پٹا مافیا، شعور اور آج کا نوجوان


گذشتہ ہفتہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مانسھرہ میں professors association for students services کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں emerging trends in social sciences میں جہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا وہاں بات پٹا مافیا کی ہوئی تو کچھ عجیب و غریب جھٹکے ہی نہیں بلکہ شدید گھٹن سی محسوس ہوئی۔ ویسے اس طرح کی کانفرنسز ہمارے سماج کے لیے ضروری ہے کیونکہ وہ سوالات جو کتابیں ہمارے ذہنوں میں چھوڑ جاتی ہیں ان کے جوابات مل جاتے ہیں، شعور حاصل کرنے کے لئے جدوجہد اور تیسرا بڑا فائدہ جس پر آج کا کالم لکھا جا رہا ہے انسان پٹا مافیہ سے بچا رہتا ہے۔

مختصرا اس طرح کی کانفرنسز میں بھوکے انسان کو مچھلی کھانے کو نہیں دی جاتی بلکہ مچھلی پکڑنا سکھائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پٹا کسے کہتے ہیں، یہ مافیاز کیسے کام کرتے ہیں، ان کو جاننا کیوں ضروری ہے اور مزید کے آج نوجوان نسل جتنے مسائل کو برداشت کرتی جارہی ہے شعور کی منزل سے دور ہوتی جارہی ہے اور اس میں پٹا مافیہ کا کردار کیا ہے؟

بدن میں روح ہو مگر آزاد رہنے کی چاہت نہ ہو۔ کیا ایسا ممکن ہے۔ آزادی ہر انسان کی چاہت ہی نہیں بلکہ قدرتی اور بنیادی حق بھی ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے عیاں ہیں کہ آزادی کی قیمت اتنی آسان نہیں رہی۔ آزاد رہنے کی خواہش میں ہر دور میں سر اٹھتے اور کٹتے نظر آئے۔ اور غلامی، تاریخ میں، غلامی کا ادارہ کیوں اور کیسے وجود میں آیا یہ تو ایک الگ موضوع ہے، مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ جو غلام بنانا جانتے تھے وہ وقت کے ساتھ ساتھ اس ادارہ کو نئی شکل بھی دیتے رہے۔

اور یہی وہ وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں کسی نہ کسی صورت میں غلامی نظر آرہی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں معاشرے کے سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی نظام کو سمجھنا نا بہت ضروری ہوتا ہے ہر معاشرہ میں دو طرح کی قوتیں کام کر رہی ہوتی ہیں۔ دونوں قوتیں بات انصاف، حقوق، شعور، بیداری اور آزادی کی کررہی ہوتی ہیں مگر ایک زنجیریں پہنا رہی ہوتی ہے اور دوسری زنجیریں کاٹ رہی ہوتی ہے۔ تاریخ میں جتنی بار بھی زنجیر پہنائی گئی اتنی ہی بار سر اٹھتے اور بغاوتیں نظر آتیں رہں ی ہیں۔

بغاوتیں جنم لیتی ہیں شعور سے اور شعور بیدار کرنے میں زنجیروں کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ مسلسل زنجیریں پہنے رہنے سے جسم پر پڑنے والے نشانات، زخم درد اور تکلیف سے یہ احساس پیدا ہوتا رہا ہے کہ انسانیت، آزادی اور مساوات قید میں ہیں۔ اور یہی بات کسی نہ کسی وقت یا کسی نسل میں بغاوت پیدا کرتی رہی ہے۔ اگرچہ آزادی کے لیے بغاوتوں کو بے دردی سے کچلا گیا مگر آزاد رہنے کا سوال زہر زمین وقفے وقفے سے شعور کی لہریں بیدار کرتا رہا۔

یہی زیر زمین شعور کی لہریں اسٹیٹس کو کے پاؤں زمین پر ٹکنے نہیں دیتی تھیں۔ یہی وہ خوف تھا جہاں زنجیروں کو پٹا کی جگہ استعمال کرنا شروع کیاگیا۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ ایک طرف آزادی کا شعور مساوات، انصاف اور حقوق کی بات کرتا رہا تو دوسری طرف انہی عناصر کی بنیاد پر زنجیروں کو نئے انداز میں پہنایا جانے لگا۔

پٹا کس کو ڈالا جاتا ہے یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں لیکن یہ جاننا اہم ہے کہ زنجیر زیادہ نقصان دے تھی کہ پٹا۔ زنجیریں جہاں تکلیف اور درد کا سبب بنتی تھی مگر پٹا ان کی نسبت زیادہ نرم اور صرف گلے کے گرد باندھا جاتا ہے۔ زنجیر کی نسبت تو یہ تھی ہی آزادی اور اسی آزادی نے کھایا شعور کیونکہ جہاں تکلیف اور درد نہیں وہاں شعور نہیں۔ زنجیروں میں ہاتھ پاؤں جکڑے ہوتے تھے تو یہاں آزاد۔ وہاں بھاری بھاری زنجیروں میں چلنے کی قدغن تو یہاں چلنے پھرنے کی آزادی ہی آزادی۔

وہاں زبانیں تو تھیں مگر۔ یہاں بولنے کی آزادی۔ مگر یہ آزادی۔ پٹا کی رسی اور کچھ ہاتھ۔ بولنا تو ہے مگر کیسے، کہاں اور کب، چلنے کی آزادی مگر کہاں تک، تعلیم کی آزادی مگر کس طرح کی تعلیم۔ اسی طرح اور کہیں آزادیاں، مگر وہاں تک جہاں تک پٹا کی رسی۔ آج ہماری نوجوان نسل اپنے آپ کو آزاد تو سمجھ رہی ہے مگر شعور سے دور ہے۔ تو جناب والا اس نسل کی گردنوں میں پٹے ڈالے جا چکے ہیں۔ یہاں بولنے کی آزادی تو ہے مگر دلیل کی نہیں۔ یہاں بولنے کی آزادی تو ہے مگر سچ کہنے کی نہیں۔ یہاں چلنے کی آزادی تو ہے مگر حد کراس ہوئی، پٹے کی رسی کھنچ دی گئی۔ آج ہماری نوجوان نسل کی گردنوں میں کہیں برادریوں کے پٹے تو کہیں کسی نظریے کے پٹے، کوئی مسلک، فرقہ واریت کے پٹے میں نظر آ رہا۔

تو کوئی کسی سیاسی جماعت کا پٹا لیے گھوم رہا ہے۔ مگر شعور، انصاف، مساوات اور انسانیت۔

جب تک ہم ان پٹوں کو جاننے کی کوشش نہیں کریں گے اس وقت تک ہم آزادی کی اصل حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اور رہی بات کہ یہ پٹا مافیاز کون ہیں۔ تو ٹھہریے۔ میرے گلے کا پٹا۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).