احمد فراز: آخری مشاعرہ، آخری ملاقات


اگر آپ بناسکیں تو ٹھیک ہے ورنہ روم سروس کو آرڈر کردیں۔ کافی بنانے کے لیے پانی لینے جب میں واش روم میں گیا تو وہاں ان کے موزے گیلے پڑے ہوئے تھے جن سے پیشاب کی بو آرہی تھی اور شاید انہوں نے سکھانے کے لیے ڈالا ہوا تھا۔ میں نے کافی میکر میں پانی ابالنے کے لیے رکھا اور واپس جاکر ان کے موزے دھوئے اور اس خیال سے کہ رات کو مشاعرے میں جانے تک شاید یہ موزے سوکھ نہ سکیں تو کمرے میں رکھی ہوئی استری آن کر کے اسے سکھانے لگا۔

فراز صاحب نے کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی آواز لگائی کہ یار کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا موزوں پر استری کر رہا ہوں تاکہ جلدی سوکھ جائیں۔ کہنے لگے نہیں ’نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے میرے پاس دوسرے موزے ہیں‘ میں وہ پہن لوں گا۔ آپ بس ادھر آجائیں۔ میں نے اپنے اور ان کے لیے کافی تیار کی اور کچھ پاکستان کی سیاست کا ذکر چل نکلا۔ فراز صاحب پیپلز پارٹی کی اُس وقت کی سیاسی روش سے خاصے آزردہ تھے۔ کہنے لگے یہ وہ پیپلز پارٹی نہیں جو بھٹو کی پارٹی تھی۔

پھر خود ہی بتانے لگے کہ اس کے باوجود وکلا کے احتجاجی لانگ مارچ کے اختتام پر جو جلسہ اسلام آباد میں ہوا تھا اُس میں اس شرط پر میں نے شرکت کی تھی کہ جلسہ گاہ میں پیپلز پارٹی کے بھی جھنڈے نظر آنے چاہئیں۔ باتوں باتوں میں ان سے میں نے پوچھا کہ کیا پرویز مشرف صاحب اقتدارچھوڑ دیں گے تو انہوں نے پورے وثوق کے ساتھ کہا کہ ایسا آسانی سے ہرگز نہیں ہوگا۔ فوجی جب ایک بار اقتدار کا مزہ چکھ لیتا ہے تو پھر اس کا نشہ آسانی سے نہیں اترتا۔

اس موقعے پر انہوں نے جنرل ایوب خان کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا جو 1958 ء کے مارشل لا سے متعلق تھا۔ کہنے لگے اُس زمانے میں کراچی میں ملک اشرف ایک بڑے بزنس مین تھے ’ان کے بھتیجے یا بھانجے نے مجھے بتایا کہ ان دنوں جنرل ایوب خان نے ملک اشرف سے ایک میٹنگ کی اور اس سے کہا کہ حکومت کی نیت کچھ ٹھیک نہیں لگتی۔ وہ شاید اس بار میری ملازمت میں توسیع نہ کرے تو میں سوچتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کاروبار کروں۔

چنانچہ تم مجھے کوئی مشورہ دو۔ ملک اشرف نے کہا کہ کاروبار کے لیے تو سرمایہ درکار ہوتا ہے تم بتاؤ کہ تمہارے پاس کتنا سرمایہ ہے؟ ایوب خاں نے حساب کتاب لگا کر جس میں پراویڈنٹ فنڈ کی رقم اور دوسری جمع پونجی بھی شامل تھی سب گن کر بتایا تو کل رقم تقریباً چار ساڑھے چار لاکھ روپے بنتی تھی۔ (اس وقت یہ رقم بھی خاصی ہوا کرتی تھی) ملک اشرف نے کہا یہ پیسے تو بہت کم ہیں۔ کوئی فیکٹری ویکٹری تو نہیں لگ سکتی البتہ ان پیسوں میں ایک کاروبار ہوسکتا ہے جو آج کل بہت فائدہ مند ہے اور وہ کاروبار گارمنٹ ایکسپورٹ کرنے کا ہے۔

یورپ میں ہمارے ریڈی میڈ گارمنٹس کی بہت ڈیمانڈ ہے۔ ایوب خان نے کہا تو کیا میں کمانڈر انچیف بننے کے بعد اب کپڑے بیچوں گا؟ بات آئی گئی ہوگئی اور پھر کچھ ہفتوں یا مہینوں کے بعد ہی پاکستان میں ایوب خاں نے مارشل لا لگادیا۔ فراز صاحب کہنے لگے جب فوجی جنرل چھاؤنیوں سے نکل کر اقتدار کی چمک دمک دیکھتے ہیں تو ان کے دماغ خراب ہوجاتے ہیں۔ وہ ایوب خاں ہو ’یحیٰ خاں ہو‘ ضیا الحق ہویا جنرل مشرف ’اقتدار ملنے کے بعد سب ایک ہی طرح کے ہوجاتے ہیں۔

گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے ان سے ایک اور سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جب جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تو تمام رائٹ ونگ قوتوں نے جن میں جماعت اسلامی ’جمیعت علمائے اسلام‘ جمعیت علمائے پاکستان ’تمام مذہبی جماعتوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ‘ وکلا اور صحافیوں نے غرض یہ کہ جن جن کا بھی تعلق یا جن جن کے بھی نظریات دائیں بازو والوں سے ملتے تھے ان سب ری ایکشنری طاقتوں نے ضیا الحق کی کھل کر حمایت کی اور اپنے مقاصد کو آگے بڑھایا تو اگر اتفاق سے ایک جنرل خود اپنے ذاتی اقتدار کی وجہ سے یا بیرونی طاقتوں کے دباؤ کے تحت روشن خیالی کی باتیں کر رہا تھا تو لیفٹ ونگ فورسز نے اس کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو مضبوط کیوں نہیں کیا؟ اس پر فراز صاحب نے کہا کہ بھئی ہم لوگوں نے شروع میں تو اس کے لبرل خیالات کو سراہا تھا لیکن جلد ہی احساس ہوگیا کہ یہ سب کچھ بد نیتی کی بنیاد پر ہے تو ہم نے تو یہ کہہ کر اپنے اعزازات وغیرہ کو خود ٹھکرا دیا تھا کہ

اُس نے چاہت کے عوض ہم سے اطاعت چاہی

ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی

اس دوران کانفرنس میں شرکت کرنے والے کچھ ڈاکٹر صاحبان فراز صاحب سے ملنے آگئے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر اور ان کی بیگم فراز صاحب کو شام کے وقت ڈرنک اور کھانے کے لیے کہیں باہر لے جانا چاہتے تھے۔ مشاعرہ کمیٹی کے نگراں ڈاکٹر سلمان ظفر نے مجھے خاص طور سے یہ ہدایت کی تھی کہ فراز کو کہیں مشاعرے سے پہلے ڈرنک وغیرہ کے لیے کسی کے ساتھ نہ جانے دیں۔ چنانچہ اُن ڈاکٹر صاحب سے میں نے کہا کہ منتظمین مشاعرہ نے تمام شعرا کے کھانے کا اہتمام اسی ہوٹل میں کر رکھا ہے البتہ آپ کو پینے پلانے کا جو انتظام کرنا ہے وہ یہیں کمرے میں کردیں۔

ڈاکٹر صاحب بڑے بھلے مانس انسان نکلے کہنے لگے جناب ہم تو فراز صاحب کے قدموں میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں شراب و کباب تو صرف ملاقات کی ایک وجہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے کمرے ہی میں وہسکی کی ایک بوتل منگوالی اور تھوڑی دیر کے لیے فراز صاحب کاکمرہ ہی میخانے میں تبدیل ہوگیا اس لیے کہ زیادہ تر لوگ جو اُن سے ملنے آرہے تھے وہ ایک دو گھونٹ فراز صاحب کے نام پر ضرور پی رہے تھے۔ گھنٹے دو گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا اس دوران وہاں صرف اور صرف فراز صاحب کے شعر ہی فضا میں گونج رہے تھے مگر خود انہوں نے اپنا ایک بھی شعر نہیں سنایا۔ ہر شخص کو اُن کے کچھ نہ کچھ اشعار یاد تھے۔ غرض اسی قسم کی باتوں میں شام گزر گئی فراز صاحب بھی اپنا گلاس بہت آہستہ آہستہ خالی کر رہے تھے کہ یہ شغل ِ میکشی کا دور تھا ہوس ِ میکشی کا نہیں۔ مشاعرہ شروع ہونے سے کچھ دیر قبل ہم لوگ ہال میں چلے آئے۔

مشاعرے کی نظامت میرے ذمے تھی جبکہ اس کی صدارت احمد فراز صاحب فرما رہے تھے اور پروفیسر نارنگ اس مشاعرے کے مہمان خصوصی تھے۔ اس مشاعرے کی ایک دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ اس میں اعتزاز احسن نے بھی ایک شاعر کی حیثیت سے شرکت کی اور پورے مشاعرے میں اسٹیج پر بیٹھے رہے۔ شاید یہ ان کا پہلا بین الاقوامی مشاعرہ اور فرازصاحب کا تو یقیناًآخری مشاعرہ تھا۔ اعتزازصاحب کو جب دعوت ِ کلام دی گئی تو اس سے پہلے ہی وکلا تحریک کے ایک سرگرم رہنما کی حیثیت سے ان کی شخصیت کا جادو حاضرین پر چڑھ چکا تھا چنانچہ ان کا پرزور تالیوں میں استقبال ہوا اور انہوں نے اپنی طویل نظم میرا سفر سنا کر حاضرین سے خوب داد لی۔

آخر میں مشاعرے کے صدر احمد فراز صاحب نے اپنا کلام سنایا اور صرف میں نے ہی نہیں غالباً سب نے محسوس کیا کہ اب ان کے پڑھنے کے انداز میں وہ روانی اور وہ جوش و ولولہ نہیں تھا جو پہلے کبھی ہواکرتا تھا۔ جب انہوں نے اپنی مشہور نظم محاصرہ سنائی تو سینکڑوں بار پڑھی ہوئی اس نظم کے بھی کئی مصرعے وہ بھول رہے تھے لیکن ان مصرعوں کو سٹیج پر بیٹھے ہوئے دیگر شعرا اور حاضرین مشاعرہ دہرا رہے تھے۔ مشاعرہ تقریباً تین بجے صبح ختم ہوا اور وہاں سے فراز صاحب کونکلتے نکلتے اور لوگوں سے ملتے جلتے صبح کے چار بج گئے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3