مگر میں بھوتوں سے نہیں ڈرتا


مجھے بھوتوں سے الحمد للہ ڈر نہیں لگتا۔ یہ دعویٰ نہیں حقیقت ہے۔ چلیے آپ اسے ”بڑ“ سمجھئے۔ بلکہ مجھے بھوتوں سے بات کرنے کا شوق ہے۔ کل میری ایک بھوت سے بات ہوئی۔ بھوت بہت ناراض تھا۔ کہہ رہا تھا کہ مجھے مرے اتنا بہت سا عرصہ بیت گیا مگر آپ لوگ کیوں مجھے اپنی باتوں میں گھسیٹ لاتے ہیں؟ یہ بھوت بڑا دلچسپ قسم کا ہے۔ یہ بڑے عجیب انداز میں گفتگو کرتا ہے۔ میں نے اس سے اس کا نام پوچھ لیا۔ وہ سینہ تان کر بڑے غرور سے بولا۔

”میں جنرل جیلانی ہوں! “

میں سمجھ گیا کہ جنرل صاحب مجھ سے ناراض کیوں ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے ایک مضمون میں نواز شریف کے حوالے سے ان کا نام لیا تھا۔ ہمیشہ ہی جنرل صاحب کا نام نواز شریف صاحب کے حوالے سے ہی آتا ہے۔ آج تو جنرل صاحب ایک بھوت ہیں مگر کبھی وہ جنرل ضیاء الحق کے دست راست ہوا کرتے تھے۔ تب آپ نے مسلم لیگ فنکشنل کے لیے نواز شریف صاحب کو چنا تھا۔ یہ چناؤ کچھ ویسا ہی تھا کہ جیسا کہ راج کپور کی فلم ”رام تیری گنگا میلی“ میں منداکنی صاحبہ نے غیر معروف کپور کو چنا تھا۔ اِس چناؤ میں منداکنی نواز شریف تھے مگر گالی جنرل جیلانی کا بھوت ہی ہمیشہ سے کھا رہا ہے۔ بھوت بڑے دکھ سے ان دنوں کو یاد کر کے گنگنایا۔

”میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چن! “

میں بھوتوں سے ڈرتا نہیں اس لیے میں نے جنرل صاحب سے بڑے تلخ سوالات پوچھے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ لوگ سیاست دان ایجاد کر کے ملک پر مسلط کریں۔ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ ملک کے منتخب حکمرانوں کو دار پر کھینچیں، جیلوں میں ڈالیں، انہیں غدار قرار دیں اور خود کو قوم کا خیر خواہ؟

ان سوالات کے جواب میں جنر ل صاحب نے بڑے جلال میں مجھ سے کہا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان سوالات کی پاداش میں میرا سر کاٹ دیتے۔ میں نے حیرت سے ان سے دریافت کیا کہ بھوتوں کے پاس بھی تو بڑی قوتیں ہوتی ہیں۔ وہ ان کا استعمال کر کے ہی میرا کچھ بگاڑ دیں۔ اس بات پر جنرل صاحب نے ہاتھ ملے اور بولے کہ وہ محض ڈرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر اگر کوئی ان سے ڈرتا نہ ہو تو وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ پھر انہوں نے متھن چکروتی کی فلم اعلان کا ڈائیلاگ متھن کے ہی انداز میں بولا۔ ”جب تک ڈر ہے تب تک بابا سکندر ہے“

میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ڈر والی بات ان کی موت سے زیادہ ان کی زندگی پر صادق نہیں آتی؟ اس طنز پر جنرل صاحب کے منہ سے غصے میں جھاگ نکلنے لگا۔ میں ان کے غصے سے صریحاً متاثر نہ ہوا تو وہ خود بخود نارمل ہو گئے۔ پھر بولے کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن میں گھناؤنے کردار پر جنرل عمر کو تو اتنی گالیاں نہیں پڑتیں، ان کے ایک بیٹے اسد عمر صاحب تحریک انصاف کے مزے لوٹ رہے ہیں اور دوسرے صاحب زادے ن لیگ کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔

پھر وہ منہ بسور کے رونے کی ایکٹنگ کرنے لگے۔ میں ان کے آنسوؤں سے متاثر نہ ہوا اور ان سے کہا کہ حضرت، جنرل غلام عمر صاحب بھی ان کی ہی طرح گالیاں کھاتے ہیں اور ان سے کہیں زیادہ گالیاں جنرل ٹکا خان، جنرل نیازی وغیرہ کے حصے میں آتی ہیں مگر وہ سب لوگ بھوت بن کر یوں شریف افراد کے پاس نہیں آتے۔ اس پر جنرل صاحب بپھر گئے اور بڑے جلال میں گرجے کہ اوپر مذکور تمام افراد تو 1971 کے سانحے کی وجہ سے معتوب ٹھہرے مگر ان کا قصور کیا ہے؟ یہ کہ نواز شریف ان کی ایجاد ہے؟ وہی نواز شریف جو آج جمہوریت کی نشانی بنا ہوا ہے؟ جمہوریت پسندوں کو تو ان کی آرتی اتارنی چاہیے کہ انہوں نے اتنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیرو عطا کیا۔

میں جنرل صاحب کی اس دلیل پر مسکرایا اور عرض کی کہ مسئلہ جمہوریت یا آمریت نہیں، جمہوریت بھلے سے بھاڑ میں جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی تجربہ گاہ میں بنے سیاست دان ہمیشہ کسی نہ کسی سے تنخواہ لینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے نہ لی، تنخواہ تو امریکا سے لے لی، بھارت سے لے لی، روس، چین یا اسرائیل سے لے لی۔

اس بات پر جنرل صاحب تھوڑے متفکر نظر آئے۔ پھر بولے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ براہ راست، بغیر ان سیاست دانوں کے اقتدار میں رہے؟ کیا یہ عوام کے لئے قابل قبول ہو گا؟ دنیا کے لئے قابل قبول ہو گا؟ یہاں تک کی گفتگو کے بعد جنرل صاحب بڑے بے سرے انداز میں فلم ”ہم“ کا گانا گانے لگے۔

”چما چما دے دے

چما چما دے دے

جمعے کو تو نے کیا چمے کا وعدہ

جمعے کو توڑ دیا چمے کا وعدہ

لو آ گیا ہے پھر جمعہ ”

میں نے جنرل صاحب کو اس گھٹیا ذوق پر ڈانٹ پلا دی اور جب وہ خاموش ہو کر مجھے گھورنے لگے تو میں نے کہا کہ جنرل صاحب آپ لوگ یہ نقلی سیاست دان اپنی تجربہ گاہوں میں ایجاد کرتے ہیں۔ آپ اِس امید پر انہیں میدان سیاست میں اتارتے ہیں کہ وہ ہمیشہ آپ کے ہی وفادار رہیں گے مگر وہ عوامی ستائش اور لیڈری کے مزے لگنے کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ آپ کی ایجاد ہیں۔ پھر وہ حقیقی حکمران بننے کے سپنے دیکھتے ہیں اور نتیجے میں وہی کچھ ہوتا ہے جو آج ان کے معنوی صاحب زادے نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس بات کو سن کر جنرل صاحب کی آنکھوں میں کمینی چمک نمودار ہوئی اور وہ ”واستو“ فلم کے نیتا جی کا وہ مکالمہ مارنے لگے جو اس نے سلمان بادشاہ (پاریش راول) کے سامنے بولا تھا۔

”یہ رگھو اب حد سے بڑھ گیا ہے رے۔ اس نے اس پارسی بڈھے کو مارا ناں؟ “

میں نے جنرل صاحب کو ہاتھ کے درشت اشارے سے مزید بولنے سے روک دیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ”واستو“ فلم میں نے دیکھی ہوئی ہے اور مجھے سنجیدہ گفتگو میں فلمی تڑکا پسند نہیں۔ جنرل صاحب میری اس بات پر سنجیدہ ہو گئے اور جو انہوں نے کہا وہ میں انہی کے الفاظ میں نیچے نقل کر رہا ہوں۔

”اگر اتنے ہی حقیقت پسند اور سنجیدہ ہو تو ہمیں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لو۔ یہ مان لو کہ تم کو ہماری چھتر چھایا میں ہی جینا اور مرنا ہے۔ یہ مان لو گے تو ان فضول مباحث میں نہیں پڑو گے اور مجھ پر تنقید کرنے کے بجائے میری عزت کرو گے۔ مجھ سے ڈرو گے۔ “

مگر میں بھوتوں سے نہیں ڈرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).