ملزم لیگ ( نون غنہ ) بمقابلہ تَضحیک ِ انصاف


سیاسی جماعتوں کی با ہمی چپقلش، مخالفت اور الزام تراشی فطری عمل ہیں مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم کچھ زیادہ ہی نرالا ہوتا جارہا ہے۔ یہاں سیاسی قائدین، کار کنان، اور سپورٹران اخلاقی طور پہ اس حد تک گر چکے ہیں کہ کہ شاید ہی اُٹھ کر سنبھلنے کی تا ب لا سکیں۔ ہر کس و نا قص لا علم ہے کہ تماشا دیکھنے کے شائق خود تماشا بنتے ہیں۔ شومئی قسمت کہ اصولاً یہاں کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ سب مداحوں کے بے ہنگم، بے ُسرے اور دھینگا مشت گروہ ہی تو ہیں۔

جن کے ہاتھ باگ ہے نہ پاؤں رکاب میں۔ تاریخ سے واقفیت ہے نہ جغرافیے کا علم۔  خاص کر سوشل میڈیا کے مجاہدین اور مفسدین تو آ تش کے پرکالوں کو بھی مات دے چکے ہیں۔ جب راہنماؤں کا دہن ہی بگڑ جائے تو عوام کی زبانوں کی غلاظت کون روکے۔ کیونکہ بقول شخصے اللہ نے ہر بڑے آدمی کے حصے کے بے وقوف پیدا کر رکھے ہیں۔ گذشتہ چھ برس سے وطنِ عزیز میں بہت عجیب اور انتہائی غریب سیاسی کلچر پنپ چکا ہے۔ کل کی حزب اختلاف آج کی حزبِ اقتدار ہے اور کل کی حزب اقتدار آج کی حزب اختلاف ہے۔

جس نے جو بویا اب کاٹنے پہ مجبور ہے۔ جن کی عمرِ رفتہ قرضوں کے سہارے کٹی آج قرضوں کی بابت معترض ہیں اور کشکول پھیلانے اور ملک گروی رکھنے کی با توں پہ آگ بگو لہ ہوتے ہیں۔ زعمَِ شاہی میں اپنے سیاسی حریفوں کو پابندِ سلاسل کرکے انتقام کی آگ جلانے والے آج سیاسی انتقام کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ اداروں میں سیاسی مداخلت کو بامِ عروج پہ پہچانے والے اب سیاسی مداخلت سے نالاں ہیں۔ شہ خرچیوں، شو بازیوں اور تشہیری سیاست کے موجد آج پارسا بنے آوازیں اٹھاتے ہیں۔

کل کے بغل بچے آج کے لے پا لکوں پہ برستے ہیں۔ شاہانہ اندازِ زندگی و حکومت اپنانے والے اب دوسروں کی شان و شوکت سے تنگ کیوں ہیں؟  لوٹوں اور گھوڑوں کے مشاق اور کہنہ مشق تاجر اب اس تجارت سے ناراض کیوں ہیں؟ خلائی مخلوق کی روحانیت سے معمور دل آج اس روحانیت سے متنفر کیوں ہیں؟  یہی وجہ کہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کے مصدا ق سودوں کا نقد کاروبار جاری ہے۔ انہوں نے جو راستے اپنے لئے چنے، آج سیاسی مخالفین انہیں راہوں کے راہر و ہیں تو غم کیسا؟

یہی وہ نقطہ ہے جو محرم سے مجرم بنا دیتا ہے۔ اور شاید وہی نقطہ نون سے نون غنہ بناتا ہے کیونکہ جب ساری جماعت ہی اندر ہو تو پھر نون میں نقطہ کیسے ٹھہر سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکی داماں کی حکایت کے امین اور انصاف کی تضحیک کے حاملین ہیں۔ یہ گذشتگان کی لوٹ مار کو ابتری کا سبب گردانتے ہیں۔ چور ڈاکو کے ورد کے سوا کچھ کہنا اور کرنا نہیں آتا۔ جبکہ پچھتر فیصد جھک جانے والے سابقہ ڈاکوؤں کا لشکر لے کر نہ جھکنے والے ڈاکوؤں کے پیچھے لگے ہیں۔

اب علی باباؤں کے ساتھ بیس بیس چور بیعت ہیں۔ چپڑاسی وزیر اور ڈاکو سپیکر تک بنے ہیں۔ وزیروں اور مشیروں کا وہی جمِ غفیر ہے۔ اب حکومت امن پسند اور اپوزیشن مجاہد بنی بیٹھی ہے۔ آج حکومت کو شکوہ ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، باہر سے پیسے نہیں بھیجتے۔ ذرا پانچ سال پیچھے جائیے اور ایمانداری سے دیکھئے کہ عوام کو ٹیکس نہ دینے پہ کون اکسا رہا تھا؟ کون بجلی کے بلز سر عام پھاڑ رہا تھا؟ کون کہتا تھا کہ ٹول پلازہ نہیں دینا؟

بیرونِ ملک پاکستانیوں کو کون قائل کر رہا تھا کہ ملک میں پیسے مت بھیجو۔ چین، عرب ممالک اور پی ایس ایل کے خلاف کون بیان دیتا تھا۔ ہر وقت ملک جام کرنے اور بند کرنے کی دھمکیاں دینے والے اب حکو مت میں آ کے جان چکے ہوں گے کہ مذکورہ بالا اقدام کس حد تک مناسب یا غیر مناسب تھے۔ پورے پانچ سال احتجاج میں گزرے لیکن اب احتجاج ملکی ترقی کے لئے ضرر رساں ہے۔ صرف ڈی چوک والے دھرنے میں ریاست کا چونسٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

المیہ ہے کہ اپوزیشن میں ہر ایک کی ترجیحات مختلف کیوں ہوتی ہیں۔ ملکی سالمیت، معاشی ابتری اور گورننس کا کسی کو قطعاً دھیان نہیں۔ کیا اب مان لیا جائے کہ مہنگائی کا موجب کرپٹ حکمران ہیں۔ قرض لینا بے غیرتی اور بیرونی دورے ظُلم ہوتے ہیں۔ ا س جذباتی قوم کو مزید جذباتی بنا کر خیر کی امید عبث ہے۔ گھر گھر میں، گلی گلی میں اور شہر شہر میں سوائے لن ترانیوں اور گالم گلوچ کے کچھ نہیں رہا۔ اگر اس میکنزم سے انقلاب کی امید باندھی جارہی ہے تو اللہ ہی حافظ ہے۔ چند برس انتظار کریں، تاریخ حسب ِ سابق فیصلہ کر دے گی۔ کیونکہ ایسے انقلاب زمانے میں کئی بار آتے سمجھ لئے گئے۔ مگر درست فیصلے ہمیشہ تاریخ اور وقت نے ہی کیے ہیں۔ میڈیا، اپوزیشن یا حکومت نے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).