سیکولرازم مذہب بیزاری کا نام ہے…ڈاکٹر غزالہ قاضی صاحبہ کے جواب میں


john Esposito اس ضمن میں لکھتا ہے کہ

”اسلام شادی، طلاق اور وراثت سے متعلق خواتین کو وہ حقوق مہیا کرتا ہے جو دوسرے مذاہب اور معاشرے نہ دے سکے۔ حتی کہ مغرب آج بھی اس میں پیچھے ہے۔ “

ہارورڑ یونیورسٹی کی پروفیسر Annemarie Schemmel کے مطابق

” زمانہ قبل از اسلام سے موازنہ کیا جائے تو اسلامی قوانین خواتین کو بہت طاقتور بناتے ہیں۔ وہ اپنی دولت خواہ وارثتی ہو یا کاروبار سے حاصل شدہ اپنی مرضی سے استعمال کرسکتی ہیں۔

professor Robert N Bellah لکھتے ہیں کہ اسلام ساتویں صدی عیسوی میں ہی اس قدر جدید تھا کہ معاشرے کے تمام افراد فیصلہ سازی جیسے معاملات میں دخل رکھتے تھے

اب اگر کوئی اسلام کی انصاف پسندی پر انگلی اٹھائے تو یہ اس کا بغض ہی ہو سکتا ہے۔

سیکولرازم سے اسلام معاشرتی اقدار میں اس لحاظ سے مختلف ہے کہ جن کاموں کو آج ہیومنسٹ سیکولرازم کے لبادے میں سرانجام دیا جارہا ہے اسلام دراصل انہی کی نفی کے لئے آیا تھا۔ پروفیسر esposito ایک لفظ لکھتا ہے fornication۔ آج سیکولرازم اسی کے گرد گھوم رہا ہے۔ ایک ایسا تصور جو معاشرے کے نظام زندگی کا تعین کرتا تھا اس کی آڑ میں سماجی برائیوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی ضمن میں ڈاکٹر خالد سہیل صاحب بھی مضامین چھاپ چکے ہیں کہ انسان اپنے اپنے جنسی مزاج پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق کوئی ہومو سیکسؤل ہے تو کوئی ہیٹرو۔ اسلام ایسے تصورات کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرتا ہے بلکہ ان پر حدود بھی لاگو کرتا ہے۔ اس قسم کے سیکولرازم کی اسلام میں گنجائش نہیں۔

سیکولرازم کا ایک گروہ جسے pseudo لبرلز کہا جاتا ہے ایسا ہے جو بظاہر تو سیکولر لیکن ان کے اندر مذہب کی جڑیں پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ دراصل سیکولرازم کی آڑ میں مخصوص مذہبی جذبات کآ سافٹ ایمیج قائم کرنے کی جد وجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی میں وہ اپنے مخالفین کے لتے لے لیتے ہیں۔ ایک گروہ محمد بن قاسم کی سندھ آمد پر تبرأ کرنے کے لیے سیکولر جذبات کا سہارا لیتا ہے۔ اس کے لئے بھی ہوا میں تیر چلانے سے بہتر ہے کچھ سیاق وسباق پر نگاہ ڈال لی جائے۔

اس بات سے قطع نظر کہ وہ ہیرو ہے یا ولن یہ دیکھا جائے کہ اس کے حملے کے محرکات کیا تھے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہی کہ مسلمان تاجر سری لنکا اور دیگر ایشیائی خطوں تک بحری راستوں سے تجارت کیا کرتے تھے۔ مکران کے ساحلوں پر آباد قزاق تجارت قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ یہ علاقہ راجا داہر کے ماتحت تھا۔ کئی بار شکایات کے باوجود کوئی حوصلہ افزا جواب نہ ملا۔ دوسرا کچھ بنو امیہ کے سیاسی مخالفین کو راجا داہر نے پناہ دے رکھی تھی۔ اس بات کا انہیں غصہ تھا۔ تاریخی طور پر مشہور ایک عرب محصور لڑکی کے کے خط نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا اور اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس میں بتائیں اسلامی وجہ کیا تھی حملہ کرنے کے پیچھے ایک سیاسی مسئلہ تھا جو مذاکرات سے حل نہ ہوا تو جنگ کرنی پڑی۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج لبرل قوتیں افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہیں۔ محمد بن قاسم اگر اسلام نافذ کرنے آتا تو اپنی کابینہ میں ہندو وزیروں کو جگہ نہ دیتا۔ نہ تو اس فوج نے لوٹ مار کی نہ ہی اسلامی نظام نافذ کیا۔

محترمہ ڈاکٹر غزالہ قاضی نے سیکولرازم سے متعلق ایک اچھی تحریر لکھی ہے۔ موضوع پر لکھتے ہوئے لبرل سیکولرازم کی وہ خصوصیات تو بیان کرگئیں جو اسلام پہلے ہی بنی نوع انسان کو دے چکا ہے، لیکن ہیومنسٹ سیکولرازم، ایتھیسٹک سیکولرازم اور pseudo سیکولرازم سے متعلق بہت ساری باتیں رہ گئیں۔ گزارش یہی ہے کہ جب دو مختلف یا ملتے جلتے نظاموں کا موازنہ کیا جائے تو ان کے ماننے والے لوگوں یا گروہوں کے انفرادی یا اجتماعی رویوں کی بجائے ان کی اصل تعلیمات پیش کی جائیں۔

سیکولرازم اس بات کا پرچار کرتا تو نظر آتا ہے کہ مذہب کا ریاست میں عمل دخل نہ ہو لیکن عائلی زندگی اور معاشرت کے متعلق رہنما اصول کہیں نظر نہی آتے۔ لے دے کے شخصی آزادی کا ایک نعرہ ہے بس اس نظام کے پاس۔ تجارت، معیشت، معاشرت، وراثت، ریاست، ان سب سے متعلق لبرل ازم خاموش ہے۔ سیکولرازم شخصی آزادی کی بات تو کرتا ہے لیکن پاسپورٹ کی پابندی کیا انسانیت پر پابندی نہیں ہے۔ سیکولر ریاستوں میں نقاب اور اسکارف کی پابندی کس ضمن میں آتی ہے۔

سیکولرازم اصل میں پولیٹیکل سائنس کی ڈومین ہے۔ یہ انسانیت کے بیشتر مسائل پر خاموش ہے۔ سیکولرازم لبرل ازم سے مختلف چیز ہے۔ لبرل ازم شخصی آزادی کی ضامن ہے لیکن ایک ضابطے کے تحت۔ یہ مذہبی آزادی کا نام بھی ہے۔ سیکولرازم مذہب کی نفی کا نظام ہے۔ سیکولر ہمیشہ مذہب سے الجھتے نظر آئیں گے۔ ان کے نزدیک خرابیاں مذہب کی دین ہیں۔ جبکہ لبرل مذہب میں رواداری اور بقائے باہمی کے متمنی ہیں۔ اسلام چونک ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور لبرل ازم اسلام کی ہی ایک شاخ ہے جو انسانیت کو شرف بخشتی ہے۔

یہ شرف ریاست اور افراد کے تعلق میں بھی پایا جاتا ہے، معاشرتی و معاشی زندگی میں۔ لہذا اسلام جب انسانیت کے لیے بہترین زاد راہ ہے اور اس بات سے آپ متفق بھی ہیں تو ایک ایسے معاشرے میں جہاں مسلمان اکثریت میں بستے ہوں، ایک ایسے نظام کے نفاذ کی بات کرنا جو مذہبی اور سماجی طور پر بالکل متضاد ہو، بے معنی سا لگتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگوں کے مزاج اور ثقافت الگ ہے۔ سیکولر روایات چونک اس خطے کے ایک فیصد لوگ بھی نہیں رکھتے اور خود سیکولر فلسفیوں کے بقول یہ مذہب کی نفی کا نظام ہے تو عام آدمی کیونکر اس بات کو مانے کہ سیکولرازم مذہب کے خلاف نہیں۔

سیکولرازم کی اردو ڈکشنری میں ہی نہیں بلکہ انگریزی ڈکشنری میں بھی تعریف لادینیت لکھی ہوئی ہے تو کیسے اس پر لوگ اعتبار کریں۔ دوسرے یہ کہ پہلے سے موجود نظام کی اصل شکل بحال کرنا آسان کام ہے۔ یہ محنت جو لوگوں کو ایک مبہم سے نظریہ کو اپنانے کی ترغیب میں کی جارہی ہے، ایک واضح اور روشن دین کی اصل تعلیمات کے نفاذ کے لیے کی جائیں تو ثمر یاب رہیں۔ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس سلسلے میں روایت پسندوں کی راہنمائی بھی کرسکتے ہیں اور وسائل کے بہترین استعمال سے معاشرے کو کار آمد بنانے میں کارگر بھی ثابت ہوسکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2