مقبوضہ کشمیر اور آرٹیکل370


مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر بھارت کی شرانگیز کارروائیاں، وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے تنازع کشمیر کے حل کی خاطر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کو ٹھکرا کر بھارت نے پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کردیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیری سب سے زیادہ ذہنی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ جس طرح سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے اس سے کشمیریوں کے سیاسی احساسات کو بہت تکلیف پہنچائی گئی ہے۔

اس کا خاتمہ شناخت کے مسائل تو پیدا کرے گا ہی، کیونکہ جموں اور کشمیر ایک ریاست تھی جس میں جموں، کشمیر اور لداخ جو تینوں علاقے ہیں ان میں الگ الگ مذہب کے لوگ شامل ہیں کشمیر میں چونکہ مسلمان اکثریت میں ہیں اسی لیے انڈین حکومت انھیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔ کشمیریوں کو معاشی ترقی کا جھانسا دیا جا رہا ہے یہ ایسا ظلم ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے، کشمیر کبھی انڈیا کا حصہ نہیں تھا۔

انڈین آئین کی شق 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے اور یہ دراصل مرکز اور ریاستِ جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا۔ یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔

دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں درندگی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے پیلٹ گنوں کے اندھا دھند استعمال کے بعد اب شہری آبادی پر کلسٹر بم برسائے جارہے ہیں جو بہت بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بننے کی وجہ سے جنیواکنونشن کے تحت ممنوع ہیں، اس کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول پر فائربندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بہت بڑھادیا گیا ہے۔ وطن عزیز اس وقت چاروں اطراف سے شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ بھارت کی مودی حکومت کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو روندتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، ایف اے ٹی ایف اسٹیٹس بابت عالمی مالیاتی ادارے کا بیان اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آنا، یہ وہ تمام حالات و واقعات ہیں جن پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ جوہری ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے تمام مخالف قوتیں متحرک ہو گئی ہیں۔

جس کے پیش نظر پاکستان کی برّی فوج اور فضائیہ کو بھی ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔ مودی سرکار نے نہ صرف حدیں پار کی بلکہ امریکی صدر کی مذاکر ات کی درخواست کو بھی عالمی دنیا کے سامنے ٹھکرادیا۔ پیر کو اس نے یہ امن دشمن طریقہ اختیار کرکے بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت حاصل تھی اور بھارتی پارلیمنٹ کا کوئی قانون یہاں اس وقت تک لاگو نہیں ہو سکتا تھا جب تک ریاست کی کٹھ پتلی اسمبلی اس کی منظوری نہ دیدے۔

اسی طرح دفعہ 35 اے کے تحت کوئی غیر کشمیری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید سکتا نہ نوکری کر سکتا تھا۔ ان دفعات کی تنسیخ کے بعد ایک تو ریاست کو باضابطہ بھارت میں ضم کر دیا گیا ہے، دوسرا مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ کشمیر میں انٹرنیت سے لے کر موبائیل نیٹ ورکس تک کی بندش کردی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اندر آنا اور باہر نکلنا بھی ممنوع کردیا گیا ہے حالات اتنے مخدوش ہیں کہ غیرملکی سیاح خوف و ہراس کے عالم میں علاقہ چھوڑ رہے ہیں جبکہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی نے اپنے شہریوں کو مقبوضہ کشمیر کا سفر نہ کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ اب پوری ریاست میں دفعہ 144 نافذ کرکے کرفیو لگا دیا گیا ہے اور حریت رہنماؤں کے علاوہ بھارت نواز لیڈروں محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور سجاد لون وغیرہ کو بھی گرفتار یا نظربند کر دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظالمانہ فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں دنیا بھر میں کشمیری سمیت پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھارتی اقدامات کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ بھارت کے سر پر سال کے آغاز سے ہی جنگی جنون سوار ہے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں اور پھر اچانک فروری میں جنگی ماحول پیدا کرنے سے لے کر اب تک بھارت پیش پیش ہے۔ بھارت کشمیر میں داخلی و خارجی سطح پر اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے جعلی فوجی آپریشن کر سکتا ہے جبکہ ایسی کسی پرخطر کارروائی سے دونوں ایٹمی ممالک میں آگ بھڑک سکتی ہے۔

اؤ آئی سی اور عالمی برادری کو صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو کشمیری عوام کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں بند کریں۔ بندوق کی طاقت سے اکثریت پر اقلیت کا ظلم کئی قوموں کے زوال کا باعث بن چکا ہے یہ محض زمین کے ایک ٹکڑے کا جھگڑا نہیں ایک قوم کے مستقبل کا سوال ہے، اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ نہتے کشمیریوں پر کلسٹر بموں کے استعمال کا نوٹس لے اور ان اقدامات کا جائزہ لے۔

حکومت پاکستان کو اپنی سرحدوں کے دفاع کے لئے بھرپور اقدامات کے ساتھ یہ مسئلہ فوری طور پر سلامتی کونسل میں اٹھانے کی تدبیر کرنا چاہیے تاکہ کشمیری مسلمانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دلایا جائے۔ پاکستان ہر حالت میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم کشمیریوں کے لئے اسی طرح کھڑے ہو جائیں جیسے وہ پاکستان کے لئے کھڑے ہیں۔ کیونکہ نہ کشمیر ہم سے الگ ہے اور نہ اس کے بسنے والے پاکستانی اور دنیا بھر کے تمام مسلمان کشمیر کے ساتھ ہیں موجودہ حالات میں دہشت گردی کا یہ نیا سلسلہ انتہائی تشویشناک ہے اب تک بھارت ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے، بے شمار کو اندھا اور معذور بنا چکا ہے بھارتی فوجی کتنے نوجوان کشمیریوں کو گولیوں سے چھلنی کررہے ہیں اب عالمی طاقتوں کو ہمارے کشمیر کے حق میں اواز اٹھانی ہوگی اور بحثیت مسلمان ہم سب کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہے اور کشمیری عوام کو سالوں جاری اس ظلم سے بچانا ہوگا ضروری ہے کہ پاکستان ہر وہ حربہ استعمال کرے جس سے بھارت کو اندازہ ہو کہ اس نے جو حرکت کی ہے وہ اسے مہنگی پڑ رہی ہے اس وقت پوری قوم کا ایک آواز ہونا ضروری ہے کیونکہ سوال کشمیر کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).