سیکیورٹی کونسل بھی کیا کر لے گی؟


سلامتی کونسل بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لئے اقوام متحدہ کا سب سے موثر فورم ہے، جس کے کل اراکین کی تعداد پندرہ ہے۔ ان میں سے پانچ تو مستقل اراکین ہیں، جن میں مستقبل کی سپر پاور چین، سابقہ سوویت یونین جبکہ حالیہ روسی فیڈریشن، موجودہ سپر پاور امریکہ اور سابقہ نوآبادیاتی طاقتیں فرانس اور متحدہ بادشاہت یعنی سلطنت برطانیہ، شامل ہیں۔ ان پانچ مستقل اراکین کے پاس ویٹو پاور ہے، یعنی ان میں سے کوئی ایک بھی کسی بھی قرارداد کو اپنے ووٹ سے بے اثر کر سکتا ہے۔

باقی کے دس اراکین غیر مستقل ہیں جن کا انتخاب صرف دو سال کے عرصہ کے لئے کیا جاتا ہے۔ سلامتی کونسل کے موجودہ غیر مستقل اراکین میں اس وقت بیلجییم، جمہوریہ ڈومینیکن، استوائی گنی، جرمنی، انڈونیشیا، آئیوری کوسٹ، کویت، پیرو، پولینڈ اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ پولینڈ اس وقت سلامتی کونسل کا صدر بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل میں کوئی بھی قرارداد صرف اس صورت میں پاس ہو سکتی ہے، جب سلامتی کونسل کے 15 اراکین میں سے 9 یا اس سے زیادہ اراکین اس کے حق میں ووٹ دیں، اور کوئی مستقل رکن اس قرارداد کو ویٹو نہ کرے۔

سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کے لئے کتنی با اختیار ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا لیں، کہ اسرائیل نے 1968 سے اب تک اپنے خلاف پاس ہونے والی 32 قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے، جن میں اسرائیلی حکومت کے فلسطین میں ظالمانہ اقدامات، جنگی کارروائیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید یا مذمت کی گئی۔ یوں اسرائیل اس وقت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔

اس کے بعد ہمارے برادر ملک ترکی کا نمبر آتا ہے، جس نے سلامتی کونسل کی 24 قراردادوں کی خلاف ورزی کی۔ اور تیسرے نمبر پر مراکو یا مراکش ہے، جس نے 17 بار ایسا ہی کیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں ایک لطیفہ مشہور تھا کہ ”تنازع اگر دو چھوٹے ممالک کے درمیان ہو تو تنازعہ غائب ہو جاتا ہے۔ تنازعہ اگر ایک چھوٹے اور ایک بڑے ملک کے درمیان ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے، اور اگر تنازعہ دو بڑے ممالک کے درمیان ہو تو اقوام متحدہ غائب ہو جاتی ہے۔ “

تنازعہ فلسطین، اور تنازعہ کشمیر گزشتہ ستر برس سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل ان کو حل کروانے کے لئے کیا کر سکی؟ تنازعہ کشمیر کو بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے، جہاں پنڈت جی نے کشمیریوں اور دنیا سے یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کے لئے استصواب رائے کرایا جائے گا۔ اقوام متحدہ نے دونوں ممالک سے کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے کا مطالبہ کیا اور کشمیریوں کو ان کے مستقبل کا تعین کرنے کا اختیار دینے کا بھی کہا۔

اس کے بعد نہ ہی تو کبھی کشمیر سے فوجیں نکالنے کی نوبت آئی اور نہ کبھی ریفرینڈم منعقد ہو سکا۔ بلکہ کشمیر پر بے نتیجہ جنگیں لڑنے کے بعد دونوں ملک 1972 میں اپنے تنازعات دوطرفہ طور پر طے کرنے کے شملہ معاہدے پر متفق ہو گئے۔ اس معاہدے نے کشمیر پر بین الاقوامی ثالثی کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیے۔ لیکن دوطرفہ تنازعات کو حل کرنے کی نوبت بھی کبھی نہ آ سکی، یوں پاکستان کو پچاس سال تک شملہ معاہدے کا لالی پاپ تھما کر سلایا جاتا رہا، یہاں تک کہ 5 آگست 2019 کو بھارتی سرکار نے ٹھینگہ دکھا دیا کہ، اجی کہاں کا تنازعہ اور کہاں کا دو طرفہ معاملہ، کشمیر تو ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔

یوں پڑوسی کی اس چالبازی نے پاکستان کو پھر سے کشمیر کی دھول میں اٹی ہوئی دیمک زدہ فائلیں اٹھا کر سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں جانے سے پہلے ہم نے کیا تیاری کی ہے؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین کا دورہ تو کر لیا، کیا باقی ممالک کا دورہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی؟ چلیں وزیر خارجہ نہ سہی کوئی سفارتی وفد تو ان ممالک میں بھیجے گئے ہوں گے؟ کیا سلامتی کونسل کے باقی مستقل اراکین سے بھی کوئی رابطہ کیا گیا ہے؟

ان میں فرانس بھی شامل ہے، جس کے صدر کا مبارک باد کا فون سننے کا وقت بھی ہمارے وزیراعظم کے پاس نہیں تھا۔ روس کے لئے بھارت اس کے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ امریکی بھارت کے تزویراتی حلیف ہیں۔ اگرچہ اس وقت ان کو پاکستان کی ضرورت ہے اور ان کے پاس غیر جانبدار رہنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ برطانیہ میں بھارتی سرمایہ کاروں کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ باقی کے غیر مستقل اراکین میں سے تقریباً آدھے ممالک سے تو ہمارے سفارتی تعلقات بھی نہیں ہوں گے، باقیوں سے پتا نہیں کسی نے رابطہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی ہو کہ نہ کی ہو۔ لگتا نہیں کہ پاکستان اس مسئلے پر پوری تیاری اور ہوم ورک کر کے اقوام متحدہ میں جا رہا ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے، خدا کرے یہ غلط ہو، پاکستان، یا کسی بھی دوست ملک کی طرف سے کشمیر کے مسئلے پر کسی بھی بھارت مخالف قرارداد کو چین کے علاوہ سیکیورٹی کونسل کے کسی بھی مستقل رکن ملک سے حمایت نہیں مل پائے گی اور ہمارے خلاف ایک سے زیادہ ویٹو آ سکتے ہیں جس کی وجہ سے ہم دوبارہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کے کسی طور بھی قابل نہیں رہیں گے۔ خوش گمانیوں پر تکیہ کرنے والی خوابیدہ قوم کو دنیا کی حقیقتوں کا ذرا بھی ادراک نہیں ہے۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت بھارت کے خلاف کوئی بھی قرارداد پاس ہونی بہت مشکل ہے۔ زیادہ سے زیادہ دونوں ملکوں کو یہ تجویز دے دی جائے گی کہ شملہ معاہدے کے مطابق دونوں ممالک اپنے تنازعات مل بیٹھ کر حل کر لیں اور کشیدگی بڑھانے والے اقدامات سے گریز کریں۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی ڈھیلی ڈھالی قرارداد بھارت کے خلاف منظور ہو بھی جاتی ہے تو اس پر عمل درآمد کروانے کی طاقت سلامتی کونسل کے پاس نہیں ہے۔ نہ ہی بھارت پر کوئی بین الاقوامی پابندیاں لگنے کی نوبت آئے گی۔

اسرائیل سمیت کئی ممالک سیکیورٹی کونسل کی ایسی قراردادوں کو کئی بار ردی کی ٹوکری میں پھینک چکے ہیں۔ اس وقت اس دیرینہ مسئلے پر ہمارے پاس صرف دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو جنگ سے گریز کرتے ہوئے اپنی کمزور معاشی حالت کو درست کرنا، اپنے وسائل کا زیادہ حصہ اپنے لوگوں کی تعلیم و تربیت، ترقی اورصحت پر لگانا اور سیاسی اور سفارتی طریقے سے کشمیریوں کی مشکلات کم کروانے کی کوشش کرنا اور دوسرا راستہ وہ ہے، جس پر عمل کرنے سے نہ تو ہم بچیں گے اور نہ ہی وہ اور نہ ہی کشمیر اور کشمیری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).