میں، ہم سب اور جمعیت


اُسامہ ربانی آدم

\"usama-rabbani-adam\"بات جب ذاتی مشاہدات تک آپہنچے اور مشاہدات بھی وہ جو تیس چالیس سال پُرانے ہوں لیکن اُن کی بنیاد پر کسی تنظیم کا وجود ہی ناسور ثابت کرنا یا انہیں برائی کی جڑ ثابت کرنا ایسا ہے جیسا کہ انسان کی پیدائش کو بنیاد بنا کر اور نام نہاد مرچ مصالحہ لگا کر انسان کو غلیظ ثابت کرانا، لیکن مکالمہ تب ہب ہوتا ہے جب دلیل اور تاریخ کی بنیاد پر بات کی جائے وگرنہ مشاہدات رونما ہوتے رہتے ہیں بغیر یہ جاننے کی کوشش کئے بغیر کہ دوسری طرف کیا ہے۔

ویسے تو انسان جب سکول جانے لگتا ہے تو وہ اتنا باشعور نہیں ہوتا کہ نئے ماحول میں ایڈجسٹمنٹ اُس کیلئے کوئی ایشو ہو لیکن کالج میں داخلے کے وقت وہ ایکسائٹمنٹ سے لبریز ہوکر خوش بھی ہو رہا ہوتا ہے اور ڈر بھی ۔ ایسے ڈر اور خوشی میں مبتلا وہ طالب علم جب کالج کے اطراف اور دہلیز میں قدم رکھتا ہے تو اُس کا خوف شیر بن کر کھڑا ہوجاتا ہے اور بھلا کھڑا کیوں نہ ہو ، سامنے چند نام نہاد سینئیرز کھڑے ہوکر اپنی سنیارٹی کو بنیاد بنا کر جب فولنگ کر رہے ہوتے ہیں تو وہ طالب علم اپنے اُس دن پر تُف بھیجتا ہے جب اُس نے کالج میں داخلہ لیا تھا لیکن ایسے میں جمعیت کے چند نوجوان آ کر اُس ©”چوزے“ کو آذادی کا پروانہ تھما کر اُن سینئیرز کیساتھ سزا کے طور پر فولنگ کرتے ہیں تو ہمارے کچھ بڑوں کو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی لگنے لگتی ہے۔ اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جمعیت راہنمائے داخلہ کیمپس کے انعقاد، اُن نئے طلبہ پر گل پاشی کرنے، انہیں جمعیت کے تعارف والا پمفلٹ دینے کیساتھ ساتھ اُن کیلئے ویلکم پارٹیز کا انعقاد کرتی ہے۔ ویسے نقاد بھی یہ مانتے ہیں کہ جمعیت کے لوگ نئے طلبہ سے” جمعیت فارم“ فل کروانے کے جھنجٹ میں کبھی نہیں پڑی ہے اور آج سے تیس سال پہلے تو قطعاََ نہیں لیکن پتہ نہیں کہ ہمارے ایک محترم کو مانسہرہ میں یہ تجربہ کیسا ہوا ، سمجھ سے اتنا دور ہے جتنا سورج زمین سے۔

ہاسٹل کا تجربہ کسی بھی نئے کو کبھی اچھا نہیں لگا ہے ایسے میں کسی نئے کو ایسا کمرہ مل جائے جس میں کوئی جم کر بیٹھا ہو تو اچھا محسوس نہیں ہوتا ہے ہمارے ایک محترم نے اسے جمعیت کا ناظم بتایا ہے لیکن اگر موصوف واقعی میں جامعہ پشاور رہے ہو تو انہیں یہ پتہ ہونا لازمی ہے کہ یونیورسٹی میں ہر تنظیم کے کمرے ہوتے ہیں اور وہاں اُس تنظیم کے ناظم یا صدر کی اجازت کے بغیر وہ کمرہ الاٹ نہیں ہو پاتا لیکن اگر محترم نے یہ جان کر بھی صرف جمعیت کو ذاتی عتاب کا نشانہ بنیا ہے تو یہ ایک صحافتی خیانت ہے۔ ویسے خیانت تو یہ بھی ہے کہ تیس چالیس سال پہلے کی جمعیتی غنڈہ گردی تو یاد کی جاتی ہے لیکن اُسی پنجاب میں ایم ایس ایف وغیرہ کی دہشت گردی، زبان پر لانے کے روا نہیں حالانکہ جانے یا انجانے میں ایک محترم کے قلم سے اعتراف ہوا بھی کہ جمعیت کی مخالفت میں ایک مستقل پٹواری سابق سٹوڈنٹ لیڈر(پٹواری اُس قلمکار کا لکھا ہو اہے، تضحیک یا پیشہ دونوں ظاہر کر سکتا ہے) نے اُس وقت غنڈوں کی تربیت کیساتھ ساتھ اُن کو منظم بھی کیا تھا۔

کالج یا یونیورسٹی میں امتحانات کے بعد اگرچہ انتظامیہ کی یہ نیک روش رہی ہے نہ کھبی رہی تھی، کہ ٹاپ طلبہ و طالبات کو انعامات دے کر انکی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن یہ وہی جمعیت ہی ہے جس نے ©ٹیلنٹ ایوارڈ شوز، ٹیلنٹ فسٹا، رائزنگ پاکستان ایوارڈ، فخر پاکستان ایوارڈ“ کا انعقاد کرکے قابل طلبہ و طالبات کو انعامات دے کرحوصلہ افزائی کی۔ جاننے والے ایک قوم پرست سٹوڈنٹ لیڈر نے اپنے پہلے ٹیلنٹ ایوارڈ شو کے انعقاد کے بعد یہ اعتراف کیا کہ بغیر کسی پارٹی فنڈنگ کے جمعیت ہی ایسے پروگرامات منعقد کر سکتی ہیں ، یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔

میری سمجھ اب تک یہ سوچتے ہوئے ساتھ چھوڑ جاتی ہے کہ غنڈہ گردی میں بدنام زمانہ سمجھنے والی تنظیم کیسے کتاب کے کلچر کو فروغ دے سکتی ہے؟ انہیں تو اپنے ہتھیاروں، ڈنڈوں سے پیار ہونا چاہیے، بجائے کسی پبلشر سے رابطہ ہونے کے، ان کا رابطہ تو درے میں اسلحہ فیکٹریوں سے ہونا چاہیئے لیکن یہ کیا؟ یہ تو کتاب میلے منعقد کر رہی ہے، جامعہ پشاورجمعیت کا ’پیوٹا ہال ‘ میں کتاب میلہ، کراچی جمعیت کا ایکسپو سنٹر “ میں کتاب میلہ اور جامعہ پنجاب جمعیت کا کتاب میلہ تو پورے پاکستان میں زبان زد عام ہیں۔ اسکے علاوہ یوتھ فیسٹولز، سائنس اینڈ آرٹ ایگزبشن جیسی بڑی بڑی ایکٹوٹیز تو ان کے علاوہ ہیں۔ اب یا تو جمعیت کو غنڈہ تنظیم کہلانے والے جھوٹے ہیں یا خود غنڈہ گرد، خود سوچھئیے۔

ایک بات فرض کرتے ہیں کہ ایک بیس اکیس سالہ نوجوان جو طالب علم بھی ہو، کسی سے جھگڑا کرے، غلطی خواہ کسی کی بھی ہو، اُسے بھی مار پڑے اور دوسرے کو بھی۔اُس جھگڑے کو بنیاد بنا کر آپ اُسے غنڈہ گرد کہیں گے یا دہشتگرد؟ یقینا آپ اسے کچھ نہیں کہیں گے سوائے کچھ نصیحتوں کے ۔۔۔ تو پھر بتائیے! کہ جوش مارتی جوانیوں کے حامل نوجوانوں کی تنظیم، غلطی کے پتلوں والے انسانوں کی تنظیم کے چند واقعات(جس میں کھبی جمعیت حق بجانب ہوتی ہے کھبی مدمقابل، اپنی تو خیر لیکن جب بھی جمعیت کے نادان لوگوں سے غلطی ہوئی ہو، معافی مانگ لینے میں کھبی بھی تامل او ر شرمحسوس نہیں کی ہے) کو بنیاد بنا کر اس کو غنڈہ گرد اور دہشت گرد تنظیم کہلانے والے کتنے حق بجانب ہیں؟ دہشت اور تشدد کی بنیاد پر پھلنے والی تنظیمیں ، تحریکیں، نظریے بھلا کب لمبی عبر پاتی ہیں؟ 1949ءمیں قائم ہونی والی تنظیم نے کتنے نشیب و فراز دیکھے ہیں؟ ایوب کی آمریت ہو یا ضیاءکی آمریت(کچھ لوگ تو ضیا کو بھی جمعیت کا تربیت یافتہ سمجھتے ہیں لیکن تاریخ تو کہتی ہے کہ ضیاءنے ہی جمعیت پر پابندی لگائی اور جمعیت نے زیادہ مظاہرے ہی اس کے خلاف کئے ہیں۔ شائد اسلئے وہ پڑھائی جانے والی تاریخ کو جھوٹ سمجھ کر اپنا سچا تاریخ سکھاتے ہیں)، تحریک ختم نبوت ہو یا طلبہ یونین پر پابندی۔ جمعیت ہر جگہ سرخرو رہی ہے جبکہ جمعیت کے تاسیس کے پہلے یا بعد بننے والی تنظیموں کا نام و نشان تک نہیں(این ایس ایف اور ڈی ایس ایف بڑی مثالیں ہیں )۔ فیصلہ آپ کا!

پاکستان کے سرکاری کالجوں اور جامعات کی فیسیں تو ویسے بھی آجکل متوسط طبقوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے ایسے میں جمعیت کلاسز کو بند کر دیتی ہیں ہڑتال کیلئے تو بہت سے صاحبان اس کو اچھا نہیں دیکھتے،( ویسے اس ہڑتال کے بعد فیسوں میں کمی بھی کی جاتی ہے) ہا ں! جب اساتذہ اپنے مطالبات کیلئے کلاسز کا بائیکاٹ کر رہے ہوتے ہیں، یا وکیل اور کلرکوں نے ہڑتال کئے ہوتے ہیں، یا صحافی حضرات منظم کوریج نہیں دیتے تو پھر ©” اچھا یا بُرا‘ جائے بھاڑ میں۔

ہاسٹل میں کچھ دنوں بعد ہی کچھ لوگوں کا وارد ہونا اور ہسپتال کی چِٹی لئے مریض کیلئے خون ڈھونڈنے کیلئے کہنا میں نے جمعیت کی بدولت ہی دیکھا ہے۔ ایک دفعہ کافی تگ و دو کے بعد بھی بلڈؑ ڈونر نہیں مل سکا تو مجبوراََ اُس شخص کو دوسرے تنظیم کے کمروں میں بھیجنا چاہا تو اُس نے کہا کہ میرا تعلق اُس تنطیم کی سیاسی پارٹی سے ہے اور اُن کے کمرے میں سب سے پہلے گیا ہوں لیکن وہ کہتے ہیں کہ خون ڈھونڈنا ہے توجمعیت کے کمرے میں جاﺅ اُن کے پاس بلڈ ڈونرز کی لسٹیں ہوتی ہیں وہ بہت آسانی سے ڈھونڈ لینگے ۔ اب سوچھ رہا ہوں کہ شائد کچھ صحافی دوستوں کیساتھ ساتھ وہ تنظیم والے بھی سوچ رہے ہونگے کہ جمعیت اسلحہ ، ڈنڈوں سے مرمت کیساتھ مخالفین سے ڈرپ کے زریعے خون نکال کر اپنا ایمپریشن بہتر بنانے کیلئے لسٹ بناتی ہونگی۔ ہاں ایسا ہی سوچ رہے ہونگے۔ بھلا سوچ کا کیا بھروسہ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments