صوفی اور بولتی مورتیاں


عابدہ، جو کوئی چھ آٹھ سال پہلے پورے محلے کی بھابھی تھی۔ اب شوہر کے مرنے کے بعد۔ اپنی گیارہ سالہ بچی کو کھلانے اور اسکول بھیجنے کے لیے جسم کا کاروبار کرتی تھی۔ محلے والوں کو، خاص طور پر عورتوں کو اس سے نفرت تھی۔ کئی بار مردوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ اسے محلے سے نکال باہر کیا جائے، مگر پھر کچھ لوگ اس کی بچی کا سو چ کر اس خیال سے باز آنے کی تاکید کرتے تھے۔ لگتاتھا عابدہ نے پورے محلے میں کسی کا گھر خراب نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔

شاید اسی وجہ سے عورتوں نے اس کے لئے حقارت اور نفرت کے باوجود مردوں کو اسے محلہ بدر کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ جب صوفی اتنے دنوں بعد نیا نیا محلے میں آیا تھا تو عابدہ اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئی تھی اور اپنائیت سے حال چال پوچھ کر گھر آنے کا کہا تھا۔ دل گرفتہ صوفی، چند روز بعد وہاں سے گزرا تو اس کا دل چاہا عابدہ کی خیریت پوچھ لے۔

عابدہ کے پاس قصوں کی پٹاری تھی۔ ہر بار اس کے پاس ایک نئی داستان ہوتی تھی سنانے کو۔ آج وہ اپنے اور اپنی بوا کے مقدروں میں مماثلت تلاش کرتے بولی، ”کسی کے بس کی بات ہے کہ اپنی پیدائش کا فیصلہ کرے کہ کس جگہ، کس گھر میں، کس شہر میں کب پیدا ہونا ہے۔ اب جو دنیا میں آگئے تو زندہ رہنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے نہ؟ بھلا بتاوٴ میں نے کبھی سوچا تھا، ایسی زندگی بھی جیوں گی؟ یہ پاپی پیٹ کا تنور سب کچھ کروا دیتا ہے، سچ بتا رہی ہوں۔

بندہ خود حیران پریشان رہ جاتا ہے۔ جب تک میرے میاں زندہ تھے، دو وقت کی روٹی ملتی رہی۔ اب جو میں نکلوں گھرگھر برتن مانجھنے تو کوئی کیا مجھے دے گا؟ خود جن کے گھر میں روٹی نہیں وہ مجھے مزدوری کیا دیں گے؟ الٹا گھر سے باہر رہوں گی تو میری بچی کی فکر میرا جینا وبال کر دے گی۔ سچ پوچھو تو میرے بچپن میں ہماری بوا جی کی کہانی ہمیں بہت ڈراتی تھی۔ کیا پتہ تھا ایک دن وہ میری کہانی بن جائے گی۔ اب بھی توبہ کرتی ہوں۔

پتہ نہیں آنے والا وقت کیا دکھائے گا آگے؟ آگے والے جہان میں تو جو ہو سو ہو، اس جہان کو بھوگنا مشکل ہے۔ مر تو آج جاوٴں، جینے سے کوئی ایسی محبت نہیں ہے مجھے۔ پر یہ لڑکی ذات کا ساتھ، قسم اس رب پاک کی، نیند میں بھی اس کا خیال رہتا ہے۔ کون سنبھالے گا میرے بغیر؟ دعا کرتی ہوں پڑھ لکھ لے اور نکل جائے کسی باہر کے ملک میں تو میں سکھ سے مر جاوٴں۔ ”

”یہ بوا جی کا کیا قصہ ہے؟ “ صوفی نے آہستہ سے پوچھا۔

”مت پوچھو تو اچھا ہے۔ “ عابدہ نے چھالیہ کترتے ہوئے جھرجھری لی مگر بغیر وقفے کے بولتی چلی گئی۔

”یہ ہجرت کی موت مری تھیں، پر بڑی دردناک۔ اللہ جانے کیسے اپنے کنبے سے بچھڑ گئیں اور کس ظالم کے ہتھے چڑھ گئیں جس نے ان کو بازار میں لا پٹخا۔ جب تک کما کے دیتی رہیں روٹی، کپڑا لتا، سرخی پاؤڈر، بواجی کو ملتا رہا۔ پھر اچانک ان کو کسی بیماری نے آن دبوچا۔ پہلے بواجی کو سانس کی تکلیف ہوئی۔ سینہ اچھل اچھل کر باہر آتا تھا۔ آرام سے سانس لینے کی کوشش کرتیں تو سانس رکنے لگتی۔ دن میں گاہکوں کو لینا مشکل ہوگیا۔

پہلے تو دلال نے سمجھا کچھ دن کی بیماری ہے۔ مگر جب سلسلہ لمبا ہو گیا تو وہ عاجز آگیا۔ گالیوں، کوسنوں اور بد دعاوٴں سے کام نہ بنا تو چابک اٹھا لیا۔ بواجی ہاتھ باندھے، رو رو دہائیاں دیتیں مگر ظالم باز نہ آتا۔ مشکل یہ بھی تھی کہ بواجی کے گاہک دوسری عورتوں کے پاس نہ جاتے تھے۔ پہلے تو بواجی۔ چند ایک گاہکوں کی خوشامد کرکے۔ اپنی باتوں سے ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔ مگر کب تک۔ جلد ہی سارے عاشق بھاگ گئے۔

بیماری اب ان کی شکل پر بھی دکھنے لگی تھی۔ دائیں آنکھ اور دایاں گال لٹک سے گئے تھے۔ آخر کار بواجی کے دائیں بائیں اور آدھے جسم پر پردہ ڈال دیا۔ بس نچلا دھڑ ہی نظر آتا تھا۔ بواجی کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر گاہک بلائے جاتے۔ وہ اپنی من مانی کرتے۔ پھر دلال سے جھگڑتے کہ منہ دیکھیں گے۔ ایک نے تو دلال کے منہ پہ پیسے یہ کہہ کر دے مارے کہ سالے لاش سے کرواتا ہے۔ نہ آواز نہ سسکاری۔ پیسے دیتے ہیں، مفت میں کرتے ہیں کیا۔

بس اس دن تو۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ بستر میں پڑی بواجی کو ان کے لحاف سمیت باہر لا پھینکا۔ پتا نہیں نیم کا درخت تھا۔ یا کوئی اور۔ ۔ رو ڈ پر آگئیں بواجی۔ دلال بولا۔ کب تک کوئی لاش کو رکھتا ہے گھر میں؟ اور میرے کس کام کی، جگہ الگ گھیرتی ہے۔ روٹی الگ مانگتی ہے اور ایسا موذی مرض دوسری لڑکیوں کو لگ گیا تو۔

بس پھر کوئی قریب نہ آیا۔ نہ گاہک۔ نہ دلال۔ اور نہ کوئی اور۔ کہتے ہیں موذی مرض آدھا چہرہ کھا گیا تھا ان کا۔ بہت ڈراؤنی ہو گئیں تھیں بوا جی۔ پر جسم اب تک جوان تھا۔ مگر کیا فائدہ۔ ۔ ۔ ”

”تمہیں کیسے پتہ چلا یہ سب؟ “

”بواجی کو ڈھونڈنے نکلے تھے ہمارے خاندان کے مرد، جب آزادی مل گئی تو۔ سب کو پتہ تھا کہ مری ہوئی جوان لڑکیاں کسی کنویں اور زندہ کسی چکلے کے مرگھٹ میں ملیں گی۔ تو ایک ناری جو بواجی کے ساتھ ہی پکڑی گئی تھی اور اب وہاں ہی رہ رہی تھی اس نے ساری کتھا سنائی کہ بواجی کہتی تھیں، آزادی کے بعد کوئی ہمارا پوچھنے آجائے تو بتا دینا مقدر میں کیا لکھا تھا۔ “

”تو اسے کیسے پتہ چلا کہ کہ وہ تمہاری بوا تھیں؟ “

”تصویر جو لے کے گئے تھے ہمارے ابا اپنے ساتھ، اپنی بہن کی۔ جھٹ پہچان لیا اس نے تصویر دیکھتے ہی۔ “

” سب کہتے تھے بواجی بہت ہی حسین تھیں۔ جو دیکھتا تھا مبہوت ہو جاتاتھا۔ “

”تمہارے جیسی؟ “ صوفی نے پوچھا۔

”ارے ہم کہاں۔ ہم کہاں کے حسین! “ ہلکے گلابی رنگ کا سایہ سا عابدہ کے گالوں پر لہرا گیا۔

”یہ۔ یہ۔ ذرا دیکھنا۔ مڑ تڑ گئی ہے۔ پر ابھی تک ہم نے سنبھال کے رکھی ہے۔ دیکھو ذرا۔ بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ تھا۔ رنگین تصویر تو ان کی کوئی ملی نہیں، یہ بھی امی کے بٹوے میں رکھی رہ گئی تھی کسی طرح۔ کام کا سامان تو بہن بھائیوں نے رکھ لیا۔ یہ تصویر ادھر ادھر سے گھوم گھام کر ہماری طرف آگئی۔ ہمارے نصیب کی طرح۔ “

اس نے چائے کے برتن سمیٹتے ہوئے اسے ایک تصویر تھمادی۔

درمیان سے تہہ لگانے کی وجہ سے تصویر کے موٹے کاغذ پر لائن آگئی تھی۔ مگر چہرہ اور جسم واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ صوفی حیرت زدہ سا تصویر دیکھتا رہ گیا۔ کمر تک کھلے گھنگھریالے بال، خلا میں لکھا مقدر پڑھتے ہوئے دو حسین نمناک، خواب آگیں آنکھیں۔ تصویر کو مکمل کرنے کی خواہش نے صوفی کی انگلیوں میں اضطراب بھر دیا۔ اس نے انگلیوں کی تپائی پہ تصویر بچھا کرکے اس کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ جتنا وہ پھٹی ہوئی تصویر کے اوپر چڑھے باریک مہین پردے جیسے کاغذ کو قریب کر تا اتنا ہی اسے اپنے ادھورے پن میں رنگوں کے لا متناہی سلسلے کے کی آمد کا احساس ہوتا۔

دوسری صبح ساری مورتیاں اس سے باتیں کرنے کو بے چین تھیں۔ مٹی میں مسکراتی شبیہہ نہایت دلپذیر تھی۔ پرنور چہرہ، ایسی ستواں ناک جو اس کے خواب میں آتی تھی، ماتھے پر بندی، کمر پر بکھرے خوبصورت بالوں کے لچھے، انگ انگ میں لوچ، ساڑھی کے پلو پہ بکھری پھول پتیاں اور ان کے دلآویز کٹاوٴ۔ زمانوں بعد مٹی میں زندگی لوٹ آئی تھی۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4