انکشافات کی بیماری


آج سے کوئی 15، 20 سال قبل جنگ اخبار کے مڈ ویک میگزین میں ایک مورخ صاحب کا انٹرویو چھپا تھا۔ آپ نے اپنے انٹرویو میں ارشاد فرمایا تھا کہ پاکستان دراصل 14 نہیں بلکہ 15 اگست کو آزاد ہوا تھا۔ وہ تو کیونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن بیک وقت کراچی اور دہلی میں ہو نہیں سکتا تھا اس لیے 14 اگست کو اس نے کراچی میں انتقال اقتدار کی تقریب منعقد کی اور 15 اگست کو دہلی میں۔ اسی نوع کے انکشافات سے یہ پورا ہی انٹرویو بھرا تھا۔

میں تب بچہ تھا اور کیونکہ بچوں کو انکشافات بہت پسند آتے ہیں، اس لئے میں اس انٹرویو سے بہت متاثر ہوا۔ بعد میں رفتہ رفتہ جس سمت نظر گئی انکشافات ہی انکشافات نظر آئے۔ ہر سمت سے انکشافات کی یلغار تھی جو ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ ہر طرف، ہر میدان میں کوئی نہ کوئی نابغہ بتاتا کہ فلاں بات فلاں خیال جو عام ہے وہ دراصل غلط ہے اور اصل بات تو جی یہ ہے۔ ہر روایتی چیز، ہر ہر طے شدہ شے ان انکشافات کی زد میں آتی۔ کوئی شاعرِ مشرق کی مبینہ بادہ نوشی اور فیض احمد فیض کی خفیہ خدا پرستی کے واقعات سناتا۔ کوئی بتاتا کہ امریکا دراصل کولمبس نے تو دریافت کیا ہی نہیں بلکہ یہ تو ان منگولوں کی دریافت ہے جو الاسکا کے راستے وہاں پہنچے۔

کوئی یہ کہہ کر شیر کی روایتی بہادری کے تصور کو ڈھا دیتا کہ جی گیدڑ بھی دراصل بہت بہادر جانور ہے اور یہ بات اس نے ڈسکوری چینل پر دیکھی ہے۔ انکشافات جب مذہب کا رخ کرتے تو مذہبی تاریخ اورشب برأت کے حلوے سے لے کر شادی بیاہ کی رسومات تک ہر شے ان کی گرفت میں آتی۔ جب یہ انکشافات کی ہوا معلومات عامہ پر پڑتی تو قائد اعظم کی جائے پیدائش سے لے کر ان کے والد کے نام تک ہر شے بدل جاتی۔ ہمارے والد مرحوم کے ایک دوست جو 5 منٹ کی معلومات کا ایک وکی پیڈیا ہیں اور ہر شے کی بابت بولنے کا کافی جنون رکھتے ہیں، انھوں نے ایک مرتبہ انکشاف فرمایا کہ فتاویٰ عالمگیری کے جامع اورشیعی عادل شاہی سلطنت سے جنگ کرنے والے اورنگ زیب عالمگیر صاحب دراصل شیعہ تھے۔ پھر محترم کی زبان مبارک سے ایک اور انکشاف وارد ہوا کہ دراصل ملکہ نور جہاں بہت بدصورت تھی اور اسے فیل پا کی بیماری بھی لاحق تھی۔

یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ ان تمام انکشافات میں کس قدر حقانیت ہے مگر یہ طے ہے کہ یہ انکشافی ذہنیت اپنی نہاد میں ہوتی فسادی ہے۔ اس ذہنیت کا سب سے بنیادی اور مرکزی مسئلہ انفرادیت کی نہ ختم ہونے والی بیماری اور انا کا ہے۔ موجود اور معلوم کو بدلنے کی خواہش دراصل حقیقی یا علمی مسئلے کی پیداوار نہیں بلکہ خود کو نمایاں کرنے اور جدا نظر آنے کی شدید خواہش کی پروردہ ہے۔ یہ کہہ دینا کہ 14 اگست کو پاکستان معرض وجود میں آیا تھا کوئی نئی بات نہیں۔ مگر یہ کہنا کہ پاکستان 15 اگست کو معرض وجود میں آیا، لوگوں کو چونکنے پر، مڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ طے شدہ اور مسلّم پر سوال اٹھانا ہر مرتبہ ابراہیمی وصف میں نہیں ہوتا۔ بہت مرتبہ یہ عدم تحفظ کا شکار کمزور اذہان کی ایک شناخت، ایک انفرادیت پانے کی سعی ہی ہوتی ہے۔

یہ انکشافات جو قائم شدہ اور عام معلومات اور تاریخ کا انکار کرتے ہیں، دراصل کسی حقیقت کو تبدیل نہیں کرتے، نہ ہی اب کوئی ان باتوں پر مڑ کر ہی دیکھتا ہے۔ اب تو یہ انکشافات اور نت نئی باتیں رفتہ رفتہ وہی بنتی جا رہی ہیں جو ان کا حقیقی مقام ہے، یعنی مذاق۔ مگر ظاہر ہے کہ بچوں کو تو انکشافات پسند آتے ہیں اور بچپن دراصل ایک ذہنی کیفیت ہے جو بعض مرتبہ تادم مرگ جاری ہی رہتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ دور آ گیا ہے کہ انکشافات کی بیماری کے مریض بھی پریشان ہو گئے ہیں کہ اب کیا مزید انکشافات کریں۔

کیونکہ ہر موضوع پر تو اب انکشافی بمباری ہو ہی چکی۔ اسی وجہ سے اب انکشافات کے نشر مکرر (Repeat Telecast) کا دور ہے۔ انکشافی گیت مالا کسی پٹے ہوئے مذاق کی طرح اکثر محافل میں اور سنگتوں میں بجتا رہتا ہے اور سامع منہ بنا کر سنتے رہتے ہیں۔ امکانی طور پر اب وہ دن دور نہیں کہ جب ان انکشافات کے بجائے معکوس انکشافات ہوں گے۔ جب کوئی مورخ صاحب انٹرویو میں بڑے زعم سے ارشاد فرمائیں گے کہ پاکستان دراصل 14 اگست کو ہی بنا تھا۔ چلئے یوں بھی ٹھیک ہے، دائرہ مکمل ہو جائے گا۔ مگر انکشافات کی بیماری تب بھی قائم رہے گی۔ اس کا تدارک اب ممکن ہی کب ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).