مانی بابا کس کا بیٹا تھا؟


مولوی تمیزالدین اس وقت فجر کی تیاری کر رہے تھے جب کسی نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ ”یا اللہ خیر! اس وقت کون ہو سکتا ہے؟ “ انہوں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ سردیوں کے دن تھے اور ایسے میں کسی کا اتنی سویر میں دستک دینا حیران کن تھا۔ ان کی بیگم اور تینوں بیٹیاں وضو کر چکی تھیں۔ مولوی صاحب نے مسح کیا اور دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ دروازہ کھولا تو باہر کوئی نہیں تھا۔ بہت بے مزا ہوئے۔ کیا کسی نے شرارت کی ہے مگر میرے ساتھ شرارت کرنے کا کوئی کیسے سوچ سکتا ہے۔ اس محلے میں ایسی جرات کون کر سکتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں سوچتے ہوئے دروازہ بند کرنے لگے تو اچانک نگاہ نیچے پڑ گئی۔ ان کے سر پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

دہلیز کے پاس چھوٹے سے کمبل میں لپٹا ایک نومولود بچہ پڑا تھا۔ وہ نیم خوابیدہ حالت میں تھا۔ چند لمحوں کے لئے تو انہیں سمجھ نہ آیا کہ کیا کریں۔

”لاحول ولا قوۃ“ ان کے منہ سے غم و غصے سے بھری آواز نکلی۔

”باہر کون ہے مولوی جی! آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں؟ “ ان کی بیوی کی آواز سنائی دی۔ ”خود آ کر دیکھ لو“ مولوی صاحب کی بیوی نے آ کر دیکھا تو ہکا بکا رہ گئی۔

”سنیے! یہ کس کا بچہ ہے؟ “

”تم تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے اسے یہاں چھوڑنے والا مجھے بتا کر گیا ہے“ مولوی صاحب نے تلملا کر کہا۔

ان کی بیوی آگے بڑھ کر اسے اٹھانے لگی تو مولوی صاحب گرج کر بولے۔ ”خبردار! اسے ہاتھ مت لگاؤ، پتہ نہیں کس نے اپنے گناہوں کا پھل یہاں رکھ دیا ہے“

”مگر مولوی جی اسے یہیں چھوڑ نہیں سکتے، بے چارہ مر جائے گا“

”ہوں۔ بات تو یہ بھی ٹھیک ہے“ مولوی صاحب کے منہ میں جیسے کونین کی گولی گھل گئی تھی۔

”چلیں یہ بعد میں سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے ابھی اسے اٹھا کر اندر تو لے جاؤں۔ کوئی حل نہ ملا تو ایدھی سنٹر میں بھجوا دیں گے“

مولوی صاحب خاموش رہے۔ ان کی بیوی نے خاموشی کو نیم رضا مندی جانتے ہوئے بچے کو اٹھا لیا اور اندر لے گئیں۔ مولوی صاحب مسجد کی طرف چل پڑے۔

اس دن فجر کی نماز کے بعد انہوں نے نمازیوں کو روک لیا۔ وہ یہ معاملہ سب کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے گھمبیر لہجے میں اس واردات کی تفصیل بتائی۔ سب کے چہروں پر گہری تشویش تھی۔ وہ ایک دوسرے سے دبی دبی آواز میں بات کرنے لگے۔ مگر ایک شخص ایسا تھا جو بجائے متفکر ہونے کے کسی قدر خوش نظر آ رہا تھا۔ اس کا نام مقبول حسین تھا۔

مقبول حسین کی بیوی منیزہ نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگ رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو توقع کے مطابق مقبول حسین ہی تھا مگر اس کی گود میں بچے کو دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی۔ ”یہ کس کا بچہ ہے؟ “

”مجھے اندر تو آنے دو، سب بتاتا ہوں“

مقبول حسین نے ساری روداد سنائی تو منیزہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

”لگتا ہے اللہ نے میری دعائیں سن لیں۔ آپ کو پتہ ہے میں ابھی یہی دعا مانگ رہی تھی کہ اے اللہ تیرے خزانے میں تو کوئی کمی نہیں۔ تو مجھے اولاد دے سکتا ہے۔ دیکھیں کیسے دعا پوری ہوئی ہے“۔

منیزہ نے بچے کو اپنی گود میں اٹھایا تو جیسے برسوں کی پیاس بجھ گئی۔ اتنا سکون ملا کہ وہ فوراً اللہ کا شکر ادا کرنے لگی۔ بچہ اس کی گود میں آکر پرسکون تھا۔ وہ اپنے ننھے منے ہاتھوں کو چوس رہا تھا۔

”ارے اسے بھوک لگی ہے۔ ذرا جلدی سے جائیے اس کے لیے دودھ لے آئیں“

”ہاں جاتا ہوں۔ اس وقت دکانیں بھی نہیں کھلی ہوں گی“

مقبول حسین کے جانے کے بعد منیزہ بچے کو پیار کرنے لگی۔ مقبول حسین اور منیزہ کی شادی بارہ سال قبل ہوئی تھی۔ ان بارہ برسوں میں مقبول حسین کے والدین پوتے پوتی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ خود منیزہ کے دل کا سب سے بڑا ارمان ماں بننے کا تھا مگر وہ کیا کرتی قسمت سے کون لڑ سکتا ہے۔ بیسیوں ڈاکٹرز سے علاج کروایا مگر گود ہری نہ ہوئی۔ آج اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سچ مچ ماں بن گئی ہو۔

اس دن کے بعد مقبول حسین اور منیزہ کی روکھی پھیکی زندگی رنگوں سے بھر گئی۔ مقبول حسین ایک دفتر میں کلرک تھا۔ آمدن تو زیادہ نہیں تھی مگر وراثت میں ان کو یہ گھر ملا تھا۔ ان کا گزارہ ہو رہا تھا اور وہ اس حوالے سے مطمئن تھے۔ ان کے گھر میں پہلے خاموشی کا راج ہوتا تھا۔ منیزہ بھی زیادہ باتیں کرنے کی عادی نہیں تھی۔ شام کو وہ ٹی وی آن کر لیتے اور سونے تک چپ چاپ ٹی وی دیکھتے رہتے تھے۔ بچے کے آنے سے سب کچھ بدل گیا تھا۔

منیزہ بچے سے ہر وقت باتیں کرتی رہتی تھی۔ مقبول حسین کو اب پتہ چلا کہ منیزہ کتنی باتونی ہے۔ اب تو اسے ٹی وی دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔ مقبول حسین خود بھی بچے سے کھیلتا تھا۔ اس کے لیے نت نئے کھلونے لے کر آتا تھا۔ انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر بچے کا نام ایمان رکھا تھا۔ ایمان مقبول مگر وہ پیار سے اسے مانی بابا کہتے تھے۔

ایک شام منیزہ نے فیڈر میں دودھ بنا کر مانی کو دیا تو اس نے تھوڑا سا پی کر باقی چھوڑ دیا۔ منیزہ نے سوچا کہ شاید اسے بھوک نہیں ہے۔ مانی سو گیا تھا پھر جب دس بجے اس نے مانی کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا تو اوسان خطا ہو گئے۔ مانی کا جسم گرم تھا اسے تیز بخار تھا۔ اس نے فوراً مقبول حسین کو بتایا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ افراتفری کے عالم میں وہ گھر سے نکلے اور ایک رکشے میں بیٹھ کر اپنے ڈاکٹر کے کلینک پر پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب گھر جا چکے تھے۔ مقبول حسین نے فوراً انہیں فون کیا۔ انہوں نے فون نہ اٹھایا۔

مانی کا بخار بہت تیز تھا اس کی حالت بگڑ رہی تھی۔ منیزہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ کسی اور ڈاکٹر کی تلاش میں نکلے۔ بالآخر ایک ڈاکٹر صاحب ملے۔ انہوں نے بچے کو چیک کیا۔ اسے انجیکشن لگایا، دوائیں دیں۔ پھر مقبول حسین اور منیزہ کو دلاسا دیا کہ پریشان نہ ہوں۔ آپ کا بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔ منیزہ کی آنکھوں سے اب بھی آنسو بہہ رہے تھے اور مقبول حسین کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے دس پندرہ منٹ بعد تھرمامیٹر سے دوبارہ ٹمپریچر دیکھا پھر مسکراتے ہوئے بولا۔

”لگتا ہے یہ آپ کا اکلوتا بیٹا ہے“

”جی ہاں اور شادی کے بارہ برس بعد ہمیں ملا ہے“ مقبول حسین نے کہا۔

”تبھی آپ اتنے پریشان ہیں۔ فکر نہ کریں بخار کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ یہ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا، اب آپ اسے گھر لے جائیں اور دوائیں باقاعدگی سے دیتے رہیں“۔

مانی تو ٹھیک ہو گیا مگر منیزہ کو یہ پتا چل گیا تھا کہ مانی کو کھو دینے کا ڈر جان لیوا ہے۔ جیسے جیسے دن گزرتے تھے ان کی محبت بڑھتی جاتی تھی۔

مانی کو دیکھنے کے لیے محلے کے سب لوگ آئے تھے۔ ان کو مبارکباد بھی دی تھی اور ان کی نیکی کو بھی سراہا تھا۔ ان میں باقر صاحب اور ان کی فیملی، شاہد فیملی اور علوی فیملی سے ان کا زیادہ ملنا جلنا تھا۔ گلی کی نکڑ پر ذاکر صاحب کا گھر تھا۔ وہ عام طور پر کسی سے ملتے جلتے نہیں تھے۔ ان کی چار بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹا۔ چھ سال کا بیٹا سب سے چھوٹا تھا۔ وہ اکثر اس کی انگلی پکڑ کر گھر سے واک کرنے کے لیے نکلتے تھے مگر ان کی بیٹیاں کسی کے ہاں نہیں آتی جاتی تھیں۔ مانی جس دن ملا تھا منیزہ نے وہی اس کا جنم دن قرار دیا تھا۔ اب ایک سال پورا ہونے کو تھا۔ منیزہ اس کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منانا چاہتی تھی۔ چناں چہ انہوں نے برتھ ڈے پارٹی کا اہتمام کیا اور سب محلے داروں کو بلایا۔

ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ذاکر صاحب کی فیملی بھی محلے کے کسی پروگرام میں شریک ہوئی ہو۔ ذاکر صاحب نے تو مقبول حسین سے رسمی سی ملاقات کی مگر ان کی بیوی ساجدہ اور بڑی بیٹی شاہدہ منیزہ سے اچھی گپ شپ کرتی رہیں۔ منیزہ نے مانی کا ہاتھ پکڑ کرکیک کاٹا، مبارک باد کا شور اٹھا۔ مقبول حسین نے سب کے لیے کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ سب بہت خوش تھے۔

اس دن کے بعد ذاکر صاحب کی بیوی اور بیٹیاں بھی منیزہ کے گھر آنے لگیں۔ وہ منیزہ سے گپ شپ لگاتیں اس کے کام میں اس کا ہاتھ بٹاتیں۔ ایک دن علوی صاحب کی بیوی ملنے آئی تو مقبول حسین بھی گھر پر تھا۔ وہ دوسرے کمرے میں بیٹھا کوئی دفتری کام کر رہا تھا۔ ذاکر صاحب کا ذکر آتے ہی وہ چونک اٹھا۔

بیگم علوی کہہ رہی تھیں۔ ”منیزہ بہن آج کل ذاکر صاحب کی بیوی اور بیٹیوں کا آپ کے ہاں کافی آنا جانا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا تو نہیں لگ رہا مگر ان سے دور ہی رہنا چاہیے“

منیزہ چونک اٹھی۔ ”آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟ “

”بہن اب کیا کہوں، ذاکر صاحب کے بارے میں سب یہی کہتے ہیں کہ بڑے کرپٹ آدمی ہیں۔ پہلے بھی دو تین نوکریوں سے اسی وجہ سے نکالے جا چکے ہیں اور میرے میاں بتا رہے تھے کہ اب جس فیکٹری میں کام کرتے ہیں وہاں بھی پیسے کی خرد برد میں ملوث ہیں، دیکھا نہیں کیسے روز نئی نئی چیزیں گھر میں لاتے ہیں“

”میرا واسطہ تو ان کی بیوی اور بیٹیوں سے پڑتا ہے، وہ تو بہت اچھے مزاج کی ہیں، رہی ذاکر صاحب کی بات تو بد گمانی اچھی بات نہیں، لوگ باتیں بنانے کے بھی تو ماہر ہوتے ہیں“ منیزہ نے کہا۔

بیگم علوی تو سمجھا بجھا کر چلی گئیں لیکن منیزہ کا دل نہیں مانتا تھا کہ ان لوگوں کو اپنے گھر آنے سے منع کریں۔ مقبول حسین بھی ساری باتیں سن چکا تھا۔ اس نے بیوی سے کہا کہ لوگ دو خاندانوں کے میل ملاپ سے جلنے لگتے ہیں۔ تم فکر نہ کرو وہ لوگ ان کو منہ نہیں لگاتے اسی لیے یہ ان کے خلاف ہیں ”

منیزہ کو بھی ایسا ہی لگتا تھا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ مانی بابا نے اب بولنا شروع کر دیا تھا۔ وہ توتلی زبان میں منیزہ کو ماما کہتا تو منیزہ کا دل خوشی سے بھر جاتا وہ اسے بازوؤں میں بھرتی بار بار چومتی۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا تو وہ نہال ہو جاتی۔

مقبول حسین بھی اسے دل سے پیار کرتا تھا۔ گلی کی نکڑ تک کوئی چھوٹی موٹی چیز لینے جاتا تو ہمیشہ اسے بازوؤں میں اٹھا کر ساتھ لے جاتا۔ بعض اوقات دور بھی جانا ہوتا تو اسے ساتھ لے جاتا۔ منیزہ منع کرتی کہ اسے گھر چھوڑ جاؤ تھک جاؤ گے۔ تب مقبول حسین کہتا، ’تم اصل میں یہ چاہتی ہو کہ اس سے ایک پل بھی دور نہ رہو لیکن میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اسے ساتھ لے کر جاؤں۔ اس لیے تھوڑی دیر صبر کرو اور یہ میرے لیے بوجھ نہیں ہے مجھے تو اسے اٹھا کر چلنے میں بڑا مزا آتا ہے ”

منیزہ مسکرا اٹھتی۔ اس طرح ان کے دن گزر رہے تھے۔ مانی بابا نے چلنا شروع کر دیا۔ اب وہ باتیں بھی کرنے لگا تھا۔ دونوں میاں بیوی اس سے ڈھیروں باتیں کرتے۔

”مانی بابا آپ کس کے بیٹے ہیں، بابا کے ناں؟ “ مقبول حسین پوچھتا۔

”بابا کا“ مانی بابا کا جواب سن کر مقبول حسین کھل اٹھتا اور گردن اکڑا کر اپنی بیوی کو دیکھتا۔ منیزہ فوراً منہ بنا کر کہتی۔ ”آپ زیادہ خوش نہ ہوں، اس نے آپ کا دل رکھنے کو یہ جھوٹ بولا ہے، وہ میرا بیٹا ہے، بولو مانی بابا کس کے بیٹے ہو ماما کے بیٹے ہو ناں؟ “

”ماما کا“ مانی بابا جواب دیتا۔ منیزہ اترا کر مقبول حسین کی طرف دیکھتی۔ ”دیکھا! سن لیا جواب، اب تو مان جاؤ“

”اچھا بابا ٹھیک ہے“ مقبول حسین ہار مان لیتا۔

مانی بابا اب چار سال کا ہو چکا تھا۔ ایک دن ٹی وی دیکھتے دیکھتے منیزہ نے بڑی سنجیدگی سے مقبول حسین سے کہا۔

”سنیے! اب مانی بابا کو کسی اچھے سے سکول میں داخل کروا دیں“

”منیزہ! میں کئی دنوں سے مختلف سکولوں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا تھا۔ ایک دو دن میں تمہیں اور مانی بابا کو ساتھ لے جا کر سکول دکھاؤں گا“

”کل کیوں نہیں؟ ہم کل ہی جائیں گے“ منیزہ ایک دم جوش سے بھر گئی۔

”چلو کل ہی سہی“ مقبول حسین نے کہا۔

”ہمارا بیٹا سکول جائے گا۔ پڑھے گا۔ کتنا اچھا لگے گا سکول کا یونیفارم پہن کر“ منیزہ نے آنکھیں میچ کر کہا۔

”ہاں اور پھر ایک دن بڑا افسر بنے گا“ مقبول حسین کی آنکھیں سپنوں سے بھری تھیں۔

”ہائے افسر بن کر تو اور بھی پیارا لگے گا پھر میں اپنے بیٹے کی شادی کروں گی۔ بہت ہی خوبصورت لڑکی سے، بالکل پریوں جیسی“

”یہ تم کیا کہہ رہی ہو، صورت میں کیا رکھا ہے، سیرت دیکھنی چاہیے اور پھر پتہ نہیں خوبصورت لڑکی کیسی ہو گی“

”تو کیا اپنے بیٹے کی شادی کسی ایسی ویسی لڑکی سے کروں گی۔ لڑکی پیاری تو ہونی چاہیے“ منیزہ نے منہ بنایا۔

”آج کل بچے بڑوں کی بات کب سنتے ہیں، صاحب زادے کو عشق وشق ہو گیا تو تم ہاتھ ملتی رہ جاؤ گی اور مانی بابا کسی کو تمہاری بہو بنا کر گھر لے آئیں گے“ مقبول حسین نے کہا۔

”توبہ ہے، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، میرا بیٹا ایسا ہرگز نہیں ہے، وہ میری مرضی سے شادی کرے گا“

”سب مائیں یہی کہتی ہیں مگر جب عشق سر چڑھ کر بولتا ہے تو والدین کی آواز سنائی نہیں دیتی“ مقبول حسین نے کہا۔

”رہنے دیں، آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے اسے سچ مچ کسی سے عشق ہو گیا ہو“

”منیزہ یہ انٹرنیٹ کا دور ہے، لڑکے لڑکیاں سمندر پار بھی رابطے بڑھا لیتے ہیں، کوئی عجب نہیں کہ ہمارا بیٹا کسی گوری کے عشق میں مبتلا ہو جائے“

”ایسا تو میں ہرگز نہیں ہونے دوں گی، میرا بیٹا صرف اور صرف پاکستانی لڑکی سے شادی کرے گا“ منیزہ نے تیز لہجے میں کہا۔

”اس سے بھی پوچھا ہے؟ وہ کیا چاہتا ہے؟ “

وہ دونوں جس کی شادی کے سلسلے میں لڑ رہے تھے۔ وہ ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہا تھا۔ اب ان کے ٹی وی پر صرف کارٹون چینل ہی چلتے تھے کیوں کوئی اور چینل لگانے پر مانی روتا تھا اور اس کے آنسو وہ دونوں نہیں دیکھ سکتے تھے۔

اگلے دن شام کو ذاکر صاحب کی بڑی بیٹی شاہدہ آئی تھی۔ منیزہ اسے خوش ہو ہو کر بتا رہی تھی کہ وہ اس کے لیے سکول دیکھ کر آئی ہے اور کل اسے سکول داخل کروانے جائے گی۔ شاہدہ بھی بڑی خوش ہوئی۔ منیزہ اس کے لیے چائے بنانے چلی گئی۔ شاہدہ مانی بابا کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ چائے بنا کر اس نے لاؤنج میں جھانکا تو اسے حیرت ہوئی کہ شاہدہ مانی بابا کو سینے سے لپٹا کر بے تحاشا چوم رہی تھی۔ بچوں سے پیار تو سبھی کرتے ہیں مگر اتنی شدت سے پیار۔

”شاہدہ“ منیزہ نے اسے آواز دی تو وہ گھبرا سی گئی۔ منیزہ چائے لے آئی۔ چائے پیتے ہوئے وہ دونوں خاموش تھیں۔

منیزہ کو ماضی کے کئی واقعات یاد آ رہے تھے۔ اسے کچھ باتیں سمجھ میں آ رہی تھیں۔ شاہدہ اس سے ملنے نہیں آتی تھی۔ وہ مانی بابا کی خاطر آتی تھی۔ آج اسے سمجھ آ رہا تھا کہ کئی بار اسے جو شبہہ ہوا تھا وہ درست تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی وجہ کیا ہے لیکن اب وہ نہیں چاہتی تھی کہ شاہدہ اس کے گھر آئے۔ چائے پینے کے بعد اس نے شاہدہ سے یہ بات کہہ بھی دی۔ اس کا ردِ عمل حیرت انگیز تھا۔

ایسا لگتا تھا جیسے اس کی جان پر بن گئی ہو۔ وہ منیزہ سے التجا کرنے لگی کہ پلیز ایسا نہ کریں۔ مجھے اپنے گھر آنے سے منع مت کریں۔ وہ رو رہی تھی اور اس کے آنسو تواتر سے اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ منیزہ حیران تھی کہ ایسی کیا بات ہے جو یہ اتنا جذباتی ہو رہی ہے۔ اس نے سختی سے ایک بار پھر منع کر دیا۔

”پلیز پلیز پلیز مجھے اپنے گھر آنے دیں۔ میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں۔ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو میرے سر پر جوتے مار لیں لیکن اپنے گھر آنے سے نہ روکیں۔ میں مانی بابا کو دیکھے بغیر، مانی بابا کو پیار کیے بنا نہیں رہ سکتی اگر آپ نے مجھے اس سے دور کیا تو میں مر جاؤں گی“ شاہدہ رو رہی تھی۔

”کیوں ایسی کیا بات ہے، میں اپنے بیٹے کو ہرگز تم سے ملنے نہیں دوں گی“ منیزہ کو بھی غصہ آ گیا۔

شاہدہ جیسے تڑپ اٹھی۔ ”میں ملوں گی۔ ٹھیک ہے آپ نے اسے پالا ہے لیکن میں اس سے کیسے دور رہوں۔ میں اس کی ماں ہوں“

منیزہ کے کانوں میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا۔ اسے ایسا لگا جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔ زمین گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

”یہ تم کیا کہ رہی ہو؟ مانی بابا۔ تمہارا؟ “ وہ بات مکمل نہ کر سکی۔

”ہاں ہاں وہ میرا بیٹا ہے، میں ہی اس کی ماں ہوں، مجھ سے بڑی بھول ہوئی۔ کسی نے مجھے دھوکا دیا اورمیں نے اپنے ہی بیٹے کو دھوکا دے دیا۔ چار سال پہلے میں نے ہی اسے مولوی صاحب کے دروازے پر رکھا تھا۔ میری ماں تو اتنی سنگدل ہے کہ اس نے کہا تھا کہیں کچرے کے ڈھیر پر اس گناہ کی نشانی کو پھینک آؤ لیکن میں چار سال سے اس کی جدائی کی آگ میں جل رہی ہوں۔ ان چار سالوں میں کوئی رات ایسی نہیں جب مجھے سکون کی نیند آئی ہو۔

میں ہر پل تڑپتی ہوں۔ خود کو کوستی ہوں کہ یہ میں نے کیا کیا۔ مجھے سکون صرف اسی وقت ملتا ہے جب میں مانی بابا کو گود میں اٹھاتی ہوں، جب اسے اپنے سینے سے لگاتی ہوں۔ میں اب اور برداشت نہیں کر سکتی میں ٹوٹ چکی ہوں۔ دنیا مجھے جو چاہے کہے مگر میں چلا چلا کر کہوں گی کہ مانی میرا بیٹا ہے، مانی میرا بیٹا ہے ”

اتفاق سے اسی وقت مقبول حسین اندر آیا تھا۔ اس نے بھی یہ سن لیا۔ شاہدہ کو انہوں نے اپنے گھر سے نکال دیا مگر مصیبت تو آ چکی تھی۔ شاہدہ نے سارا محلہ اکٹھا کر لیا۔ لوگوں نے بڑی باتیں کیں مگر اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ چیخ چیخ کر کہتی تھی کہ مجھے میرا بیٹا چاہیے۔ اپنی بیٹی کی ایسی حالت دیکھ کر ذاکرصاحب اور ان کی بیوی بھی ذلت برداشت کرنے کو تیار ہو گئے۔ ہنگامہ بڑھ گیا تھا۔ بالآخر پنچایت بلا لی گئی۔ مولوی صاحب سر پنچ کی حیثیت سے موجود تھے۔ محلے کے چنیدہ افراد مقبول حسین کے گھر میں جمع تھے۔

بحث شروع ہوئی تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ ادھر منیزہ اپنے بیڈ روم میں کسی سہمی ہوئی کبوتری کی طرح بیٹھی تھی جس پر بلی جھپٹنے کے لیے تیار ہو۔ اس نے مانی بابا کو اپنے بازوؤں کے حصار میں لے رکھا تھا۔

کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد مولوی صاحب نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور فیصلہ سنا دیا۔

”بھائیو! میں نے دونوں اطراف کے دلائل سنے ہیں۔ شاہدہ اپنے گناہ کا اقرار کر چکی ہے اور اپنی غلطی پر بے حد شرمندہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منیزہ نے ماں بن کر بچے کو پالا ہے اور اس کا حق بہت زیادہ ہے لیکن ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس کی حقیقی ماں شاہدہ ہے۔ منیزہ کو اس کی نیکی کا اجر یقیناً اللہ کی طرف سے ملے گا مگر ہم ایک ماں کو اس کے بیٹے سے جدا کرنے کا گناہ نہیں کر سکتے لہٰذا بچے کو شاہدہ کے حوالے کر دیا جائے“

مقبول حسین یک دم برسوں کا بیمار نظر آنے لگا۔ اس کی کمر جھک گئی۔ سب لوگ چلے گئے تو وہ منیزہ کے پاس آ بیٹھا۔ آج اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔ منیزہ کی آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں دونوں بالکل خاموش تھے۔ وہ پنچایت کے فیصلے کے خلاف نہیں جا سکتے تھے۔

اگلے دن صبح منیزہ جیسے نئے عزم کے ساتھ اٹھی۔ اس نے مانی بابا کو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کرایا۔ پھر مقبول حسین سے فرمائش کی کہ کہیں گھومنے چلیں۔ وہ دوپہر تک مختلف پارکوں میں گھومتے رہے۔ آج مانی بابا نے جس کھلونے پر ہاتھ رکھا مقبول حسین نے اسی وقت خرید کر اسے دے دیا۔ انہوں نے ایک ریسٹورانٹ میں کھانا کھایا۔ پھر گھر آ گئے۔ شام تک وہ مانی بابا کے ناز اٹھاتے رہے۔ آخر وہ گھڑی آ گئی۔ مولوی صاحب کی سربراہی میں تین چار محلے دار آ گئے۔ وہ مانی بابا کو لینے آئے تھے۔ منیزہ اسے لے کر بیڈ روم میں گئی تھی۔ مقبول حسین اسے لینے کے لئے گیا۔ منیزہ سسک رہی تھی۔

”ماما! میں کہیں نہیں جاؤں گا، میں آپ کے پاس رہوں گا“ وہ اس سے لپٹ گیا۔

”نہیں بیٹے! تمہیں جانا ہو گا۔ میری بات مان لو، جاؤ بیٹا جاؤ“ منیزہ نے دیوانہ وار اسے چومتے ہوئے کہا۔ مانی بابا زور زور سے رونے لگا۔ مقبول حسین کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے دل پر پتھر رکھ کر اسے زبردستی اٹھایا اور باہر لے آیا۔

”خدارا اسے جلد لے جائیے، ورنہ ہم سے برداشت نہیں ہو گا“ وہ اس روتے ہوئے بچے کو اٹھا کر لے گئے۔ مقبول حسین کئی منٹ تک ساکت کھڑا رہا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی ٹانگوں میں جان نہ ہو۔ پھر ہمت کر کے وہ بیڈ روم کی طرف بڑھا تا کہ منیزہ کو تسلی دے سکے۔ منیزہ بستر پر لیٹی تھی۔ ”منیزہ۔ منیزہ۔ “ اس نے آواز دی مگر منیزہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ مانی بابا تو گھر سے گیا تھا، منیزہ دنیا سے جا چکی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).