یووال نوح ہراری یہودیوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟


یووال نوح ہراری کا نام کچھ چونکا دینے والا سا ہے۔ اس سے تعارف بھی اسی طرح ہوا جیسے بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنفین سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کتاب دوستی کا دعویٰ کرتے ہیں تو ایسی کتابیں کہیں نا کہیں آپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہیں۔

بہر کیف یووال کی تین معروف کتابوں میں سے آخری۔ ”اکیسویں صدی کے لئے اکیس سبق۔“ ابھی ختم ہی کی تھی کہ ایک نہایت پڑھے لکھے، مذہبی اور فلسفی قسم کے دوست کی جانب سے پیغام آ گیا کہ موصوف ہم جنس پرست ہیں اور آج کل جس ہم جنس پرست کا دل چاہتا ہے کتاب لکھ کر بیسٹ سیلر بن جاتا ہے۔ پہلی بار ہم پر بیسٹ سیلر کتاب لکھنے کا نسخہ عیاں ہوا۔

اتنی قابل رشک معلومات پر تو حسد بنتا تھا تاہم یہ سمجھ نہیں آیا کہ موصوف کو لکھاری کی جنسی سرگرمیوں میں اس قدر دلچسپی کیوں تھی اور ہمارا ارادہ بھی صرف کتاب پڑھنے کا تھا مصنف کے ساتھ سونے کا نہیں۔ یووال پر دوسرا اعترا ض اس کے اسرائیلی ہونے کا تھا۔ ہمارا اعتراض تو کجا کتاب پڑھنے کے بعد تو لگتا ہے کہ مصنف کو خود اپنے اسرائیلی ہونے پر سخت تشویش ہے۔ کتاب کا ہر باب چشم کشا ہے تاہم بارویں باب کا اقتباس پڑھیے اورآکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے اس یہودی پروفیسر کے حوصلے کی داد دیجئے:

”میری پہلی کتاب، ’بنی نوع انسان کی تاریخ‘ عبرانی زبان میں اسرائیلی عوام کے لئے لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کے بعد اسرائیلی کتب بینوں کی طرف سے جو سوال سب سے زیادہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ میں نے انسانی تاریخ کے متعلق اس کتاب میں عیسایت، اسلام، بدھ مت کے متعلق تو تفصیل سے لکھا ہے لیکن یہودیت کا تذکرہ اور انسانی تاریخ میں یہودیوں کے کردار کو یکسر نظر انداز کیوں کیا ہے؟ کیا میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا اور کہیں میرا کوئی ڈھکا چھپا ایجنڈا تو نہیں؟

”ایسے سوالات کا ان اسرائیلی یہودیوں کی طرف سے آنا قدرتی ہے جن کو بچپن سے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہودیت انسانی تاریخ کی معراج ہے۔ موجودہ اسرائیل میں رہنے والے بچے بارہ سال تک ایک محدود نوعیت کی تاریخ پڑھتے ہیں۔ ان کو دنیا کے دوسرے علاقوں کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا ہے۔ منتخب شدہ تاریخ میں انھیں جنگ عظیم دو میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم، صہونیت، اسرایئل کی ریاست کے قیام وغیرہ کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ بات ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہودیت نے مجموعی طور پر انسانی تاریخ پر بہت محدود اثرات مرتب کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت، اسلام اور بدھ مت جیسے عالمگیر مذا ہب کے مقابل یہودیت کی حیثیت ایک محدود قبائلی مسلک سے زیادہ نہیں ہے۔

”بطور ایک یہودی میں کسی بھی گروہ کی انا پسندی کو بخوبی سمجھ سکتا ہوں۔ کیوں کہ میرے اپنے لوگ یعنی یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں سب سے اہم ترین شے ہیں۔ آپ دنیا کی کسی انسانی کامیابی یا ایجاد کا نام لیجیے یہودی فی الفور اس کا سہرا اپنے سر باندھ لیں گے۔ اوران کو بخوبی جاننے کی وجہ سے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ صرف زبانی نہیں بلکہ دل کی اتھاہ گھرائیوں سے اس مفروضے پر یقین رکھتے ہیں۔ میں ایک بار اسرایئل میں ایک یوگا کلاس میں گیا تو وہاں پر موجود یوگا انسٹرکٹر نے تمام تر سنجیدگی کے ساتھ یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یوگا کے تمام آسن قدیم عبرانی زبان کے حروف تہجی سے مستعار لئے گئے ہیں اور اس سرزمین سے ہی یہ علم ہندوستان منتقل ہوا۔

”اس دعوے کا تاریخی ثبوت مانگنے پر مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ صرف اتنا ہی نہیں مرکزی دھارے میں شامل کٹر یہودی پختہ طور پر اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اگر ربی مقدس کتابیں پڑھنا چھوڑ دیں تو نا صرف یہ دنیا بلکہ پوری کائنات ہی ختم ہو جائے گی۔ اگر آپ اس پر یقین نہیں رکھتے تو آپ کو جاہل اور بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔ سیکولر یہودی اس ضمن میں اتنے شدت پسند نہیں تاہم اتنا یقین وہ بھی رکھتے ہیں کہ یہودی انسانی تاریخ کے مرکزی اور سب سے اہم کردار ہیں۔ میرے اپنے لوگ چونکہ تعداد اور اثر و رسوخ میں محدود ہیں اس لئے وہ اس قسم کے احمقانہ دعوؤں کے ذریعے نمایاں ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے لوگوں پر تنقید کرنا چونکہ شائستگی سے ماورا نہیں سمجھا جاتا۔ اس لئے میں یہودیوں کی مثال کے ذریعے دنیا بھر کے خودپسندانہ طبقات کی نشاندہی کر رہا ہوں۔

”یہودیت کا کردار انسانی تاریخ میں سمجھنے کے لئے یہ دلچسپ مثال کافی ہو گی کہ جدید مغربی تاریخ میں فرائیڈ کا کردار نہایت اہم ہے۔ چونکہ فرائیڈ کا کردار اہم ہے لہٰذا فرائیڈ کی ماں کا بھی اہم کردار ہے کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو فرائیڈ بھی نہ ہوتا۔ لیکن مغرب کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے کوئی بھی مصنف فرائیڈ کی والدہ کے متعلق کتاب میں باب شامل نہیں کرے گا یہودیت اور عیسائیت کی راہیں جدا ہونے میں اس بات کا کلیدی کردار تھا کہ یہودی خود کو منتخب یا چنے ہوئے لوگ کہنے پر بضد تھے جو دوسرے لوگوں کی نسبت خدا سے زیادہ قریب تھے جبکہ عیسائیت مرد عورت، غلام آقا یا کسی بھی قسم کی طبقاتی تفریق کو نہیں مانتی تھی۔

”صرف انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے جدید سائنس کے میدان میں غیر معمولی کارنامے انجام دیے۔ گو کہ اس دور میں دنیا میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب کل آبادی کا عشاریہ دو فیصد سے بھی کم رہا تاھم سائنس میں نوبل انعام حاصل کرنے والے بیس فیصد لوگ یہودی تھے۔ لیکن اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ یہ کارنامے انفرادی طور پران لوگوں نے انجام دیے جو یہودی تھے، یہودیت کا بطور مذہب ان کامیابیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہودی ثقافت میں تعلیم کی مرکزی حیثیت اتنی کثیر تعداد میں یہودی سائنسدانوں کی کامیابی کی وجہ قرار دی جا سکتی ہے لہٰذا آئنسٹائن گو کہ یہودی تھا لیکن اس کی شہرہ آفاق تھیوریوں کو یہودیت کی کامیابی قرار دینا مضحکہ خیز ہو گا۔

”اس سے پہلے کہ مجھے خود سے نفرت کرنے والا یہودی سمجھا جائے میں اس بات کا اعادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ میں یہودیت کو برا مذہب نہیں کہہ رہا بلکہ صرف اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کے عظیم تر انسانی تاریخ میں یہودیت کا کردار بہت سے لوگوں کے خیالات کے برعکس کوئی بہت زیادہ خصوصیت اور اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ انسانیت کی گراں ترین اقدار میں سب سے اہم قدر خدا کے حضور عاجزی کی ہے۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگ جب خدا کی بات کرتے ہیں تو وہ عاجزی کی بجاے خدا کے نام کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر اثر انداز اور حاوی ہونے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).