑے تھے جن میں دو تو مکمل سوٹ کی شکل میں تھے، علاوہ ازیں ایک رنگدار نری قمیض جس کو باقی دونوں سوٹوں کی شلواروں کے ساتھ ون بائی ون ملا کر پہن لیتے۔ ایس طرح تیسرے سوٹ کا بھرم بھی بن جاتا۔

اتنی کڑکی کے عالم میں بھی دو مہنگے شوق پال رکھے تھے یعنی سگریٹ اور فون۔ اس زمانے میں موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے، چھوٹی اینٹ کے سائز کا پاکستان کا واحد موبائل فون پاک ٹیل کے نام سے کسی بہت بڑی کاروباری یا سیاسی شخصیت کے پاس ہوتا تھا جسے اٹھائے رکھنے کیلئے ایک بندہ باقاعدہ ملازم رکھا جاتا تھا۔ پی ٹی سی ایل کا فون چونکہ ہمارے کمرے میں تھا، سو برلاس صاحب کا ڈیرہ بھی اسی کمرے میں پکا ہو گیا، اور ہر اُس بندے کو ہمارا فون نمبر عنایت کرچکے تھے جس سے کبھی زندگی میں ایک بار سلام بھی لیا ہو۔ ایک عدد اردو روزنامے میں اخبار نویسی بھی کرتے تھے۔ جب کوئی مظہر برلاس سے پوچھتا کہ آپ کہاں کام کرتے ہیں تو باقی لوگ برلاس سے پہلے بول دیتے ’جی اج کل یہ’ اِک سس‘ نال کم کر رہے نیں ‘۔ (اخبار کا نام اساس تھا جس کا مردہ پنجابی زبان میں “ایک ساس” بنا کر خراب کیا جاتا تھا۔)

حلیے کے حساب سے گھنے گھنگریالے بال، چوڑی پیشانی، موٹے اور گول گول شیشوں کی باقاعدہ ویلڈنگ والی عینک سے پیچھے سے جھانکتی ہوئی کم عمر بھینسے جیسی آنکھیں، قد پانچ فٹ سے بھی نکلتا ہوا، بھری بھری کمرجو اَب پورا کمرہ بن چکی ہے۔ مونچھیں ہوں تو نٹور لال جیسی یا ہمارے پیارے دوست مظہر برلاس جیسی، جن کی اَکڑ کلف لگے کپڑے جیسی، یہ بناوٹ کے اعتبار سے فلمی ولن کی مونچھوں جیسی طرحدار جو کناروں پر جاکر گولائی میں گھومنے کو ضد کریں۔ اِنہیں تاﺅ دیتے وقت ماضی کے مشہور ٹی وی ڈرامے وارث کے کردار مولا داد (شجاعت ہاشمی) کو ضرور دھیان میں رکھتے۔ آواز ایسی بھاری اور رعب دار کہ امریش پوری مرحوم بھی سنتے تو دبک کے رہ جائے۔

یوں تو اس فنکار فلیٹ میں نعیم نیازی صاحب کے کمرے میں بہترین علمی ادبی شخصیت جناب منصور آفاق صاحب آف میانوالی، مشہور اینکر اور شاعرسلیم شہزاد پپلاں والی اور سب سے بڑھ کر پنجابی کے مشہور شاعر افضل عاجز صاحب بھی گاہے بگاہے تشریف لاتے اور محفلیں گرماتے، لیکن مظہربرلاس صاحب ہمارے فلیٹ میں ایک طوفان بن کر آئے اور آتے ہی سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز، یعنی تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔

میں اور حماد شاہ صاحب (جو اس فلیٹ کی لیز رکھتے تھے) کی حیثیت بھی برلاس صاحب کی شخصیت اور ملبے تلے دب کے رہ گئی۔ وہ جسے چاہتے ڈانٹ کر چپ کرا دیتے، کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں تھی۔ برلاس صاحب نے جب یہ دیکھا کہ یہاں توں راوی چین ہی چین لکھتا ہے تو اپنے دور کے رشتہ دار’ حضرت شام‘ کو قریب بلا لیا۔ فلیٹ میں داخلے سے پہلے اُسے یہ سمجھا دیا کہ میرے ساتھ تمہاری رشتہ داری کا کسی کو پتہ نہ چلے۔ شام صاحب بھی یہیں اسی بھیڑ میں کھپ گئے۔ کڑھائی والے کرتے شلوار کے ساتھ سانولی سی رنگت میں کسی گاﺅں کے رانجھے جیسے لگتے تھے۔ ان کے کپڑوں کی لشک پشک دیکھ کر ارشاد بھٹی کا دل للچایا تو اس نے ان کے معمولات پر نظر رکھنی شروع کردی۔

ایک دن شام جی نے اپنا شلوار قمیض محنت اورپیار سے استری کر کے کھونٹی پر ٹکایا اور خود تولیہ کندھے پر رکھ کر واش روم کی راہ لی۔ ارشاد بھٹی صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے شام کا دھلا دھلایا جوڑا پہنااور سٹک لئے لیکن جانے سے پہلے غسل خانے کی باہر والی کنڈی لگانا نہیں بھولے۔ شام بے چارے کو دو گھنٹے بعد حماد شاہ نے باہر سے آ کر حبس بے جا سے آزادی دلوائی۔ شاہ جی نے کمرے میں جاکر دیکھا تو ان کے پرفیوم کی شیشی بھی خالی تھی، یعنی ارشاد بھٹی صاحب دونوں سے واردات کر گئے تھے۔ ایک بار مظہر برلاس غسل خانے میں نہانے کو تشریف لے گئے تو واپسی پر شیو بھی کئے ہوئے نظر آئے۔ راقم نے ہمت کر کے پوچھا کہ سرکار جاتے میں قدم اور تھے آتے میں قدم اور۔ آپ کے شانہ مبارک پر تولیے کی تہمت تو تھی، ہاتھ میں کوئی ریزر وغیرہ نہیں تھا تو پھر یہ شیو کیسے کر لی؟ مظہر بولے، وہاں جو سیفٹی ریزر پڑا تھا اسی سے شیو بنا لی ہے۔ اوہ میرے خدایا برلاس صاحب وہ سیفٹی تو کسی کار اسفل کے لئے مخصوص تھی۔ فرمایا، فکر نہ کر، پاشا بلیڈ میرا اپنا تھا۔

ہمیں مظہر برلاس کا ادب سے کوئی تعلق ڈھونڈے سے بھی نہیں ملا اور نہ ہی ان سے کبھی کسی اچھی کتاب کے بارے میں کوئی تبصرہ سنا۔ بس اپنی ذاتی بھاری آواز کی بدولت ہی سب پر اثر انداز ہوتے رہے۔ لیکن ہمارے استفسار پر وہ گویا ہوئے کہ وہ نہ صرف یہ کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھائی کے دوران ہی اپنی شاعری کا آغاز کر چکے تھے بلکہ کالج کی ادبی مجالس کے صدر اور سیکریٹری وغیرہ بھی رہ چکے ہیں۔ گورنمنٹ کالج کے گزٹ میں کالم وغیرہ بھی لکھتے رہے اور کالج کے ہی ادبی مجلے ’راوی‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ علاوہ ازیں ریڈیو پاکستان لاہور سے طالبعلموں کے کسی ادبی پروگرام کی میزبانی بھی فرمائی۔ اب ان تمام جملہ دعووں کی تصدیق یا تردید کوئی ان کا ہم جماعت ہی کرسکتا ہے یا پھر ان کا کوئی نقیب مثلاً حضرت شام وغیرہ۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2