سیاسی اور سفارتی ڈپلومیسی کا محاذ


بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر کیے جانے والے حالیہ فیصلہ کے نتیجے میں پاکستان پر سیاسی اور سفارتی محاذ پر ڈپلومیسی کا دباؤ بڑھ گیا ہے، کیونکہ مسئلہ محض کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ پاک بھارت تعلقات سمیت جنوبی ایشیا یا اس خطہ کی سیاست سے جڑے مسائل سنگین صورتحال اختیار کرگئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان اپنے اوپر دباؤ کو کم کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر کشمیروں کے ساتھ مکمل سیاسی اور سفارتی یکجہتی کرنے اور بھارت کو دو ٹوک جواب دینے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرے۔ یہ وہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے جو اہل دانش کی سطح پر زیر بحث آنا چاہیے کہ پاکستان ایسی کیا حکمت عملی اختیار کرے جو اس مسئلہ کی سنگینی کو کم کرسکے۔ اسی طرح یہ نکتہ بھی زیر بحث ہونا چاہیے کہ ہمارے پاس ایسے کون سے کارڈ ہیں جو ہم اپنی موثر حکمت عملی کے لیے ڈپلومیسی کے محاذ پر کھیل سکتے ہیں۔

عمومی طور پر بھار ت کا بنیادی نکتہ یہ ہی تھا کہ کشمیر کے تنازعہ میں پاکستان اور بھارت براہ راست فریق ہیں اور اس پر کسی تیسرے فریق کو کسی بھی قسم کی مداخلت کا حق نہیں۔ لیکن بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35۔ Aختم کرکے خود ہی تیسری قوت سمیت عالمی ممالک اور اداروں کی مداخلت یا ثالثی کے کردار کا موقع پیدا کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ عالمی دنیا کو کشمیر اور حالیہ فیصلہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات پر عالمی دنیا کو جنجھوڑ سکے۔ کیونکہ اس وقت بحران کے دو پہلو ہیں۔ اول بندوق اور طاقت کے مقابلے میں ہم سیاسی طور پر کشمیر کا ایک ایسے پرامن حل کی طرف پیش رفت کریں جو سب کے فریقین کے قابل قبول ہو۔ دوئم مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی بدترین پامالی کو روکنا ہوگا جو عالمی دنیا کا بڑا مینڈیٹ بھی ہے۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے حالیہ فیصلہ سے ہمیں کوئی سیاسی تنہائی ملی ہے وہ غلطی پر ہے۔ اس وقت عالمی دنیا میں بھارت کا مقبوضہ کشمیر کے تنازعہ میں ہونے والا فیصلہ عالمی دنیا سے جڑے ممالک اورسیاسی، قانونی، انسانی حقوق سے جڑے اداروں میں دباؤ عملی طور پر بھارت پر بڑھا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری سمیت ایمنسٹی انٹرنیشل، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، ہیومین رائٹس واچ سے جڑے ادارے بھارتی اقدام پر سخت تنقید کررہے ہیں۔

دوسری جانب دنیا کی سول سوسائٹی سے جڑے ادارے امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ، کینڈا، برسلز سمیت کئی ممالک میں لوگ بھارتی اقدام اور بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی پر سراپا اجتجاج ہیں۔ خود بھارت سے بھی مودی سرکار کی مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور ان کے بقول مودی سرکار کا اقدام بھارت کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پچھلے چند برس میں کشمیریوں کی مزاحمت نے اس مسئلہ کشمیر کو عالمی مسئلہ کے طور پر دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔

یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر اس موقع پر عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی بڑا موثر کردار ادا نہ کیا تو اس مسئلہ کی شدت کے نتائج بہت خوفناک ہوسکتے ہیں۔ عالمی دنیا کی کوشش یہ ہی ہونی چاہیے کہ کشمیریوں کی حالیہ سیاسی جدوجہد کسی بھی طور پر مسلح جدوجہد کی شکل میں نہ دکھیلا جائے۔ یہ عالمی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ اس کا حالیہ اقدام عالمی دنیا میں ایک بڑی تشویش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

لیکن یہ کام محض زبانی باتوں سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتیں بھارت کو ایک بڑی ویک آپ کال دیں یعنی موجودہ بھارتی پالیسی کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ کیونکہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تناظر میں کوئی بھی حالات بگڑتے ہیں یا جنگ کا ماحول پیدا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی عالمی دنیا کے کمزور کردار سے جڑی ہوگی۔ بہت سے سیاست سے جڑے پنڈتوں کے بقول اس حالیہ کشیدگی سے افغان امن بھی متاثر ہوسکتا ہے۔

پاکستان نے حالیہ بھارت کے اقدام پر جو بھی سفارتی فیصلے کیے ہیں جن میں مختلف نوعیت کی پابندیاں بھی ہیں یقینی طور پر یہ کڑوی گولیاں ہیں اور یہ فیصلے ہم نے خوشی سے نہیں کیے، بلکہ بھارت نے اپنے جارحانہ عزائم سے ہمیں ان فیصلوں کی طرف دکھیلا ہے۔ کیونکہ پاکستان عملا اس وقت امن کی خواہش رکھتا ہے اور تسلسل کے ساتھ بھارت کو حالات کی بہتری کا عملی پیغام بھی دے رہا ہے۔ مگر بھارت نے دو طرفہ سطح پر مذاکر ات کے تمام تر دروازوں کو بند رکھا ہے اور کوئی سیاسی فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں جو دونوں ملکوں میں بداعتمادی کی فضا کو اعتماد سازی میں تبدیل کرسکے۔ بھارت کے حالیہ یک طرفہ اقدامات نے ہی دونوں ملکو ں کے درمیان پہلے سے جاری ماحول کو اور زیادہ خراب کردیا ہے جو اس خطہ کی سیاست کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

پاکستان کے لیے اچھا موقع ہے کہ حالیہ بھارتی اقدام پر ہمیں کشمیریوں کی حمایت میں چین، امریکہ، برطانیہ، ترکی، سعودی عرب، ملائیشیا، اقوام متحدہ، انٹرینشل جیورسٹ کونسل سمیت بہت حوصلہ افزا جواب ملا ہے۔ امریکہ، چین اور ترکی ہمارے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یقینی طور پر خود بھارت کے لیے بھی یہ بڑا دھچکا ہے کہ عالمی دنیا کشمیر کے حالیہ فیصلہ پر کیونکر سرگرم ہوئی ہے اور اسے محض بھارت کا داخلی مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔

کشمیر پر برطانوی پارلیمنٹ کے 45 ارکان کا یو این سیکرٹری جنرل کو خط بھی ہماری بڑی سفارتی کامیابی ہے اور چین نے جو عملی مظاہرہ کیا اسے ہم اپنے ڈپلومیسی کے فرنٹ پر بہتر طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ اسی طرح امریکی صدر کا ثالثی کے کردار کی بحث کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے اس بحث کو اور زیادہ شدت دینی ہوگی تاکہ یہ بحث مقبول ہو اور بھارت پر ایک بڑا دبا وپیدا کرسکے۔

پاکستان کو اپنے ڈپومیسی کے محاذ پر چھ اہم کرنے ہوں گے۔ اول عالمی دنیا میں ڈپلومیسی فرنٹ پر ایک سرگرم اور فعال کردار جس میں جذباتیت کم اور شواہد کی بنیاد پر مواد زیادہ ہو اور عالمی دنیاکو یہ باؤ ر کروانا ہوگا کہ ان کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہوگی۔ دوئم بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بنیاد بنا کر موثر حکمت عملی کو ترتیب دینا کیونکہ عالمی دنیا مانتی ہیں کہ بھارت کا مقدمہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے تناظر میں بڑا خوفناک ہے۔

سوئم ہمیں سفارت کاری کے محاذ پر موجودہ اور سابق سفارت کاروں، موجودہ اور سابق ارکان اسمبلی، پارلیمنٹ، کشمیر کمیٹی، اہل دانش، میڈیا سے جڑے افراد اور سول سوسائٹی کو اس حالیہ محاذ پر موثر طور پر استعما ل کرنا ہوگا۔ چہارم ہمیں سیاسی اور سفارتی سطح پر کشمیریوں میں اس احساس کو برقرار رکھنا ہے کہ ہم بدستور کشمیروں کی حمایت میں کھڑے ہیں اور ان کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ اپنی جنگ اور مزاحمت کو سیاسی اور پرامن جدوجہد تک ہی محدود رکھیں کیونکہ یہ ہی وہ نکتہ ہے جو ان کے لیے عالمی حمایت پیدا کرسکتا ہے۔

پنجم ہمیں میڈیا اور سوشل میڈیا کے فرنٹ پر میڈیا ڈپلومیسی کو مضبوطبنانا ہوگا اور جو متبادل آوزیں بھارت سے آرہی ہیں ان کو بنیاد بنا کر عالمی میڈیا میں اپنا سفارتی مقدمہ لڑنا ہوگا۔ ششم ہمیں اپنے داخلی مسائل کی سنگینی کو کم کرکے اس میں استحکام پیدا کرنا اور ایک ایسا اتفاق رائے سفارتی محاذپر قائم کرنا جو ہمیں عالمی دنیا میں یکجا کرسکے۔

ہمیں بھارت کے سامنے اس مقدمہ کا بنیادی نکتہ رکھنا ہوگا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر ایک بڑا گرم مسئلہ ہے اس کو نظرانداز کرکے یا حل کیے بغیر ہم دونوں ملکوں کے تعلقات بھی بہتر نہیں بناسکیں گے۔ لیکن بھارت اور پاکستان کے سامنے ایک بڑا فریق کشمیر بھی ہے اور جو بھی فیصلہ ہو وہ کشمیریوں کی مشاورت اور قبولیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے، کیونکہ یہ جدوجہد ان کی ہے اور فیصلہ بھی وہی ہونا چاہیے جو وہ چاہتے ہیں اور دونوں ملکوں کو ایسے فیصلوں سے گریز کرنا ہوگا جو کسی پر مسلط کیے جائیں، اچھی بات ہے کہ پاکستان پہلے ہی اپنا موقف پیش کرچکا ہے کہ اصل فیصلہ کشمیریوں کا ہوگا اور وہی بنیادی فریق ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی میں کشمیر بنیادی مسئلہ ہے اور اس کو جب تک ہم سیاسی، سماجی اور قانونی بنیادوں پر مستحکم نہیں کریں گے مسئلہ حل نہیں ہوگا، ہمیں ا س نکتہ پر بھی زور دینا ہے کہ اگر بھارت فوری طور پر پاکستان کی جانب سے مثبت اقدام کی طرف بڑھنا چاہتا ہے توو ہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے اور وہاں جو پابندیاں ہیں اسے فوری طور پر ختم کرے۔ بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ محض قانون سازی کرنے سے جاری سیاسی تحریکیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ اس میں اور زیادہ شدت یا ردعمل پیدا ہوتا ہے جو تحریک کو کمزور کرنے کی بجائے مزید مستحکم کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).