تقسیم ہند کے بارے میں چند معلومات اور مسائل


ریڈکلف نے چار لاکھ پچاس ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ جس میں آٹھ کروڑ اٹھاسی لاکھ لوگ رہائش پذیر تھے، محض پانچ ہفتوں میں تقسیم کرنا تھا۔ اتنے دنوں میں تو لوکل پٹواری کی نگرانی میں ایک گاؤں کی تقسیم ممکن نہیں۔ پنجاب بارڈر اور بنگال بارڈر کے درمیان دو ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ دونوں علاقے ریڈکلف نے پانچ ہفتوں میں تقسیم کرنے تھے۔ وقت کی قلت کے علاوہ برسات اور گرمی کی وجہ سے سفر اور تقسیم کے مقامات تک پہنچنا ناممکن تھا۔ یاد رہے ریڈکلف زندگی میں پہلی دفعہ انڈیا آیا تھا۔ یہاں کی گرمی حبس اور برسات اس کے لئے ناقابل برداشت تھی۔

ممالک کی تقسیم کے لئے معیاری طریقہ کار اور مطلوبہ ماہر مشیران ریڈکلف کے پاس موجود نہیں تھے۔ اس کے پاس صرف دونوں مجوزہ ممالک کے نمائندے تھے۔ جن کا واحد مقصد اپنے اپنے مفادات کا تحفظ اور زیادہ سے زیادہ مراعات کا حصول تھا۔ اس لیے وہ ریڈکلف کے مددگار نہیں تھے بلکہ الٹا مداخلت کار تھے۔ ریڈکلف تقسیم کرنے والے علاقے کے جغرافیے اور آبادی کے بارے میں معلومات اور ان کے ذہنی، مالی، مذہبی اور سیاسی رجحانات سے مکمل بے خبر تھا۔

ریڈکلف کے ساتھ تیسری غیرجانبدار نگران جماعت یعنی اقوام متحدہ کی نمائندگی کرنے والی پارٹی موجود نہیں تھی۔ جو ایسے معاملات میں عموماً موجود ہونی ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی بارڈر اور معاہدوں میں یہ ایک معیاری طریقہ کار ہے۔ غیرجانبداری برقرار رکھنے کی خاطر ریڈکلف برطانوی حکومت کے نمائندوں اور لارڈماؤنٹ بیٹن سے فاصلے پر رہا۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کے بارے میں اس کے معلومات نہایت محدود اور نقائص سے بھرپور تھیں۔

یہ تقسیم ابادی، جائیداد، رشتہ داری، رعایت، آسانی، سیاسی اور اقتصادی رحجانات، زبان، کلچر اور انسانی جذبات و احساسات کی بجائے محض مذہبی بنیادوں پر کی گئی۔ ریڈکلف کے پاس مطلوبہ ڈیٹا اور ضروری مہارت نہیں تھی۔ ہندو سکھ اور مسلمان بارڈر کمیشن کے ممبران بنائے جانے سے مزید مشکلات پیدا ہوئیں۔ (سکھ نمائیندے کے دو بچے اور بیوی کو مارا گیا) بارڈر کمیشن میں غیرجانبدار بین الاقوامی نمائیندے لینے چاہیے تھے۔

تقسیم، ہندو مسلم مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تھی۔ لیکن پنجاب میں سکھوں اور چٹاگانگ میں بدھوں کی آبادی، علاقے اور جائیدادوں کو تقسیم کیا گیا۔ سکھوں کی پھر بھی خواہش اور آواز موجود تھی۔ بدھ مذہب کا تو کوئی نمائندہ ہی بارڈر کمیشن میں موجود نہیں تھا۔ بارڈر صرف برٹش کنٹرول انڈیا میں کھینچنی تھی۔ چھ سو کے قریب دیسی ریاستوں کو بغیر کسی فیصلے کے چھوڑا گیا۔ جن کی آبادی کل ہندی آبادی کا چالیس فیصد تھی۔ جس کی وجہ سے ابتدائی دنوں سے دونوں تقسیم شدہ اقوام کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ یوں جوناگڑھ کے راجہ اور عوام کی طرح کشمیر کے راجہ اور عوام کی مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ اور اخرکار نئے بنے ہوئے ممالک کے ساتھ اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل بنے۔

بڑی اور اہم ریاستیں جیسے گوالیار، جودھ پور، راوا، حیدرآباد، جیسلمیر وغیرہ انڈین علاقے میں تھی۔ اس لیے زبردستی بھارت میں شامل کی گئیں۔ ہندو اکثریتی علاقہ کھلنا اور بدھسٹ اکثریتی علاقہ چٹاگانگ پاکستان کو دیا گیا۔ جبکہ مسلم اکثریتی علاقے مرشد آباد اور مالدہ انڈیا کے پاس رہ گئے۔ اسی طرح سکھوں کی بڑی آبادی پر مشتمل علاقے لاہور، راولپنڈی اور ملتان پاکستان کو ملے۔ جبکہ مسلمانوں پر مشتمل بڑی آبادیاں لدھیانہ، گورداسپور اور جالندھر انڈیا لے گیا۔

سندھ کی تقسیم کی وجہ سے ہندوؤں کی پندرہ لاکھ آبادی پاکستان میں رہ گئی۔ میز پر بیٹھ کر نقشے پر لکیر کھینچی گئی۔ جس کی وجہ سے کاشتکار ایک ملک اور اس کی زمین دوسرے ملک میں رہ گئی۔ ابھی بھی بنگال میں ایسے گھر موجود ہیں۔ جن کا ایک کمرہ ایک ملک اور دوسرہ کمرہ دوسرے ملک میں موجود ہے۔

تقسیم کا پورا پلان خفیہ رکھا گیا جس کا پتہ چند ممبران کے علاوہ کسی کو نہیں تھا۔ جس کی بنا پر منتقل ہوتی ہوئی ابادی کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تقسیم کا اعلان، آزادی کے اعلان کے دو دن بعد کیا گیا۔ جس کی وجہ سے کئی دن تک انتظامیہ اور آبادی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے۔ مثلاً مشرقی پاکستان میں مالدہ پر کئی دن تک پاکستان کا جھنڈا لہراتا رہا پھر انڈین انتظامیہ قانونی کاغذات اور نقشوں کے ساتھ آیا اور مالدہ انڈیا کا حصہ بنا۔

چونکہ تقسیم کا اعلان بعد میں ہوا۔ جس کی وجہ سے مختلف علاقوں کو مجوزہ ممالک کے حوالے کرنے اور انتظامات سنبھالنے میں بہت وقت لگا۔ یوں فسادات کی وجہ سے مال و جان کا زیادہ زیاں ہوا۔ پنجاب میں ایک کروڑ چالیس لاکھ ابادی کے منتقلی کے لئے صرف پچاس ہزار حفاظتی دستے مہاجرین کی حفاظت کے لئے موجود تھے۔ یوں فی کلومیٹر ایک سپاہی کی موجودگی بھی ممکن نہیں تھی۔ دو دن کے وقفے کے بعد ریڈکلف کی وجہ سے غلط فہمی میں غلط ممالک کے علاقوں میں موجود پولیٹیکل چارج ماحول کی وجہ سے فریقین کے درمیان مخاصمتیں بڑھیں جو بعد میں غلط علاقوں میں موجود لوگوں کی قتل عام کی وجہ بنی۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani