معاشرے میں بڑھتا ہوا خواتین کارڈ


ایک لمحے کے لئے اس بات کو سچ مان لیتے ہیں۔ مگر اسی بیوی کے بقول محسن حیدر ان کو ایک سال سے تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا تو ایک سال خاموشی کیوں؟ جو پریس کانفرنس اب کی وہ سال پہلے نہیں ہو سکتی تھی؟ بات تو ایک سال پرانی تھی تو الزام اب ایک سال بعد کیوں؟ یہ بات اب کہاں تک پہنچی؟ محسن حیدر نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ کاش کوئی این جی او مردوں کے حقوق کے لئے بھی ہوتی۔

ان دونوں خبروں میں کون سچا ہے اور کون جھوٹا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر سوشل میڈیا کی حد تک ہم محسن حیدر اور امام الحق دونوں کو مجرم قرار دے چکے ہیں۔

ان دونوں خبروں میں دو رائے کی ضرورت پیش ہی نہیں آئی کیونکہ مظلومیت کا نوبل ایوراڈ خاتون کے پاس ہے اس میں سراسر مرد قصوروار ہے۔ پہلے پہل عورت پہ ظلم کرتا ہے پھر خود اپنے ناپاک ارادوں سے اس کو مظلوم کہلواتا ہے۔ جدید زمانے کی عورت کہ اب فطرت بن چکی ہے کہ وہ ایڈوانٹیج لیتی ہے اسکا۔ انگریزی میں اک ٹرم ہے playing the victim جو بعض عورتیں کھیلنے میں خاصی طاق ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لڑکا / لڑکی، مرد/عورت کی لڑائی میں ہمیشہ قصوروار لڑکے کو ہی کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ کیا لڑکی قصوروار نہیں ہو سکتی؟ کیا لڑکی ہر غلطی سے مبرا ہے؟ ہم میں سے دودھ کا دھلا کون ہے۔ یہاں کون غلطی اور گناہ سے بیگانہ ہے؟ عورت کو یہ حق کس قانون نے دیا ہے کہ وہ جب چاہے کسی بھی لڑکے پر الزام لگا دے اور خواتین کارڈ استعمال کر کے سوشل میڈیا کو اپنا ہمنوا بنا لے؟

ہمارے ملک میں اس وقت خواتین کے حقوق کے لئے بے شمار این جی او کام کر رہی ہیں۔ کیا کوئی این جی او مردوں کے حقوق کے لئے کبھی کوئی کام کرے گی؟ یہی خواتین کے حقوق کے کام کرنے والی این جی اوز ایسے مسائل پر جلتی پہ تیل ڈالنے کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ اور تصویر کا ایسا رخ دکھاتی ہیں جو دیکھنے میں تسلی بخش اور حوصلہ افزا لگتا ہے مگر اندر سے اپکی جڑیں سوکھا دینے والا ہوتا ہے۔

میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ مرد کی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہو سکتا ہے کچھ جگہ پر مرد ہی قصوروار ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہر جگہ مرد ہی قصوروار ہو اور عورت ہر غلطی سے مبرا ہو۔ تالی بے شک دو ہاتھوں سے بچتی ہے پھر ایک ہی ہاتھ پر سارا الزام دھر دینا کہاں کا انصاف ہے؟

اب اس مسئلے کا حل کیسے نکالا جائے۔ اس کا حل مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہمیں سب سے پہلے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہو گا، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جب بھی کسی کا دل چاہا، منہ اٹھا کر سوشل میڈیا کے ذریعے دوسرے پر الزام لگا دیا۔ ہمیں اس ٹرینڈ کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی۔ سوشل میڈیا ان سکرین شاٹس اور میمز پر پابندی لگائے جو کہ خاص کسی انسان کہ نفس کشی کرتی ہوں۔ سوشل میڈیا اپنا رپورٹنگ سسٹم درست کرے تاکہ بروقت اس پہ عمل ہو سکے۔

ہمیں لڑکے اور لڑکی کے درمیان بے تکلفی اور ہراسمنٹ کے درمیان فرق کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہر وقت مرد قصوار نہیں ہوتا کبھی کبھار غلطی عورت کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔ ہم بنا کچھ سوچے سمجھے یہ کیسے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ عورت معصوم ہے وہ غلط ہو ہی نہیں سکتی؟ اس سوشل میڈیا پہ ہونے والے واقعات کا عدالتیں ازخود نوٹس لیں۔ سائبر کرائم ونگ ایسے کالے کرتوتوں کو چن چن کے لوگوں کے سامنے لائے تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہوکہ آئندہ بنا سوچے سمجھے کسی کو سکرین شاٹ کے ساتھ کھلونا نہیں بنانا۔

نا ہی خواتین کو اس کی اجازت دی جائے کہ وہ عورت کارڈ کو استعمال کر کے دوسرے کی عزت اچھال دے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف عورت ہی قابل عزت ہے تو یہ سراسر غلط ہے۔ ہمیں مرد کی عزت کا بھی خیال کرنا ہو گا، ۔ اللہ نے ہمیں برابر کے حقوق کے ساتھ پیدا کیا ہے کیوں نا ہم اس کے فیصلے کی تابعداری کر کے دکھائیں۔

مرد کی ذات بھی اتنی ہی قابل عزت ہے جتنا کہ عورت کی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا آپ جب چاہیں اسے بے عزت کر دیں۔ ہمیں اس خطرناک ٹرینڈ کی بھی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی۔ جہاں پر عورت غلط ہے ہمیں اسے غلط کہنا ہو گا۔ اگر وہ قصوروار ہے تو اسے قصوروار قرار دینا ہو گا۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے خواتین کارڈ کو کم کرنا ہو گا۔

عورت اور مرد ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہمیشہ ایک ہی پہیہ کی خرابی ہو۔ کبھی کبھار دوسرا پہیہ بھی خراب ہو سکتا ہے۔

رشتے وہی ہی کامیاب ہوتے ہیں جو باہمی عزت پر مبنی ہوں۔ رشتے نا تو جھوٹ کی بنیاد پر کھڑے رہ سکتے ہیں اور نا ہی بنا باہمی عزت کے پنپ سکتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ عزت کرو گے تو عزت پاؤ گے۔ اگر آپ عزت نہیں کریں گے تو آپ کی عزت کوئی نہیں کرے گا۔ آپ کی اپنی عزت آپ کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ آپ یا تو اپنے عمل سے اپنی عزت میں اضافہ کر سکتے ہیں یا جھوٹا الزام لگا کر کسی دوسرے کی عزت اچھال سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2