مرنے کی حسرت میں جینے والی مخلوق


گاڑی کینال بینک روڈ سے اتر کر ٹریفک سگنل پر رکی۔ حسب معمول بھکاریوں کا جتھا شہد کی مکھیوں کی طرح گاڑیوں پر امنڈ پڑا۔ صبح صبح ایک ویگن انھیں یہاں چھوڑ جاتی ہے اور شام کو واپس لے جاتی ہے سارے دن کی کمائی کے ساتھ۔

وہی مانوس ِچہرے۔ وہی عمر رسیدہ عورت جس کے ہاتھ میں پلاسٹک چڑھا ہوا سفید کاغذ۔ جس پر جلی حروف میں لکھا ہے ”یہ عورت بیوہ ہے۔ بہت غریب ہے۔ اس کے چار بچے ہیں۔ اس کی مدد کریں۔“

وہی تین چھوٹے چھوٹے بچے گاڑیوں کے درمیان بھاگتے ہوئے۔ ہرگاڑی کے شیشے پر دستک دیتے ہوئے۔ کہیں سے کچھ مل گیا تو لے لیا ورنہ آگے بڑھ گئے۔ سیاہ برقع میں ملبوس عورت جس کی صرف آنکھیں نظر آتی ہیں یا آگے پھیلایا ہوا ہاتھ۔ ہر گاڑی کے پاس رکتی ہے۔ گھورتی ہے۔ بولتی کچھ نہیں۔ کچھ مل گیا تو ٹھیک ورنہ اگلی گاڑی کی طرف۔

بڑے بڑے سرخ اور پیلے پھولوں والے کپڑوں میں ملبوس عورت جس کے کولہے کے ساتھ ایک بچہ لٹکا ہوا ہے۔ بچے کی ٹانگیں ہوا میں لٹک رہی ہیں اور اس کا سر عورت کی کہنی پر ٹکا ہوا ہے۔ بچہ سو رہا ہے یا سلا دیا ہے۔ کہتے ہیں بچے کو نشہ آور دوا دیتے ہیں تاکہ سویا رہے اور بھکارن کو پریشان نہ کرے۔ بچے کی حالت کی وجہ سے بھکارن کی کمائی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بچہ اس عورت کا نہیں ہے بلکہ کرائے پر ملتا ہے۔ ٹھیکیدار عورت کی کمائی کے علاوہ بچے کا کرایہ الگ وصول کرتا ہے۔ زیادہ کمائی نہ ہو تو عورت کی پٹائی ہوتی ہے۔ شاید رات کو بھوکا بھی سونا پڑے۔

یہ بچہ آج تو نشے کی حالت میں سو رہتا ہے۔ کل جب ٹھیکدار کو اس کی ضرورت نہیں رہے گی، عمر میں بڑا ہو جائے گا، زندگی کی شاہراہ پر عملی قدم رکھے گا، جو کہ بہت چھوٹی عمر میں شروع ہو جائے گی، تواس نشے کی عادت کو کیسے پورا کرے گا۔ چوری کرے گا۔ ڈاکہ ڈالے گا۔ پھر کسی دن ویران جگہ جھونپڑی میں، کسی پبلک پارک میں، کسی فلائی اوور کے نیچے بھوک، گرمی یا سردی کی شدت سے مر جائے گا۔ دنیا میں اس کی آمد کا مقصد پورا ہو جائے گا۔

آج ہیجڑے نظر نہیں آئے شاید ان کا دن ابھی شروع نہی ہوا۔ شام کو زیادہ نظر آتے ہیں۔

آج ایک نیا چہرا نظر آیا۔ چھ فٹ کا جوان۔ بایاں ہاتھ کہنی سے نیچے کٹا ہوا۔ کہنی کے اس ٹنڈ کے ساتھ پلاسٹک کا تھیلا لٹکا ہوا۔ جس میں شاید پیسے ہیں یا پھر کھانے پینے کا کوئی سامان۔ اس کا دایاں ہاتھ ایک لڑکی نے تھام رکھا ہے۔ نوجوان شاید اندھا ہے یا اندھا بنا ہوا ہے۔ لڑکی اس کو گاڑی کے پاس لے جا کر کھڑا کر دیتی ہے۔ یہ سات آٹھ سال کی لڑکی گاڑی کی طرف نہیں دیکھتی۔ بلکہ ہوا میں گھورتی ہے۔ شاید سوچتی ہے کہ یہاں کیا کر رہی ہے۔

ذہنی طور پر وہ کہیں اور ہے۔ اس کے بھی کچھ ارمان ہوں گے۔ یہ تو اس کے سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کے دن ہیں۔ باغوں میں جھولا جھولنے کے دن ہیں۔ بہن بھائیوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنے کے دن ہیں۔ ماں سے جھاڑ کھانے کے دن ہیں۔ باپ سے پیار لینے کے دن ہیں۔ لیکن شاید اس کا کوئی نہیں۔ ماں باپ نہیں۔ کوئی بہن بھائی نہیں۔ کوئی دوست نہیں۔ اگر ہیں تو مل نہیں سکتے۔ ورنہ وہ یہاں نہ ہوتی۔ شاید اسی لئے وہ یہاں ہے۔ لیکن کب تک اس اندھے ٹندے کے ساتھ گاڑیوں کے بیچ پھرتی رہے گی۔ کل کو جب اسے اپنی ذات سے آگہی ہو گی تو کیا کرے گی؟

کہتے ہیں ٹھیکیدار کے کارندے قریہ قریہ گھوم کر ایسے کمزور، مجبور، لاچار، غریب لوگوں کو، روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کر کے لاتے ہیں اور شہر میں لا کر کاروبار کرتے ہیں۔

میرے جی میں آئی کہ میں ان کو بہت سے پیسے دوں۔ لیکن کیا ہو گا۔ کیا اس سے ان دونوں کی زندگی آسان ہو جائے گی؟ اس سے تو ٹھیکیدار کا کاروبار اور بڑھے گا۔ کمائی زیادہ ہو گی۔ لیکن لوگ ان کو بھیک نہ دیں تو ان کی پٹائی ہو گی۔ عملی طور پر مار پڑے گی۔ بھوکا سونا پڑے گا۔ ان لوگوں کی زندگی تو اب اسی پیشے سے جڑی ہے۔ ان لوگوں کا جینا مرنا، پیٹ بھر کر کھانا یا بھوکا سونا اب اسی چیز سے جڑا ہے۔

کون سے سپنے اور کون سے ارمان؟

کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

مگر کیسے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).