ایک مصیبت کی ماری عورت کی بپتا


اب اس کی آنکھوں میں چمک تھی اسے اپنی محسن کی یاد آرہی تھی جس نے اسے کام والی نہیں بلکہ انسان سمجھا اس وقت جب اس کے یتیم بچے بھوکے تھے اور اس کا جیٹھ 19 لاکھ کی نئی گاڑی اپنے گیراج میں کھڑی کرکے واپس دبئی چلا گیا۔ اس فرعون نے اپنے یتیم بھتیجے کے سر پہ ہاتھ تک نہ پھیرا۔ وہ مجھے بتارہی تھی کہ اسے کتنا پچھتاوا تھا جب وہ اپنی نند کے کہنے میں آکر اپنے امیر جیٹھ کے گھر چند ہفتوں کا بچہ دوسرے بچوں سمیت لے کر گئی۔ اس فرعون اور اس کی مغرور بیوی نے اسے کھانا تو دور کی بات پانی بھی نہ پوچھا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا کہ ”تم لوگ بہن کے گھر چلو مجھے کام جانا ہے واپسی پر ادھر ہی آؤں گا۔“

وہ کہتی ہے کہ ”باجی اس نے تو بہانے سے ہمیں گھر سے نکالنا تھا کیونکہ اس کے گیرج میں کھڑی نئی گاڑی دیکھنے اس کے دوست احباب آرہے تھے اور اس کی بیوی غریب رشتے داروں سے نفرت کرتی تھی۔ لیکن یتیم بھتیجا تو پہلی بار اس کے گھر گیا تھا اس کو اٹھا کر ایک بار پیار ہی کرتا۔“

مجھے ایک بار پھر انسان کے اس بد نما چہرے سے گھن آنے لگی جو انسانیت کی بجائے مال و دولت کی چاہت میں غرق ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کیا کھاتے ہیں؟ ہمارے جیسے اگر ہوتے تو کچھ نہ کچھ تو ہم جیسی بات ہوتی نا ان میں۔

یہی سوچ رہی تھی کہ اس نے پھر بولنا شروع کردیا اب وہ اپنے پاوں کی ہڈی ٹوٹنے کا قصہ سنا رہی تھی۔ میں نے اسے روکا کہ ذرا سنوں باہر بیل بج رہی ہے۔

اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ ”جی دودھ والا آیا ہے۔ میں دودھ لے آؤں۔“

”اچھا سنو آج میرے لئے دودھ مت لینا۔ پڑا ہے ابھی کل کا دودھ۔، بچے نہیں ہیں تو زیادہ استعمال نہیں۔ تم جاؤ اپنے حصے کا دودھ لے آؤ۔“

چند روز پہلے اسے دودھ لگوا دیا تھا تاکہ وہ اپنی جو صحت خراب کر چکی تھی اس میں کچھ بہتری کے لئے اسے دودھ پینے کو مل جائے۔ اللہ بھلا کرے میرے گھر جو گوالا آتا ہے وہ بھی بہت اچھی طبیعت کا مالک ہے۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ یہ غریب بیوہ ہے کچھ تم فالتو دودھ دے دیا کرو اسے تو کچھ میں اس کی مالی معاونت کرونگی۔ وہ ہمیشہ میرا خیال کرتا ہے۔ جب بہت دن تک نظر نہ ہوں تو فون کرکے میری خیریت پوچھتا ہے کہ ”باجی زندہ ہیں نا ابھی؟“

میں کہتی ہوں ابھی کام پورے نہیں ہوئے اس لیے بے فکر رہو۔ اس کی بھی ایک کہانی ہے کہ پڑھ لکھ کر خود کیوں دودھ دھوتا ہے جبکہ نوکر بھی رکھ سکتا ہے اور خود کیوں آتا ہے دودھ دینے؟ پھر کبھی اس کی کہانی لکھوں گی۔ ابھی اپنی ملازمہ کا قصہ پورا کرنا چاہتی ہوں جو اب دودھ ابال چکی تھی اور میری کافی بنا کر مجھے پکڑا رہی تھی۔

”ہاں بتاؤ اب کیسے ٹوٹا تھا تمہارا پاؤں؟“

وہ پھر اپنا قصہ سنانے بیٹھ گئی۔ ”باجی میں ایک پٹھان خاندان کے کپڑے دھوتی تھی وہ روز روز ڈھیر لگا دیا کرتے تھے اور بہت گندے کرتے تھے کپڑے کہ میں تھک جاتی تھی میل نکالتے نکالتے۔“

میں نے ٹوکا۔ ”کتنے لوگوں کے کپڑے دھوتی تھی؟“

وہ ہنس کر بولی۔ ”باجی یوں تو وہ تین خاندان ایک جگہ رہتے تھے اور سب کے کپڑے ہوتے تھے لیکن تنخواہ صرف ایک گھر کے حساب سے دیتے تھے۔“

اس کی بات سن کر حیران ہوئی کچھ دیر اسے گھورتی رہی اور پھر اسے ڈانٹا۔ ”تو تم کیوں پاگل بنی رہی۔ کیوں نہیں چھوڑا کام ان کا؟“

کہنے لگی کہ ”ان دنوں میرے پاس اور کام نہیں تھا اور میرے کچھ معاملات میں انہوں نے رہنمائی کی تھی۔“ اس کی بات سن کر میں سمجھ گئی کہ یہ بھی مروت کے باعث نقصان اٹھاتی رہی ہے۔

باجی انہیں کے گھر چھت پہ پانی چیک کرنے گئی تھی اور سیڑھی سے گری تھی۔ اس نے ایک طویل قصہ سنایا جس کا لب لباب یہ تھا کہ جن کے گھر کام کرتے ہوئے گری تھی انہوں نے اس کی کوئی مالی معاونت نہ کی بس سرکاری ہسپتال سے دوا دارو کروا کے چھوڑ دیا۔ وہ پلاسٹر والے پیر کے ساتھ اگلے روز پھر ان کے گھر کام کررہی تھی کہ اسے بچوں کے لئے راشن لینا تھا اور اگر وہ چھٹی کرتی تو وہ لوگ اس کی تنخواہ رکھ لیتے۔

”باجی آپ کو لطیفہ سناؤں۔“ وہ ہنستے ہوئے بولی۔ ”جب میں پلاسٹر والے پیر کے ساتھ گود میں دودھ پیتا بچہ لے کر سڑک پہ کھڑی گاڑی کا انتظار کرتی تھی کہ گھر جاؤں تو کتنے لوگ مجھے بھیک دینے لگتے۔ ایک دفعہ ایک بھائی نے مجھے سو روپیہ دیا تو میں نے کہا ’نہیں بھائی میں تو کام پر جارہی ہوں میں بھیک نہیں لیتی۔‘“ وہ ہنس رہی تھی جبکہ مجھے لگا جیسے باہر برستی بارش آسمان پہ روتے فرشتوں کا نالہ ہے جو کہتے تھے یہ خاکی بڑا ظالم ہے مالک اسے تخلیق نہ فرما۔

وہ اٹھی اور اپنے لئے کھانا لے آئی۔ پہلے پہل جب وہ میرے گھر آئی تو اس کا رنگ جلا ہوا تھا نہ کچھ کھاتی تھی نہ زیادہ بولتی تھی۔ پھر میں نے اسے زبردستی کھانے کے لئے بٹھایا کرنا اور اس سے ادھر ادھر کی غیر ضروری گفتگو کرنی تاکہ اس غم غلط کرسکوں جو اس کی جوان بچی کی موت نے اسے دیا تھا۔ وہ کھڑکی میں سے باہر دیکھتی ہوئی بولی۔ ”باجی یہ بارش رک جائے تو میں گھر کو جاوں میرے بچے بھوکے ہوں گے۔“

میں نے کہا۔ ”تم خود تو کھانا کھا لو پہلے۔ نہ رکی بارش تو ٹیکسی منگوا دوں گی۔ چلی جانا۔ “

جیسے ہی اس نے کھانے کا آخری نوالہ لیا۔ بارش ایک دم سے رک گئی۔ مجھے دیکھ کر بولی۔ ”مجھے پتا تھا۔ اللہ میری سن لے گا جیسے ہی میں کھانا ختم کرونگی بارش رک جائے گی۔“ وہ بڑے مان سے کہہ رہی تھی اور میں اپنی ناشکری طبیعت کا سوچ کر دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہی تھی۔

وہ اپنے بچوں کے کھانے پینے کا کچھ سامان اور اپنے حصے کا دودھ لے کرچلی گئی تو میں اس کی کہانی لکھنے بیٹھ گئی۔ سوچا شاید کوئی پڑھ کر اپنے رویے کو بدل سکے اور انسانیت کی قدر کرنے لگے۔ شاید کوئی اللہ سے گلے شکوے کرنے سے پہلے اس کی ان تکلیفوں کے باجود خدا پر ایمان کا سوچ کر شرمندہ ہو۔ شاید کوئی اپنی آسودہ زندگی میں داخل مشکلات پہ صبر کرے۔ سوچا شاید کوئی اس کی کہانی پڑھ کر سوچے کہ خوداری ایسی قیمتی شے ہے جو اس جیسی مصیبت کی ماری نے بھی غربت کے باوجود اپنی خود داری نہ بیچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2