احمد فراز: آخری مشاعرہ، آخری ملاقات


ہوٹل کے کمرے میں پہنچتے ہی فراز صاحب نے کہا کہ بھوک لگ رہی ہے لہٰذا سونے سے پہلے کچھ کھا لینا چاہیے۔ چنانچہ میں نے فون پر کھانے کی کچھ چیزیں آرڈر کردیں۔ ہم لوگ کھانے پینے سے فارغ ہوئے تو اچانک سورج کی روشنی سے پورا کمرہ جگمگانے لگا۔ نارنگ صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں تو شاعر حضرات ہیں اور شاعروں کی راتیں تو کالی ہوتی ہی رہتی ہیں مگر اب چل کر کمرے میں تھوڑی دیر سو لینا چاہیے کیوں کہ بارہ بجے چیک آؤٹ کا وقت ہے اور ا س وقت صبح کے ساڑھے چھ بج چکے ہیں۔ بمشکل تمام فراز صاحب سے اجازت لے کر ہم لوگ اپنے اپنے کمروں کی طرف روانہ ہوئے۔

ابھی میں اپنے کمرے میں بے خبر سو ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے فراز صاحب کہہ رہے تھے کہ بھئی ساڑھے دس بج چکے ہیں ابھی تک آپ سو رہے ہیں؟ بس تیار ہوکر فوراً ادھر آجائیں۔ ان کے کمرے میں جب پہنچا تو وہ اپنا سوٹ کیس پیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا اور ساتھ ہی ساتھ ان کو یاد دہانی بھی کراتا رہا کہ اگلے روز یعنی 03 جون پیر کے دن کینیڈین سفارت خانے میں انہیں ویزا لینے جانا ہے تاکہ وہ دو ہفتے کے بعد ٹورنٹو کے مشاعرے میں شرکت کرسکیں۔

ہم دونوں کے مشترکہ دوست ڈاکٹر عبداللہ نے وعدہ کر لیا کہ وہ فراز صاحب کو لے کر واشنگٹن کے کینیڈین سفارت خانے جائیں گے۔ ان کی پیکنگ مکمل ہوگئی تو میں نے کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ان سے رخصت ہونے کی اجازت لی۔ فراز صاحب اٹھ کر بہت محبت سے بغلگیر ہوئے اور کہنے لگے کہ بس میں بھی ڈاکٹر عطیہ کا انتظار کر رہا ہوں چیک آؤٹ کرکے انہی کے گھرچلا جاؤں گا پھر آپ سے فون پر رابطہ رہے گا۔ میں نیچے جا کر ہوٹل کی لابی میں گاڑی کا انتظار ہی کر رہا تھا کہ دیکھا فراز صاحب بھی اپنا سامان لے کر لابی میں آگئے۔

میں نے پوچھا کیا ڈاکٹر عطیہ آگئیں تو کہنے لگے نہیں بس آتی ہی ہوں گی میں کمرے میں اکیلا تھا سوچا نیچے آجاؤں۔ ان دنوں فراز صاحب اکیلے رہنے سے گھبرانے لگے تھے۔ وہ بزم آرائی کے شوقین تھے اورہردم اپنے لوگوں اور مداحوں کے درمیان ہی رہنا چاہتے تھے۔ بہت سے لوگ اکثر کہتے ہیں کہ آخر اس عمر میں فراز صاحب کو اتنا سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ یہی تو ان کی زندگی تھی۔ اچھی شامیں اور اپنی پسند کے لوگوں سے ملاقاتیں ان کی زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھیں۔ بہر حال ڈاکٹر عطیہ تو اس وقت تک نہ آ سکیں مگر ہماری ایر پورٹ شٹل آ گئی۔ ایرپورٹ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے ایک بار پھر ان سے گلے ملے مگر وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ثابت ہوگی۔

کینیڈا واپس پہنچنے کے بعد جب میں نے فون کیا تو فراز صاحب نے بتایا کہ وہ آج کینیڈین سفارت خانے گئے تھے مگر جب وہاں پہنچے تو اس وقت تک ویزا کاؤنٹر بند ہوچکا تھا اب کل صبح سویرے جاکر ویزا لوں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ کل تو پہلی جولائی کی وجہ سے کینیڈا ڈے کی چھٹی ہوگی لہٰذا آپ دوسرے روز 2 جولائی کوجائیے گا۔ مگر 2 جولائی کا پورا دن گزر گیا اور ان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ دوسرے دن 3 جولائی کو اُن سے فون پر بات ہوئی۔

میں نے ان سے ویزے کے بارے میں پوچھا تو فراز صاحب نے ہنستے ہوئے پورا قصہ سنایا۔ معلوم ہوا کہ ویزا لینے کے لیے جب کینیڈین سفارت خانے پہنچے تو ڈاکٹر عبداللہ نے انہیں بالکل دروازے پر اتارا اور یہ کہہ کر گئے کہ گاڑی پارک کر کے آتا ہوں۔ اس دوران فراز صاحب سیڑھیوں سے گر پڑے اور ان کے سر ’گھٹنے اور کہنی پر چوٹ آئی اور چہرے پر بھی کئی خراشیں پڑگئیں۔ ایمبو لینس بلوائی گئی اور انہیں اسپتال لے جا یا گیا۔ مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ اس وقت میرے پورے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں اب ایسی حالت میں تو میں مشاعرہ پڑھنے ٹورنٹو نہیں آسکتا بلکہ سوچ رہا ہوں کہ جلد از جلد گھر چلا جاؤں۔ مگر یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ جیسے ہی طبیعت بہتر ہوئی تو ٹورنٹو ضرور آؤں گا۔

ایک ہفتہ کے بعد اطلاع ملی کہ فراز صاحب تو بہت بیمار ہیں اور وہ شکاگو کے اسپتال میں داخل ہوچکے ہیں تو مجھے بالکل یقین ہی نہیں آیا۔ میرے حساب سے تو انہیں اس وقت پاکستان میں ہونا چاہیے تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ چونکہ ان کی سیٹ فوراً کنفرم نہ ہوسکی تھی لہٰذا وہ اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے پاس شکاگو چلے گئے جہاں ان کی طبعیت زیادہ خراب ہوگئی اور وہ اسپتال میں داخل ہوگئے۔ ان کے ایک گردے نے بالکل ہی کام کرنا چھوڑدیا تھا اوروہ ابھی آئی سی یو میں تھے ان کے انتقال کی خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

تصدیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ اب ان کے دوسرے گردے نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ کسی کو پہچان بھی نہیں رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس دوران فراز صاحب سے رابطے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ پھر پتہ چلا کہ 3 اگست کو وہ ٹورنٹو سے پی آئی اے کے ذریعے اسلام آباد جائیں گے۔

ٹورنٹو میں جب ایک ٹرمینل سے انہیں دوسرے ٹرمینل پر ایمبولینس کے ذریعے انہیں منتقل کیاجارہا تھا تو مجھے آخری بار انہیں ایرپورٹ پر دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ان کے ساتھ ایک نرس اور ان کے بیٹے شبلی فراز سفر کر رہے تھے۔ فراز صاحب کسی کو پہچان نہیں رہے ہیں مگر مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی جب اسٹریچر پر لیٹے ہوئے ان کی آنکھوں میں تھوڑی سی جنبش ہوئی اور انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے ا پنا ایک ہاتھ آہستہ سے اٹھایا۔ کچھ دیر تک وہ میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیے رہے جیسے کہہ رہے ہوں کہ اشفاق دیکھو میں نے ٹورنٹو آکر تم سے اپنا کیا ہوا وعدہ نبھادیا۔ یہ اپنے دور کے ایک بہت خوب صورت شاعر سے میری آخری ملاقات تھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3