آزادی کی منزل ابھی کتنی دور ہے؟


انگریزوں کو بر صغیر سے گئے ہوئے آج پورے تہتر برس ہو گئے۔ تہتر برس بہت ہوتے ہیں۔ 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب آزاد ہونے والے دو ممالک آج تین ہوچکے ہیں۔ پر تینوں کے اندر کئی چیزیں مشترک ہیں۔ غربت، بھوک اور بے روزگاری، نا انصافی اور جبر اور اقلیتوں کو دبا کر رکھنے کی روایت سبھی جگہ مشترک ہے۔ یہ سب ایک سی لنگڑی چال چلتے ایک دوسرے کو پتھر مارتے، کوسنے دیتے اور گالیاں بکتے کبھی ایک دوسرے سے آگے بھی نکل جاتے ہیں، مگر باقی دنیا سے الگ تھلگ ہیں۔

اور سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ آج بھی ان ملکوں کے رہنے والے اپنے اپنے دیسوں سے ہزاروں میل دور دوسروں کے جوتے صاف کر کے اپنا رزق کماتے ہیں۔ ہزاروں دور دیس میں اچھی اور خوشحال زندگی کی تلاش میں غیرقانونی طریقے سے سرحدیں پار کرتے کرتے زندگی کی لکیر پار کر جاتے ہیں۔ ہزاروں گہرے پانیوں میں مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔ جنہیں دفنانے یا جلانے کی خواہش لئے ان کے اپنے اپنی آنکھوں کا پانی خشک کر کے دنیا ہی چھوڑ چکے۔

اس خطے کی ہزاروں بیٹیاں عرب کے ریگزاروں میں اپنا سب کچھ لٹا کر بھی اپنے پیاروں کے لئے روشنی کا سامان نہ کر سکیں۔ آج بھی یہاں انصاف کے لئے در بدر پھرتے پھرتے نسلیں اپنی زندگی تیاگ دیتی ہیں۔ آج بھی داروغہ جی لوگوں کی ماؤں بہنوں تک کو گھروں سے اٹھا لیتے ہیں۔ لوگوں کو پولیس مقابلے میں پار کر دیتے ہیں۔ آج بھی بیمار اپنے علاج کے لئے بیل گاڑیوں اور چارپائیوں پر میلوں دور جانے پر مجبور ہیں۔ اور بیماری کو اللہ کا لکھا اور بھگوان کی دیا کہہ کر مریض اپنی موت تک زندگی کی گھڑیاں گنتے ہیں۔

انگریزوں کو بر صغیر سے گئے ہوئے آج پورے تہتر برس ہو گئے۔ تہتر برس بہت ہوتے ہیں۔ 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب آزاد ہونے والے دو ممالک آج تین ہوچکے ہیں۔ پر تینوں کے اندر کئی چیزیں مشترک ہیں۔ غربت، بھوک اور بے روزگاری، نا انصافی اور جبر اور اقلیتوں کو دبا کر رکھنے کی روایت سبھی جگہ مشترک ہے۔ یہ سب ایک سی لنگڑی چال چلتے ایک دوسرے کو پتھر مارتے، کوسنے دیتے اور گالیاں بکتے کبھی ایک دوسرے سے آگے بھی نکل جاتے ہیں، مگر باقی دنیا سے الگ تھلگ ہیں۔

اور سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ آج بھی ان ملکوں کے رہنے والے اپنے اپنے دیسوں سے ہزاروں میل دور دوسروں کے جوتے صاف کر کے اپنا رزق کماتے ہیں۔ ہزاروں دور دیس میں اچھی اور خوشحال زندگی کی تلاش میں غیرقانونی طریقے سے سرحدیں پار کرتے کرتے زندگی کی لکیر پار کر جاتے ہیں۔ ہزاروں گہرے پانیوں میں مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔ جنہیں دفنانے یا جلانے کی خواہش لئے ان کے اپنے اپنی آنکھوں کا پانی خشک کر کے دنیا ہی چھوڑ چکے۔

اس خطے کی ہزاروں بیٹیاں عرب کے ریگزاروں میں اپنا سب کچھ لٹا کر بھی اپنے پیاروں کے لئے روشنی کا سامان نہ کر سکیں۔ آج بھی یہاں انصاف کے لئے در بدر پھرتے پھرتے نسلیں اپنی زندگی تیاگ دیتی ہیں۔ آج بھی داروغہ جی لوگوں کی ماؤں بہنوں تک کو گھروں سے اٹھا لیتے ہیں۔ لوگوں کو پولیس مقابلے میں پار کر دیتے ہیں۔ آج بھی بیمار اپنے علاج کے لئے بیل گاڑیوں اور چارپائیوں پر میلوں دور جانے پر مجبور ہیں۔ اور بیماری کو اللہ کا لکھا اور بھگوان کی دیا کہہ کر مریض اپنی موت تک زندگی کی گھڑیاں گنتے ہیں۔

آج بھی دوسروں کی جوٹھن کھانے والے اور اترن پہننے والے اکثریت میں ہیں۔ آج بھی چندے والی صندوقچی پر پلنے والے مولوی، پنڈت اور پادری بدمست سانڈوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور ان کے پیچھے چلنے والے ایک دوسرے کے خون کی ہولی کھیلتے ہیں۔ کل تقسیم کے وقت سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں کا خون بہایا گیا، ان کی بیٹیوں کو اٹھایا گیا، ان کے گھر جلائے گئے۔ آج بھی کبھی کوٹ رادھا کشن میں شہزاد اور شمع مسیح کو زندہ جلایا جاتا ہے، تو کبھی بہار میں تبریز انصاری کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جاتا ہے۔

آج بھی کبھی سندھ میں ہری رام کی بیٹیوں کو اسلام کے نام پر ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی کشمیر کی گوری لڑکیوں پر ہاتھ صاف کرنے کی تیاری کی جاتی ہے۔ ادھر احمدیوں کا ناطقہ بند ہے، ادھر مسلمانوں کو ودیشی گھس بیٹھیے قرار دے کر دیس نکالا دینے کی تیاری۔ ادھر تو بھی کافر، تو بھی واجب القتل، ادھر ”جو نہ بولے جے شری رام اس کو بھیجو قبرستان“ کا غلغلہ۔ ادھر صاحب لوگ رشوت لیتے ہیں، تو ادھر بابو لوگ گھوس کھاتے ہیں۔

ادھر بھی لمبے ہاتھ مارے جاتے ہیں، ادھر بھی گھوٹالے ہوتے ہیں۔ نہ ادھر ہسپتال میں دوائی ہے، نہ ادھر ہے۔ نہ یہاں کی عدالتوں میں انصاف ہے، نہ وہاں کی عدالت میں۔ ادھر بھی گندگی سے اٹے شہر اور دیہات ہیں، ادھر بھی گندے اور بدبودار شہر۔ ادھر بھی غربت کے مارے ڈھانچہ نما انسان، ادھر بھی چیتھڑوں میں ملبوس مدقوق چہرے۔ ادھر ماضی کی عظمت کے ڈھول ہیں تو ادھر اندھی قوم پرستی کا بخار۔ یہ عربی گھوڑے پر سوار ہیں، وہ اپنی رتھ پر بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔

نفرت کی کھیتی خوب بڑھتی جا رہی ہے۔ بٹوارے کا بیوپار عروج پر ہے۔ ہتھیاروں کے ڈھیر پر ڈھیر لگائے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی تباہی کا سامان کرنے کی نت نئی تدبیریں۔ ایک دوسرے سے بولنا چالنا روا نہیں۔ زندگی گھسٹ رہی ہے، نفرت خوب پھل پھول رہی ہے۔ بس مر رہی ہے، تو انسانیت مر رہی ہے، جمہوریت مر رہی ہے۔ اور ہمارے پڑوس میں جو بہت بڑا سانحہ ہوا، وہ یہ کہ وہاں سیکولرازم کی موت ہو گئی ہے، اور تکثیریت جو کبھی ان کی پہچان تھی اس کو کہیں گہرا گڑھا کھود کر دفن کر دیا گیا ہے۔

ادھر تو پہلے ہی سبزہ سفیدی کو چاٹ رہا تھا، دکھ تو اس بات کا ہے، کہ کبھی رنگا رنگی کی بہار دیکھنے کے لئے جو نظریں سرحد پار کی طرف اٹھتی تھیں، اب اس طرف صرف بھگوا رنگ ہی نظر آتا ہے۔ تہتر برسوں میں کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے، نہ ہی بدلنے کی توقع ہے۔ تین تین نسلیں گزر گئیں آزادی کا سراب دیکھتے ہوئے، نجانے آزادی کی منزل ابھی کتنی دور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).