کیا آپ Celiac بیماری کے بارے میں جانتے ہیں؟


تیرہ اگست 2019 کو ہماری بلی الائزا نے ضرورت سے زیادہ ہل جل کر اپنے کچھ ٹانکے کھول لیے اور آج اس کو اور ٹانکے لگے اور وہ بلیوں ‌ کے ہسپتال میں ‌ داخل ہے۔ آج ہماری ایک بوڑھی مریضہ آئیں ‌ تو میں ‌ نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسی ہیں؟ کہنے لگیں، ہماری عمر میں ‌ کہیں بھی دکھائی دے جائیں تو اچھا ہی ہے! اور ہنسنے لگیں۔ وہ نہایت خوش مزاج انسان ہیں۔ بیمار ہوں یا نہیں ہمیشہ مسکراتی رہتی ہیں۔ جانے سے پہلے ایک چھوٹی سی نظم سنا کر گئیں جو یہ ہے۔

Lives of great men and women

All remind us we can make our lives sublime

And in departing

Leave our footprints on the sands on time!

کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون نے سیلیک کی بیماری کے بارے میں ‌ لکھنے کے لیے کہا تھا۔ ہمارے کئی مریضوں کو سیلیک بیماری ہے۔ یہ ایک آٹو امیون بیماری ہے جو ان لوگوں ‌میں ہوتی ہے جو اس کے جین لے کر پیدا ہوئے ہوں۔ ان افراد میں ایسی غذا کھانے سے جس میں ‌ گلوٹن شامل ہو، ان کی چھوٹی آنتوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ‌ ہر سو میں ‌ سے ایک فرد کو یہ بیماری لاحق ہے۔ امریکہ میں ‌ تقریباً ڈھائی ملین افراد کو سیلیک بیماری ہے۔ پاکستان کی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تقریباً دو ملین افراد کو یہ بیماری ہوگی۔ سیلیک بیماری کو بروقت تشخیص کرنا اور اس کا مناسب علاج کرنا اہم ہے۔ کافی لوگوں ‌ کو یہ بیماری ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں۔

سیلیک بیماری کا تعلق دیگر بیماریوں ‌ سے بھی ہے۔ کئی سال پہلے ایک صاحب کو دیکھا تھا جن کو بظاہر کوئی بیماری نہیں ‌ تھی۔ کسی ریسرچ میں ‌ حصہ لینے کی وجہ سے ان کا ڈیکسا اسکین کیا گیا جس سے یہ پتا چلا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ہڈیاں بھربھری ہوتی چلی جارہی ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہڈیوں ‌ کے بھربھرے ہونے کی بیماری زیادہ تر خواتین میں ‌ ہوتی ہے۔ ان کے سارے ٹیسٹ کیے تو سیلیک کی بیماری کا ٹیسٹ پوزیٹو آیا۔ سیلیک کی بیماری ہونے کی وجہ سے ان کی آنتیں ‌ درست سے غذآ جذب کرنے کے لائق نہیں ‌ تھیں جس کی وجہ سے کیلشیم اور وٹامن ڈی کی قلت پیدا ہوگئی اور اس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ہڈیاں ‌ بھربھری ہوتی چلی جارہی تھیں۔ یہاں ‌ ہم دیکھ سکتے ہیں ‌ کہ کس طرح‌ ایک بیماری دیگر بیماریاں پیدا کرسکتی ہے۔

کئی سال ہوئے ایک بوڑھی خاتون میں سیلیک کی بیماری کی تشخیص کی۔ سیلیک بیماری کا خیال میرے ذہن میں ‌ اس لیے آیا کہ وہ دھان پان سی خاتون تھیں ‌ اور ان کے وزن کے مقابلے میں ‌ تھائرائڈ کی ڈوز غیر معمولی طور پر زیادہ تھی۔ تشخیص کے بعد انہوں ‌ نے ایسی خوراک کھانا شروع کی جس میں ‌ گلوٹن نہ ہو۔ ایسا کرنے سے ان کی متلی ٹھیک ہوگئی۔ ان کو کوئی ایک سال سے مستقل متلی کی شکایت تھی جس کے کئی ٹیسٹ ہوچکے تھے اور کچھ دریافت نہیں ‌ ہوسکا تھا۔ اگر کسی مریض میں ‌ مختلف وٹامنوں کی کمی موجود ہو تب بھی سیلیک بیماری کا شبہ ہوسکتا ہے۔

جب سیلیک کی بیماری کے مریض گلوٹن والی خوراک کھائیں تو ان کا جسم اس کے خلاف مدافعتی نظام متحرک کردیتا ہے جس کی وجہ سے چھوٹی آنت متاثر ہوتی ہے۔ چھوٹی آنت میں ‌ موجود انگلیوں ‌ کی طرح‌ کی سطح سکڑنے لگتی ہے جس سے خوراک جذب کرنے کا رقبہ کم ہوجاتا ہے۔

سیلیک کی بیماری موروثی ہے یعنی کہ یہ خاندانوں ‌ میں ‌ پائی جاتی ہے۔ اگر کسی کے والدین یا بہن بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں ‌ کو سیلیک بیماری ہو تو ان میں ‌ اس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

سیلیک بیماری کسی بھی عمر میں ‌ ہوسکتی ہے۔ جب بھی لوگ ایسی غذا یا دوا کھانا شروع کریں ‌ جن میں ‌ گلوٹن ہو تو اس سے ان میں ‌ یہ بیماری پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر سیلیک بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو اس سے دیگر سنجیدہ بیماریاں ‌ پیدا ہوتی ہیں۔

جن افراد کو سیلیک بیماری ہو ان میں ‌ دل کی بیماری کا خطرہ دگنا ہوتا ہے۔ ان مریضوں ‌ میں چھوٹی آنت میں ‌ کینسر کا خطرہ بھی عام افراد سے چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جن سیلیک بیماری کے مریضوں ‌ کا علاج نہ کیا جائے ان میں ‌ دیگر آٹو امیون بیماریوں ‌ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جن میں ‌ ٹائپ ون ذیابیطس، ملٹپل اسکلیروسس، جلد کی بیماریوں، خون کی کمی، آسٹیوپوروسس، بچے پیدا نہ ہونا، مس کیرج، اور دماغی بیماریوں جیسے کہ دورے پڑنا یا درد شقیقہ شامل ہیں۔ سیلیک بیماری کے شکار بچوں ‌ میں ‌ اس کے نتیجے میں ‌ ہونے والی غذائی قلت سے ان کا قد بھی چھوٹا رہ سکتا ہے۔

اس وقت سیلیک بیماری کا صرف ایک علاج دستیاب ہے اور وہ تمام عمر کے لیے گلوٹن کے بغیر غذا کا استعمال ہے۔ جن لوگوں ‌ کو یہ بیماری ہو ان کو ان تمام غذاؤں سے پرہیز لازمی ہے جن میں ‌ گلوٹن موجود ہو جیسے کہ روٹیاں۔ گلوٹن کی معمولی مقدار سے بھی چھوٹی آنت میں ‌ انفلامیشن سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کلینک کے بعد

آج نارمن کی میئر بریا کلارک نے سٹی کاؤنسل میٹنگ میں 26 اگست 2019 کو نارمن میں ‌ خواتین کے برابر حقوق کا دن طے کیا۔ آج سے 99 سال پہلے 19 ویں ترمیم پاس ہوئی تھی جس کے مطابق تمام امریکی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ یہ راتوں رات نہیں ہوپایا تھا بلکہ اس کے پیچھے 70 سال کی جدوجہد کا ہاتھ تھا۔ سب خواتین کو کچھ کہنا تھا۔ میں ‌ نے یہ بیان دیا۔ ”میرا نام لبنیٰ مرزا ہے۔ میں ‌ نارمن ہسپتال میں ‌ اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ میں ایک نیچرالائزڈ امریکی شہری ہوں جو پاکستان میں ‌ پیدا ہوئی تھی۔ اور میں ‌ ووٹ ڈالتی ہوں۔ ”یہ سن کر حاضرین نے تالیاں بجائیں۔ لیکن ہماری جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ یاد رہے کہ خواتین کے حقوق حاصل کرنے میں ‌ کئی نسلیں ‌ لگ جاتی ہیں اور چھننے کے لیے صرف ایک۔ تعلیم، صحت، تحفظ اور انسانی حقوق ہی بہتر مستقبل کے ضامن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).