بول کہ لب آزاد ہیں تیرے!


کئی دن سے لکھنا چاہ رہی تھی لیکن مجھ سے لکھا نہیں جاتا، جیسے میرے لکھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی ہے۔ چاہوں تو بھی میرے پاس جیسے الفاظ ہی ختم ہو گئے ہیں۔

آج ہم سب پہ ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔ دل اور بھی بے چین ہو گیا۔ اداسی آسمان سے باتیں کرنے لگی تین سال سے میں زیادہ تر وقت اداس ہی رہتی ہوں۔ جب سے میں اپنی تحریر ارسال کرنے لگی ہوں میری بیماری بھی کچھ کم ہو گئی ہے، شاید میری تکلیف کا یہ ہی کسی درجے میں علاج ہے خیر آج جو تحریر پڑھی وہ معروف صحافی جناب عرفان صدیقی صاحب کا آرٹیکل ”قلم کو ہتھکڑی“ کے نام سے سلسلہ وار شایع ہو رہا ہے۔

اس تحریر میں جو درد، اذیت اور بے حساب دکھ ہے میں اسے سمجھ سکتی ہوں، جو حالت ان کی ببیٹی اور گھر والوں کی ہے وہ اچھی طرح جانتی ہوں۔ جیل کسٹڈی سے پہلے ریمانڈ کے وقت جو اندھیرا ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اس اذیت سے گزرا ہو۔ کیوں کہ جب گھر کا ایک فرد کسی جرم کے بنا جیل چلا جاتا ہے تو جو لوگ گھر پہ ہوتے ہیں وہ دراصل سائے کی مانند ہوتے ہیں جسم تو ان کے پاس ہوتا ہے لیکن روح جیل میں قید ہوتی ہے۔

پہلے پہل یوں لگتا ہے معاملہ تھوڑی دیر میں صحیح ہو جائے گا اور پھر چند گھنٹے دنوں میں اور دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہمدردی کرنے والے بھی ایک ایک کر کے چلے جاتے ہیں۔

جس وقت ہم پہ یہ آفت آئی میں نے اپنے بہت سے لکھنے والے دوستوں سے مدد طلب کی کہ کوئی تو کچھ لکھے کہ یہ ہم کس مصیبت کا شکار ہو گئے ہیں۔ لیکن سب نے اپنے دامن بچا لیے کہ کہیں ذلت کی کیچڑ ان کے لباس کو گندا نہ کر ڈالے۔

تقریباً ایک سال ہمارے خلاف میڈیا ٹرائل کے بعد ہم نے قلم کو ہتھکڑی سے آزاد کیا میں اور میرے بھائی ڈاکٹر فرحان کامرانی لکھنے لگے اورہم ان کی تحریر بھیجنے لگے۔ چونکہ وہ تاحال قید میں ہیں اس لیے ان کی تحاریر ہم ارسال کرتے ہیں۔

قلم وہ واحد ہتھیار ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ جب حسرت موہانی جیل میں تھے تو ان کے پاس کاغذ اور قلم تک نہ ہوتا وہ اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو ترتیب وار یاد رکھتے اور جیسے ہی انہیں کہیں کوئی کاغذ اور قلم ملتا ہو لکھ دیا کرتے۔ ان کا شہرہ آفاق شعر بھی جیل کی تکلیفوں پہ ہی ہے۔ ”ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی، اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی“

ابوالکلام آزاد نے پوری ایک کتاب جیل میں تحریر کر ڈالی۔ فیض احمد فیض کی بہت سی شاعری جیل کی ہے۔ یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔ لیکن جو کچھ ہم اس جدید دور میں دیکھ رہے ہیں یہ اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔

میری اور میرے بھائی کی تحریروں کو مسلسل کراچی سٹی کورٹ اور ہائی کورٹ میں جمع کروایا جاتا ہے کہ ہم شر پسند ہیں ہم اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کرنے کا جرم کر رہے ہیں۔ ایک شخص جو جیل میں ہے انڈر ٹرائل ہے اس کی تحریریں مسلسل شائع ہو رہی ہیں، اور اس پہ بحث بھی کی جا تی ہے کہ یہ شخص ایک عادی مجرم ہے جو جیل سے ایک ریکٹ چلارہا ہے اس کے مجرم ہونے کا ثبوت اس کے شائع شدہ آرٹیکل ہیں اور پھر میرے تحریر کردہ مضمون ملزم کی شراکت کار بہن کے طور پر جمع کروائے جاتے ہیں

دوران بحث یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جس کی تحاریر کہیں بھی شائع نہیں ہوتی وہ ”ہم سب“ نام کی ایک ویب سائٹ پہ شائع ہو جاتی ہیں۔ اس بنیاد پہ جو اخبارات ڈاکٹر فرحان کی تحاریر شائع کر رہے ہیں انہیں نوٹس بھیجے جاتے ہیں۔

اور اس تمام معاملے میں سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ایک ایسا ادارہ لگا ہوا ہے جو فیض کے شعر کی بنیاد پر اپنے آپ کو آزادی اظہار کا سب سے بڑا دعویدار بھی گردانتا ہے۔

مسلسل اپنے اور اپنے بھائی کے آرٹیکل کورٹ میں جمع ہونے سے اس بات کا ثبوت مل گیا ہے کہ ہمارے قلم بھی ہتھکڑی سے بندھے ہوئے ہیں اور جیسے جناب عرفان صدیقی صاحب پر ایک نہایت ہی بھونڈے اور جعلی کیس میں پندرہ روز کا ریمانڈ ہو سکتا ہے اور پھر سزایافتہ قیدیوں کے ساتھ اڈیالہ جیل میں دری پہ بنا تکیہ کے تیز روشنی میں رکھا جاسکتا ہے تو ایسے میں نوجوان معلم اور صحافی کو جھوٹے کیس میں مبینہ طور پر تھوڑی سی فارن ایڈ کی لالچ میں سزا بھی کوئی انہونی بات نہیں۔
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).