! ہجرتوں کے مارے لوگ


اپنے بچپن میں ہم نے اپنے اطراف جن بڑوں کو دیکھا، جو تقسیم کے وقت موجود تھے یا کسی طور اس کا حصّہ تھے، ان کو ہمیشہ اپنی آبائی جگہوں کی باتیں کرتے ہوئے پایا۔ نانی اماں ٹونک کا ذکر کیا کرتی تھیں اور وہاں کا ذکر کرتے وقت ان کے چہرے پہ ایک خوشی کا سایا آ کے گزر جاتا تھا۔ پاکستان آکے بس تو گئے تھے لیکن اپنی جڑوں سے نہیں کٹ پائے تھے۔ ایک بار دروازے کی گھنٹی بجی کھولا تو ایک بوڑھی خاتون بہت جوش سے ان کے پیار کا نام لے کے ان کی بابت پوچھ رہی تھیں ”ببو ہے؟ “، ہم نے کبھی نانی کا وہ نام نہیں سنا تھا بعد میں کوئی بڑا دروازے پہ آیا تو پتا چلا کہ یہ ان کے بارے میں پوچھ رہی ہیں۔ غالباً اپنے بیٹے کے ساتھ اپنی بچپن کی سہیلی کو ڈھونڈتی ہوئی آئی تھیں۔ ان سے والہانہ انداز سے لپٹ گیئں ہم بچے حیران پریشان کہ یہ کون ہیں دونوں نے خوب باتیں کیں۔

ہمارے نانا کی ایک بہن تھیں جنہیں سب پھپھو جان کہتے تھے۔ کچھ دن تو وہ ٹھیک رہتیں پھر کچھ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتیں۔ بڑوں سے ان کے بارے میں یہی سنا کہ ان کی ہجرت سے پہلے کی زندگی نوابوں جیسی شاہانہ تھی، شاندار حویلی، آن بان، ریل پیل، اور ایسے وفادار نوکر جو بعد میں کبھی ان کے کسی رشتے دار سے بھی ملے تو مودب ہو کر ملے۔ پھپھا میاں شکار کے شوقین تھے اور شیر کا شکار بھی کر چکے تھے۔ سنا ہے سب بہت شوق سے ان سے شکار کے قصّے سنا کرتے تھے۔

پاکستان آئے تو جھونپڑی بنا کے رہنا پڑا اور سخت تکلیف کا وقت گزرا۔ آخر میں وہ فالج کا شکار ہو کے کئی سال بستر پہ رہے اور پھپھو جان نے ان کی تیمارداری کی۔ یوں عرش سے فرش کا سفر ان کی دماغی حالت پہ اثر انداز ہوا۔ ان ہی کے بیٹے اور ہمارے خالو، امی کے دوسرے پھپھا جنہیں ہم نانا کہتے تھے اور ایک چچا ہر چھٹی کے دن تاش کی محفل سجایا کرتے تھے۔ جب بھی بیٹھتے ”چھبڑے“ کا ذکر آ نکلتا، ”چھبڑا“ بھی راجھستان کا ایک تاریخی شہر ہے جس کا نام چھ دروازوں کی نسبت سے چھبڑا پڑا۔

ہمیں تو نہ چھبڑے سے کوئی نسبت تھی نہ دلچسپی اور نہ ہم ان کیفیات سے واقف تھے جو ان کے دل پہ گزرتی تھیں۔ اس لیے جہاں وہ لوگ یہ بآتیں شروع کرتے سب زیر لب مسکرا مسکرا کے ایک دوسرے کو اشارے کرتے کہ ”لو بھئی پھر آ گیا چھبڑا اور ٹونک۔“ انڈین فلم ”لمحے“ ہمارے ان خالو کی پسندیدہ تھی، شاید اس لیے کہ اس کی منظر کشی چھبڑے سے کافی ملتی جلتی تھی۔ راجھستان کے صحرائی منظر اور ثقافت، ان سے سنی ہوئی آموں کے باغوں کی کہانیاں اور بارش کے موسم میں باغوں میں پڑے جھولوں کے قصے ہم نے بھی اسی فلم میں دیکھے۔

جب گانے میں سری دیوی لمبی لمبی پینگہیں لیتے ہوے لتا کی آواز میں گاتی ہے کہ ”باغوں میں پڑ گئے ساون کے جھولے“ تو یہ جھولے کوئی فنٹسی نہ تھے بلکے واقعی وہاں یونہی ساون کی جھڑی میں خواتین کے لئے باغ میں لمبی لمبی باڑھوں کے بیچ ایسے ہی جھولے ڈلا کرتے تھے۔ ہمارے ابّا بھوپال کے تھے، وہ تقسیم کے دس بارہ سال بعد اکیلے پاکستان چلے آئے تھے، ان کی پرانی ڈائری میں بھوپال کی محبّت میں لکھی ہوئی مٹی مٹی نظم سے بھی یادوں کی خوشبو آتی تھی۔

ہجرت کی وجہ کوئی بھی ہو ہجرت کرنے والے ملتی جھلتی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ لوگ زمین چھوڑ جاتے ہیں، زمین انھیں نہیں چھوڑتی۔ پہلی نسل چمن سینچتی ہے تو بعد والی کی زندگیاں جا کے سکون کا سانس لیتی ہیں۔ پہلی یادوں کا بوجھ ڈھوے ڈھوے پھرتی ہے تو اگلی نسلیں زمین کو اپنا کے چین کی نیند سوتی ہیں۔ جو چھوڑ کے چلے جاتے ہیں وہ سب کچھ تصور میں وہیں منجمد کر جاتے ہیں حالانکہ چند برسوں میں ہی ہر چیز بدل جاتی ہے۔ پرانی تصویریں ذہن سے یوں چپکتی ہیں کہ کینیڈا کے کسی عالیشان مال کے سنگ مر مر کے فرش پہ چلتے پھرتے اچانک ایسا لگتا ہے کہ ایک دم طارق روڈ کی کسی گلی میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ گاڑی برق رفتاری سے مسسی ساگا کی سڑک پہ دوڑ رہی ہوتی ہے تو لگتا ہے اگلا موڑ اپنے شہر کی کسی جانی پہچانی سڑک کا ہے۔

زندگی کتنی ہی منظم اور نفیس ہو جائے بچپن جن گلیوں اور چھتوں میں گزرا ہو کہیں نہ کہیں کوئی راستہ کوئی منظر چھب دکھلا کو ایک دم گم ہو جاتا ہے۔ کبھی بند گھر کی چھت تاروں بھرے آسمان میں بدل جاتی ہے، آس پاس دیواریں ہٹ کے کھلے صحن کا روپ ڈھال لیتی ہیں اور کراچی کی شاموں والی رات کی رانی سے لپٹی ٹھنڈی ہوا ہولے سے چل پڑتی ہے۔ کبھی بارش کے بعد لگتا ہے ویسی ہی خوشبو پھیل گئی جیسے لڑکپن میں نارنجی اسٹریٹ لائٹ کے تلے بارش کے بعد چمکتی بھیگی سڑکوں سے اٹھا کرتی تھی۔ ہماری محفلوں اور باتوں میں کہیں نہ کہیں پاکستان ضرور سنائی دیتا ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ نانی اماں ٹونک کا اور خالو چھبڑے کا ذکر کیوں کیا کرتے تھے اور ابّا نے بھوپال پہ نظم کیوں لکھی تھی۔

ہمارے پرکھوں کی ہجرت قربانی کے لنے تھی اور ہم جیسوں کی ہجرت بہتری کے لئے ہے۔ وہ لوگ عظیم تھے، ہمارا مقصد محدود ہے۔ وہ لوگ گرچہ معاشی بد حالی کا شکار تھے لیکن ان کو مشرقی اقداراپنانے اور آگے بڑھانے کے لئے بہت زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑی، ہم مغربی اقدار سے نبرد آزما ہیں اور اپنی نسلوں کو ورثے میں اپنی زبان، قدریں اور ثقافت ضرور دینا چاہتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکے ہماری خاک کا خمیر وہیں سے اٹھایا گیا ہے جو ہماری پہچان ہے، ہمارا ملک ہمارے چہروں سے جھلکتا ہے، ہمارے مزاج میں ہے، ہمارے رکھ رکھاؤ اور تہذیب میں ہے، ہمارے کھانوں کے ذائقے میں ہے اور ہمارے آموں کی خوشبو میں ہے۔

خدا پاکستان میں امن و سکون اور خوش حالی لائے، آمین

میرے فوجی جواں جرّاتوں کے نشاں
میرے اہلِ قلم عظمتوں کی زباں
میرے محنت کشوں کے سنہرے بدن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن

جشن آزادی مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments