مجھے جناح کا پاکستان چاہِیے


سوچتی ہوں اگر قائد کہیں اوپر سے کسی جھروکے سے پاکستان کو دیکھ سکتے تو کیا سوچتے؟ دکھ اور حیرانی ہوتی انہیں کہ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی اس ملک پر ایک کے بعد ایک فوجی نے قبضہ کیا۔ اور آدھا پاکستان گنوا دیا گیا۔

اس پر روتے کہ پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم نے آج تک اپنی ٹرم پوری نہیں کی۔ ملک کی تاریخ سیاستدانوں کے قتل، سزائے موت، فوجی انقلابات، اسمبلی کی تحلیل اور نا اہلی سے بھری پڑی ہے۔ اور پاکستان کا تین بار منتخب شدہ وزیراعظم گلے تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ جو پاکستان کی دولت چرا کر سوئس بنک میں رکھے ہوئے ہےوہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتا ہے۔ جبکہ وہ اسی ملک کا صدر رہ چکا ہے۔ جس ملک کو بنانے میں قائد نے اپنی صحت برباد کی اس ملک کے رکھوالوں کو اپنی جان اور اپنا مال بچانے کی فکر ہے۔ وہ شاید اس پر بھی آنسو بہاتے کہ ”پاک“ ملک اب گندگی کا ڈھیر ہے۔

جناح کی تاریخی تقریر کسی کو یاد ہے؟ جب انہوں نے کہا تھا ”آپ سب آزاد ہیں۔ آزاد ہیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے کو۔ مسلم ہوں یا غیر مسلم آپ سب پاکستانی ہیں“ ان کی تقریر کے یہ حصے نہایت چالاکی اور بد نیتی سے غائب کر دیے گئے۔ قائد دل کو تھام لیتے اقلیتوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک دیکھ کر۔ چرچ اور مندر جلائے جا رہے ہیں۔ غیر مسلموں کو کہیں زندہ جلایا جا رہا ہے کہیں انہیں چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ عقیدے کا اختلاف برداشت سے باہر ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ دوسرے عقیدے والوں کو مار دیا جائے۔ میرے جناح پروگریسو تھے، موڈریٹ تھے، متوازن تھے۔ اسلامی تھے لیکن خدا کے واسطے انہیں مولوی مت بنایئے۔ وہ ملایئت کے مخالف تھے۔ وہ کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر کسی کی تفریق نہیں کرتے۔

یہ خیال ہی غلط ہے کہ پاکستان مسلمانوں کے لئے بنا تھا۔ پاکستان بنا تھا اسلام کے اصولوں پر چلنے کے لئے۔ جہاں لوگ امن سے رہ سکیں۔ جہاں ہر انسان کی بلا تفریق تکریم ہو اور سب کو برابر کے حقوق ہوں۔ یہ تصور قران نے دیا اور رسول اللہ نے مدنیہ میں ان اصولوں پر اسلامی ریاست بنا کر دکھا دی، جہاں غیر مسلم تو کیا کافروں کے بھی حقوق تھے۔ جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آ کر بسنا چاہتے تھے کیونکہ وہاں امن تھا۔ یہ وہ خیال تھا جو اقبال کے ذہن میں تھا اور اس خیال اس خواب کو حقیقت بنانے کا کام جناح نے کیا۔ کچھ مولویوں نے نہ صرف دو قومی نظریہ کی مخالفت کی بلکہ قائد اعظم کو کافرِ اعظم تک قرار دیا اور پاکستان کو ناپاکستان یا پلیدستان کے القابات سے پُکارا۔

قائد ہوتے تو ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ کو برابر کی تکریم دیتے۔ ڈاکٹر روتھ اور ایدھی کی خدمات کو سراہتے۔ وہ کام دیکھتے نام اور حسب نسب نہیں۔

جس ملک کے حصول کے لئے جناح نے دن رات ایک کیا، اسے امن کی جگہ بنانا چاہا وہ ملک آج شدید دہشت گردی کا شکار ہے۔ جن مذہبی جماعتوں نے دل کھول کر جناح کی مخلفت کی اور منہ کھول کر انہیں گالیاں دیں، کافر کہا وہ ایک ایک کر کے یہاں آ بسے اور اب اس ملک کی ٹھیکیداری کرنے پر تلے ہیں۔ کیا گزرتی جناح پر یہ دیکھ کر؟

وہ تقریر یاد ہے جس میں میرے جناح نے کہا تھا کہ ”کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اگر اس قوم کی عورتوں کو برابری کا درجہ نہ دیا جائے۔“ اور اب عورتوں کے لئے خطرناک ترین ممالک کی لسٹ میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔

اور ملک کے وزرا اور رہنما الحمدللہ ساری دنیا میں جایئدایں رکھتے ہیں۔ ملک کے رکھوالوں کے گھروں اور لانچوں سے اربوں روپے اور ٹنوں سونا نکل رہا ہے۔ اور اسی ملک میں لوگ راتوں کو کھلے آسمان تلے سوتے ہیں۔ بھوک سے تنگ آ کر خودکشی کر رہے ہیں۔ مایئں اپنے بچوں کو برائے فروخت کی تختی لگائے سڑک کنارے بیٹھی ہیں۔ کیا سوچتے میرے جناح؟ پتہ نہیں نیا پاکستان کیسا ہوگا مجھے تو وہ پاکستان چاہیے جو میرے قائد نے بنایا تھا۔ منہ بند کریں وہ جو خود کو قائداعظم ثانی کہلا رہے ہیں؟ قائد کا ثانی کوئی نہیں۔ کم سے ابھی تک تو نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).